ماحول اور بدلتے موسم ؛ ایک نیا سبق جسے پڑھنا ہی ہوگا

شبینہ فراز  اتوار 16 اپريل 2017
مویشیوں کے لیے چارا لانا، کاٹنا اور گھریلو استعمال کے لیے دوردراز علاقوں سے پانی لانا شامل ہے۔  فوٹو : فائل

مویشیوں کے لیے چارا لانا، کاٹنا اور گھریلو استعمال کے لیے دوردراز علاقوں سے پانی لانا شامل ہے۔ فوٹو : فائل

بائیس اپریل کو دنیا بھر میں یوم الارض کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کو Environmental and Climate Literacy  کے عنوان کے تحت منایا جائے گا۔ یوم الارض منانے کا آغاز 1970میں ہوا تھا اور آج سے تین سال یعنی 2020 میں یوم الارض کے آغاز کی پچاسویں سال گرہ منائی جائے گی۔ اس حوالے سے جو عنوان منتخب کیا گیا ہے اسے ایک مہم کی شکل میں آنے والے تین سالوں میں جاری رکھا جائے گا۔ ماحولیات اور کلائمٹ لٹریسی یعنی ماحول اور بدلتے موسموں کے حوالے سے پڑھائی جسے ہم آگاہی کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہر طالب علم پر لازم ہے کہ وہ اس حوالے سے تعلیم اور آگاہی حاصل کرے اور ہر استاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے طالب علم کو ماحول اور بدلتے موسموں کے حوالے سے باشعور بنائے۔ یہ جان لیجیے کہ موسموں کا تغیر اب نوشتۂ دیوار بن چکا ہے۔

یہی موسموں کا تغیر ہے کہ اپریل کے گرم مہینے میں ملک کے بالائی علاقوں میں برف باری ہورہی ہے۔ سردیاں اب سردیاں نہ رہیں نہ گرمیاں گرمیاں رہیں۔ ایک افسوس ناک خبر یہ بھی آئی کہ محکمۂ موسمیات نے موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کے شدید ترین اور نہایت تشویش ناک پہلو سے آگاہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگلے چند سالوں میں پاکستان سے موسم بہار کا خاتمہ ہوجائے گا۔ محکمۂ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے پاکستان کا درجۂ حرارت بھی بڑھ چکا ہے۔ اب موسم سرما کے بعد فوراً بعد موسم گرما زور پکڑ جائے گا، یوں دونوں موسموں کے درمیان کا وقفہ جسے بہار کا موسم کہا جاتا ہے بہت مختصر سا ہوگا، جو نہ ہونے کے برابر ہوگا۔ ماہرین کے مطابق موسم بہار میں پھولوں کے کِھلنے اور ان کے افزائش پانے کی مخصوص مدت مختصر ہوجائے گی یوں ہم آہستہ آہستہ کھلتے ہوئے پھولوں اور موسم بہار کا جوبن دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے۔

ماہرین نے اس کی وجہ موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے عالمی درجۂ حرارت میں ہونے والے اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کو قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کلائمٹ چینج کے نقصانات کے حوالے سے پاکستان پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔ چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے اثرات گذشتہ برس اگست کے بعد سے واضح طور پر سامنے آنا شروع ہوئے ہیں۔ کلائمٹ چینج ہی کی وجہ سے اس بار موسم سرما کے معمول میں تبدیلی ہوئی اور جنوری کے آخر میں شدید سردیوں کا آغاز ہوا۔

تاہم اب اس کی وجہ سے کسی ایک موسم کا سرے سے ختم ہوجانا نہایت تشویش ناک امر ہے۔ موسمیاتی تغیر کی وجہ سے موسموں کے طریقۂ کار (پیٹرن) میں تبدیلی کا عمل سہنے والا پاکستان واحد ملک نہیں۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ گذشتہ برس ایک امریکی تحقیق کے مطابق امریکا میں موسم خزاں کا دورانیہ بھی کم ہورہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث اب سردیوں میں موسم کی شدت کم ہوگی جب کہ موسم گرما بھی اپنے وقت سے پہلے آجائے گا یعنی خزاں کا دورانیہ کم ہوگا اور پھولوں کو مرجھانے اور پتوں کو گرنے کا ٹھیک سے وقت نہ مل سکے گا۔ گویا بدلتے موسموں سے بہار اور خزاں دونوں کو خاتمے کا خطرہ ہے۔

یہ حقیقت اب روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ پاکستان بدلتے موسموں کی زد میں آئے ہوئے ممالک میں سرفہرست آچکا ہے اور وہ قدرتی آفات کے مقابلے میں جانی اور مالی نقصان کی صورت ایک بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ قیمت پاکستان میں سالانہ 6 سے 14 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔ اگر صرف 2010 کے سیلاب بلاخیز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی معیشت 2010 میں 10ارب ڈالر کا نقصان اٹھاچکی ہے۔ اب جب کہ ہم نے ’’نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی‘‘ تیار اور کابینہ سے منظور کرواہی لی ہے تو یقیناً پہلی ترجیح اس نقصان کو روکنا یعنی قدرتی آفات سے نمٹنے کی پیش بندی ہے۔ یہ پالیسی بدلتے موسموں کے مضر اثرات کا مقابلہ (Mitigation)اور ان اثرات سے ہم آہنگی یا مطابقت (Adaptation) دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ بدلتے موسموں سے مطابقت (Adaptation) کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ بہت کم لیکن ان کے نقصانات بھگتنے والوں میں اس کا نمبر سرفہرست ہے۔ مالی وسائل اور جدید تیکنیک کی عدم دست یابی اور کم تر صلاحیتوں کے باعث ہم اس بلا کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہرگز نہیں ہیں، جس کا نام کلائمٹ چینج ہے۔

پلاننگ کمیشن کی دستاویز ’’وژن2030‘‘ میں متعین کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ترقیاتی راہ پر گام زن رہنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس نئے چیلینج کا سامنا کرنے کے لیے میدان تیار کرے۔ مطابقت پیدا کرنے کے لیے مناسب اقدامات وضع کرنے اور ان کے نفاذ کے ذریعے ہی ملک کے لیے آبی، غذائی، اور توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن ہوسکے گا۔ نیز انسانی زندگی، صحت اور املاک پر قدرتی سانحات کے اثر کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے، جب کہ بدلتے موسموں کے مضر اثرات سے بچاؤ(Mitigation) کے ضمن میں پاکستان کا گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بین الاقوامی معیارات سے خاصا کم ہے۔ 2008 میں پاکستان کا کل اخراج 310 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے برابر تھا۔ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 54%، میتھین36%، نائٹرس آکسائیڈ9%، کاربن مونو آکسائیڈ 0.7%، وغیرہ شامل تھا۔ پاکستان میں توانائی کا شعبہ پاکستان میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو تقریباً 51%اخراج کا سبب ہے اور اس کے بعد زرعی شعبہ 39% ، صنعتی عمل 6%، اراضی کا استعمال، اراضی کے استعمال میں تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی 3%، اور ایک فی صد فضلہ شامل ہے۔ لہٰذا اگر دیکھا جائے تو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے بنیادی اہداف توانائی اور زراعت کے شعبے ہیں۔

نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ دستاویز یقینا بدلتے موسموں کے حوالے سے بیشتر موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور تفصیلی طور پر ہر موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی میں پاکستان میں جاری بھیانک لوڈشیڈنگ، پانی کی کمی کے پیش نظر خصوصی توجہ کے شعبے میں پانی، خوراک اور توانائی کا تحفظ شامل ہے۔ بدلتے موسم جس طرح آب وہوا تبدیل کر رہے ہیں ان میں گلیشیئروں کا پگھلاؤ بھی ایک اہم مظہر ہے، اس حوالے سے اس پالیسی میں تھرڈ پول یعنی ہندوکش، قراقرم کے علاقے کے گلیشیئرز کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں موجود گلیشیئرز دریائے سندھ کے طاس کے کل بہاؤ کے 50% کا سبب ہیں جو پاکستان کے کسانوں کے لیے زندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ذرائع کے مطابق زراعت جی ڈی پی کے 23% اور کل روزگار کے 44% کی حامل ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلاؤ اور آبی وسائل پر بدلتے موسموں کے منفی اثرات کو کم کرنا اور ان سے مطابقت پیدا کرنا اسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ان اثرات اور اسباب کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے اور یہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہم اس حوالے سے سائنسی انداز کی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی استعمال کریں۔

اگر ملکی منظرنامے کا بغور جائزہ لیا جائے تو کلائمٹ چینج پالیسی کے بعد ایک نئی اور مثبت پیش رفت یہ ہوئی کہ وفاقی کابینہ نے ’’ پاکستان کلائمیٹ ایکٹ ‘‘ کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بل مرکزی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔ چوںکہ 18 ویں ترمیم کے بعد ماحول اور کلائمٹ چینج صوبائی مسئلہ بن چکا ہے، لیکن بین الاقوامی کنونشن اور معاہدوں پر عمل درآمد وفاق کا کام ہے، لہٰذا ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پہلی مرتبہ پاکستان کلائمٹ اتھارٹی کے نام سے ادارہ قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اتھارٹی کا سربراہ وزیر اعظم یا ان کا نام زد کردہ کوئی شخص ہوگا، جب کہ وفاقی حکومت موسمیاتی تبدیلی کے وفاقی اور صوبائی وزیروں کو مقرر کرے گی۔ یہ کونسل موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم ترین فیصلے کرنے کی مجاز ہوگی۔ کیوٹو پروٹوکول اور پیرس معاہدے پر عمل درآمد بھی کونسل ہی کی ذمے داری ہوگی۔

ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ اس بل کے تحت یہ لازمی قرار دیا ہے کہ جیتنے والے فریق کو مقدمے پر آنے والی لاگت ادا کی جائے گی اور اس ضمن میں اسٹیٹ بینک کی متعین کردہ شرح سود پر عمل کیا جائے گا۔

اس یوم الارض کے موقع پر ہماری تمام ماہرین ماحولیات اور سائنس دانوں سے عرض ہے کہ وہ خواتین کے حوالے سے خصوصی طور پر تحقیقات کریں اور سماجی پہلو کو بھی سر فہرست رکھیں۔ سائنس داں اور تمام ماحولیات داں تمام پہلوئیں پر سیرحاصل تحقیق کرتے ہوئے سماجی اور نفسیاتی اثرات کو نظرانداز کردیتے ہیں۔ بدلتے سے موسموں کی وجہ سے آنے والی تمام قدرتی آفات خواتین پر مردوں سے زیادہ گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ حتی انہیں مختلف نفسیاتی امراض گھیر لیتے ہیں۔ خوف کا عنصر ان کی زرخیزی کو بھی متاثر کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کے موسمی تبدیلیوں کے بین الحکومتی ادارے Intergovernmental Panel on climate Change آئی پی سی سی کی 2001 میں جاری کی گئی رپورٹ بھی اسی کی تائید کرتی ہے۔ اس کے مطابق ’’موسمی تبدیلیوں کے اثرات مختلف علاقوں میں مختلف افراد اور خصوصا مرد و خواتین پر مختلف ہوتے ہیں۔ یہ اثرات تمام ممالک میں غریب اور نچلے طبقوں پر مختلف انداز میں اثرانداز ہوتے ہیں، اندیشہ ہے کہ اس کا اثر صحت، خوراک، صاف پانی اور دیگر وسائل کی فراہمی میں عدم تناسب کی صورت میں پیدا ہوگا۔ ‘‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی غریب آبادی میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بسنے والی غریب طبقے کی خواتین موسمی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں، کیوںکہ مقامی قدرتی وسائل پر زیادہ انحصار کی وجہ سے ان کی گھریلو ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں۔ ان میں ایندھن جمع کرنا، مویشیوں کے لیے چارا لانا، کاٹنا اور گھریلو استعمال کے لیے دوردراز علاقوں سے پانی لانا شامل ہے۔

سائنسی تحقیق کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی پالیسیوں میں بھی ان حقائق کو سرفہرست رکھنا ہوگا تبھی ہم بدلتے موسموں کا سبق نہ صرف اچھی طرح پڑھ پائیں گے بل کہ اسے یاد بھی رکھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔