ابا آپ کچھ نہیں جانتے…

شیریں حیدر  اتوار 16 اپريل 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

زندگی ایک گنبد کی طرح ہی تو ہے جہاں ہمیں اپنی آوازوں کی اور یادوں کی باز گشت کا بارہا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

’’مبارک ہو… بیٹا ہوا ہے، ماں بیٹا دونوں خیریت سے ہیں!!‘‘ اس آواز نے مجھے ماضی کے کئی برس پیچھے دھکیل دیا، ہاں یہ آواز میں نے لگ بھگ پچیس برس پہلے بھی سنی تھی۔ میں نے یہ آواز ایک بار پھر اس کے دو برس کے بعد سنی تھی مگر اس وقت اس آواز کے الفاظ کچھ اور تھے ’’ مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے، بچی خیریت سے ہے، زچہ کے لیے دعا کریں ، ڈاکٹر اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں!! ‘‘ اس سے قبل ایسی آوازیں میں نے فلموں اور ڈراموں میں سنی تھیں، سوچا ہی نہ تھا کہ کبھی میں اس صورت حال کا سامنا یوں کروں گا کہ اس فلم کا ہیرو میں ہوں گا، ڈاکٹر سر توڑ کوشش کریں گے اور ہیروئین موت و حیات کی جنگ ہارجائے گی۔

تمہارے چہرے پر مجھے وہی لو نظر آئی ہے جو میرے چہرے پر تمہاری پیدائش کے وقت تھی، تم ہماری پہلی اولاد، تمہاری آمد نے ہمیں محبت کے ایک نئے مفہوم سے ایک نئے ذائقے سے آشنا کروایا تھا۔ تم بالکل اسی طرح تھے جس طرح اس وقت اس اسپتال میں ، اس پنگھوڑے میں لیٹا ہوا یہ ننھا سا وجود… بے بسی کی انتہا کو چھوتا ہوا، اپنی کسی بھی ضرورت کے بارے میں بتانے سے قاصر۔ ہم تمہارے رونے کی آواز سے خود ہی مطلب اخذ کر لیتے اور تمہیں ہمہ وقت پر سکون اور مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے۔ تم رات کو کسی تکلیف کے باعث سو نہ پاتے تو ہم دونوں رات آنکھوں میں کاٹ دیتے، اپنی بانہوں کے جھولے میں جھلا کر تمہیں پر سکون رکھنے کی کوشش میں ، نیند کے باعث اپنی آنکھوں میں چبھتے کنکر بھی ہمیں پھول اورستارے محسوس ہوتے۔ تمہارے ہونٹوں کی ایک معصوم مسکراہٹ ہماری رات بھر کی تھکان کو سمیٹ لیتی تھی۔

ابھی تو تم خود ہی ننھے سے تھے مگر تمہاری ماں نے تمہارے حوالے سے تمہارے بیاہ اور تمہارے بچوں کے خواب بن لیے تھے۔ اس کی زندگی کی مہلت ہی اتنی تھی کہ اس نے ایک اور زندگی کو جنم دیتے ہوئے خود موت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ آج وہ خود یہاں موجود نہیں ہے مگر اس کے ان دو سالوں میں کئی بار دیکھے گئے سپنوں کی تعبیر میرے سامنے ہے۔

میں نے اپنی عمر تم دو بہن بھائی کے لیے وقف کر دی، تجرد کی زندگی گزاری کہ تم دونوں پر کوئی کڑا وقت نہ آئے، میں کسی اور کے ساتھ رہتے ہوئے تم دونوں کے حقوق سے غافل نہ ہو جاؤں ۔ میں نے تم دونوں کو کتاب زندگی کے سارے ابواب پڑھائے ہیں مگر ہوا کیا… تم دونوں سمجھتے ہوکہ ابا کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ ’’ ابا آپ کچھ نہیں جانتے!‘‘ تم دونوں کا پسندیدہ فقرہ ہے جسے تم دونوں سب سے زیادہ کثرت سے استعمال کرتے ہو۔

’’ ابا ہاتھ سے اپنے ماتھے سے پسینہ نہ پونچھا کریں !‘‘ ان ہی ہاتھوں سے میں نے تم لوگوں کے پیروں سے مٹی بھی صاف کی ہے، تمہارے گرد آلود کپڑے بھی جھاڑے ہیں ،ا س وقت جب تم خود یہ سب کچھ کرنے کے لائق نہ تھے۔

’’ کھانے کے بعد انگلیاں نہ چاٹا کریں !!‘‘ تم لوگ اپنے پورے پورے ہاتھ منہ میں ڈال لیتے تھے، کبھی انگلیاں چوستے تھے، دانت نکلنے کی عمر میں تم دونوں نے میری ان انگلیوں کو بارہا دانتوں سے کاٹا ہے۔

’’ ہاتھ سے چاول نہ کھایا کریں ‘‘ اپنے نام نہاد مینرز اور ایٹی کیٹس کے نام پرسنت کی تقلید سے بھی منع کر دیتے ہو تم لوگ۔

’’ گلاس پکڑنے سے پہلے ٹشو پیپر سے سالن والے ہاتھ صاف کر لیا کریں!‘‘ میں تو ہر وقت با وضو ہوتا ہوں ، پاکی ناپاکی سے آگاہ، اگر جو ذرا سا گلاس میرے ہاتھ لگانے سے گندا ہو بھی جاتا ہے تو اسے باقی برتنوں کے ساتھ دھلنا ہی تو ہوتا ہے۔

’’ ایسے گھر والے کپڑوں میں ہمارے دوستوں کے سامنے نہ آ جایا کریں!‘‘ میں تم تمہیں ہر جگہ اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتا تھا، تم لوگوں کے کپڑے گندے سندے بھی ہوتے تھے تو میں بلا جھجک تمہیں اپنی بانہوں میں اٹھا لیتا تھا۔

’’ فون پر اتنا اونچا نہ بولا کریں ! ‘‘ عمر کے ساتھ اعضاء ضعیف ہو گئے ہیں۔ اونچا سنتا ہوں تو اونچا بولنے کی بھی عادت ہو گئی ہے، مگر میں بولتا ہی کتنا ہوں ، ہر وقت تم دونوں کی تو سنتا رہتا ہوں ۔

’’ ایک بات کو بار بار نہ پوچھا کریں !‘‘ تم سو بار بھی ایک ہی سوال پوچھتے تھے تو میں سو بار مسکرا کر جواب دیتا تھا، میں ایک سے دوسری بار ایک بات پوچھ لوں تو تم لوگوں کے ماتھے کے بل واضح نظر آنے لگتے ہیں۔

’’ جو بات آپ کے ساتھ نہ کی جا رہی ہو اس میں مداخلت نہ کیا کریں! ‘‘ میرے ساتھ تو تم لوگ کوئی بات کرتے ہی نہیں ہو نہ کوئی سوال نہ مشورہ… اپنی مرضی سے پسند کرکے تم نے شادی کا پلان بھی بنا لیا اور مجھے اطلاع کر دی، میں نے جو کچھ سوچ رکھا تھا اسے اپنے دل میں ہی دفن کر لیا۔

’’ دھلے ہوئے کپڑوں میں سے اپنے کپڑے نکال کر علیحدہ کر لیا کریں ! ‘‘ بہو آئی تو اس نے بھی تم دونوں کا میرے ساتھ رویہ دیکھا اور اس کا سلوک بھی ویسا ہی ہے جیسا اس نے تمہارا دیکھا ہے۔ اچھا ہے تمہاری ماں یہ برے دن دیکھنے کے لیے نہیں ہے، عورتوںکے سپنے کانچ کی چوڑیوں کی طرح ہوتے ہیں، اپنی ایک چوڑی ٹوٹ جانے پر متاسف ہونے والی لڑکیاں مائیں بن کر سارے سپنے اولاد کے حوالے سے دیکھتی ہیں، وہ ٹوٹیں تو وہ ڈیپریشن کی مریضہ بن جاتی ہیں۔

’’ گھر سے باہر جاتے ہوئے ہم سے زیادہ باز پرس نہ کیا کریں!‘‘ میں تو تم لوگوں کی حفاظت کی خاطر سوال کرتا ہوں کہ مجھے علم ہو کہ تم کہاں جا رہے ہو۔ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ کہیں کوئی حادثہ ہوتا ہے تو سوچ سوچ کر ہلکان ہوتا ہوں کہ کہیں میرے بچے وہاںتو نہیں تھے، کیونکہ مجھے علم ہی نہیں ہوتا کہ تم لوگ کہاں پر ہو۔

’’ آپ کے reflexes کمزور ہو گئے ہیں اب آپ گاڑی نہ چلایا کریں!‘‘ ہمیشہ اپنے سپنوں کو پس پشت ڈال کر تمہاری خواہشات کو پورا کرنے کے لیے گھوڑے کی طرح بھاگتا رہا ہوں، اب آ کر ایسا ہوا ہے کہ اپنے لیے ڈھنگ کی گاڑی لی ہے کہ کبھی کبھار دوستوں سے ملنے چلاجایا کروں گا۔ وہ گاڑی بھی تم لوگوں کی نظر میں خار کی مانند کھٹکتی ہے اور تمہارے ہی زیر استعمال رہتی ہے، اسے اپنے پاس رکھنے کے لیے تم نے اچھا عذر تراش رکھا ہے۔

دعا تو بہت کرتا ہوں کہ تمہارے ساتھ ایسا نہ ہو مگر ازل سے ایسا ہوتا آیا ہے، یہی ریت ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے ساتھ ایسا نہ ہو جو کچھ آج تم میرے ساتھ کر رہے ہو۔ جس پنگھوڑے کے پاس کھڑے ہو کر تم اپنے نومولود کو حیرت سے دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہارا خون ہے۔ تم نے کئی ماہ تک اس کے حوالے سے سپنے بنے ہیں اور اب تم ہر نئے دن کے ساتھ اس کے مستقبل کے حوالے سے خواب دیکھو گے، اس کی کامیابیوں پر مسرور اور ناکامیوں پر دکھی ہو جاؤ گے… اسے زندگی برتنے کے سارے سبق خود پڑھاؤ گے،اسے انگلی تھام کر چلنا سکھاؤ گے، گر کر سنبھلنا سکھاؤ گے!! کبھی میں بھی اس پنگھوڑے کے پاس کھڑا تھا، تم اپنے نومولود کی طرح اس پنگھوڑے میں سے لیٹے تھے، ایک محفوظ دنیا سے اس دنیا میں آئے تھے جہاں قدم قدم پر خطرات ہیں ، میں نے تمہیں ان تمام خطرات سے بچا کر پالا اور جب تم اس قابل ہوئے تو میں نے تمہیں ان خطرات سے نمٹنا سکھایا۔

یہ نہ سمجھنا کہ میں برا باپ ہوں۔ دنیا کا ہر باپ ایک ہی جیسا ہوتا ہے، بس اولاد اسے سمجھ نہیں پاتی، اس وقت تک جب کہ وہ خود باپ یا ماں نہیں بن جاتی۔ اس وقت بھی انھیں اتنا احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس کی ناقدری کرتے رہے ہیں تا وقتیکہ ان کے سر سے وہ شفیق سایہ اٹھ نہ جائے جو انھیں زمانے کے سرد و گرم سے بچاتا رہا ہے۔ یہی ریت رہی ہے، یہی ہر باپ کے ساتھ ہوتا آیا ہے، یہی میرے ساتھ ہو رہا ہے… کل کو!! کل کو تمہارا یہ نومولود جو ابھی اپنی آنکھیں بھی نہیں کھول پا رہا ہے، جسے تم ایک کمزور سے پودے کی طرح پالو گے، جب یہ تناور درخت جیسا ہوجائے گا تو تمہیں آنکھیں نکال نکال کر کہے گا، ’’ ابا آپ کچھ نہیں جانتے!!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔