کیسے ممکن ہے نگراں وزیراعظم کا فیصلہ مرکز منہاج القرآن میں ہو؟

لطیف چوہدری  جمعـء 18 جنوری 2013
تحریک انصاف، متحدہ اور اے این پی  ودیگر اپنے لوگ ایڈجسٹ کرالیں گے، تجزیہ فوٹو: آئی این پی

تحریک انصاف، متحدہ اور اے این پی ودیگر اپنے لوگ ایڈجسٹ کرالیں گے، تجزیہ فوٹو: آئی این پی

لاہور: اسلام آباد میں تحریک منہاج القرآن کے دھرنے کے چوتھے روز ڈاکٹر طاہر القادری اور حکومت کے درمیان 5گھنٹے کے طویل اور اعصاب شکن مذاکرات کے بعد ڈراپ سین ہوگیا۔

معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ نگران سیٹ اپ کی تشکیل کیلیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے۔ یوں 4روزہ ڈرامے کا فائدہ پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی جماعتوں کو بھی ہوا۔ اب نگران سیٹ اپ میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی کے علاوہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور تحریک منہاج القرآن بھی اپنے لوگ ایڈجسٹ کرانے میں کامیاب ہو جائینگی۔ ق لیگ، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف بھی اسی مقصد کیلیے طاہر القادری کی حمایت کر رہی تھیں۔ اسٹیبلشمنٹ بظاہر سامنے نہیں آئی لیکن اب نگران سیٹ اپ میں وہ بھی ایک سٹیک ہولڈر بن جائیگی۔

وفاقی حکومت اور طاہر القادری کے درمیان طے پانیوالے معاہدے کے آئندہ انتخابات پر گہرے اثرا ت پڑینگے۔ ن لیگ اور پی پی کیلئے یہ امر اطمینان بخش رہا کہ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین ابراہیم پر کوئی تنازع نہیں رہا البتہ نگران سیٹ اپ میں اقتدار کے تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہونگے۔ الیکشن کمشن میں بھی تبدیلیاں ہونگی۔ اس لئے آئندہ الیکشن میں سب کو اپنا اپنا حصہ ملے گااور شاید ہی کوئی جماعت قومی اسمبلی میں قطعی اکثریت حاصل کر پائے۔

15

 

عام انتخابات اور نگران سیٹ اپ کی تشکیل سے پہلے طاہر القادری کی انتخابی اصلاحات کو تسلیم کر لینا پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کیلئے نیک شگون قرار نہیں دیا جا سکتا، اب یہ سوال بھی بڑا اہم ہو گیا ہے کہ اگر اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کی جاتی ہیں تو کیا شہباز شریف بھی پنجاب اسمبلی کو تحلیل کرنیکا مشورہ دیں گے؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ اب اسمبلیاں 16 مارچ کو نہیں بلکہ اس سے پہلے تحلیل کرنیکی بات کی گئی تاکہ 90 روز میں انتخابات کا انعقاد ہو سکے۔وفاقی حکومت نے طاہر القادری سے مذاکرات کے دوران مسلم لیگ ن کی قیادت کو بیک ڈور چینل سے آگاہ تو کیا ہو گا لیکن اس ساری مشق میں مسلم لیگ ن تنہائی کا شکار رہی۔

طاہر القادری کسی نہ کسی حوالے سے وہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو پاور گیم کے سٹیک ہولڈر چاہتے تھے۔ ان سٹیک ہولڈرز میں اندرونی ہی نہیں عالمی سٹیک ہولڈر بھی شامل ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا سربراہ 7 برس کی گمنامی کے بعد اچانک کینیڈا سے پاکستان آئے اور پھر تن تنہا لاہور سے مارچ کرتا ہوا اسلام آباد پہنچ جائے اور آخر میں اکیلا 8 حکومتی مذاکرات کاروں سے نگران حکومت کی تشکیل کے طریقہ کار پر مذاکرات کرتا رہے۔ یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ نگران وزیراعظم کا فیصلہ مرکز منہاج القرآن میں ہو۔ اسلام آباد میں یہ مذاکراتی تماشا ہوتا رہا اور پوری قوم ٹیلی ویژن سکرینوں پر بے بسی سے دیکھتی رہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔