دنیا تسخیر کرتے چین کے منصوبے اور سرمایہ کاری

سید بابر علی  اتوار 16 اپريل 2017
سی پیک اور اس منصوبے سے کہیں بڑے پراجیکٹس تک پھیلی چینی پیش قدمیوں کی داستان ۔  فوٹو : فائل

سی پیک اور اس منصوبے سے کہیں بڑے پراجیکٹس تک پھیلی چینی پیش قدمیوں کی داستان ۔ فوٹو : فائل

اپریل 2015 میں چین نے پاکستان میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کچھ نے اسے جادو کی چھڑی قرار دیا جس سے پاکستان یک لخت امریکا، برطانیہ کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ کچھ تجزیہ کاروں نے اسے اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد قرار دیا۔ غرض یہ کہ چین کی اس کے معاشی و تجارتی حجم کے لحاظ سے اس معمولی سی سرمایہ کاری نے پاکستانی عوام اور سیاست دانوں کو خوشی سے نہال کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سی پیک چین کے ایک عظم منصوبے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری وہ اپنے حریف ممالک امریکا اور انڈیا میں کرچکا ہے یا کرنے والا ہے۔

یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین کے اپنے معاشی اہداف ہیں، جن میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ، ایشیا پیسیفک اور یورپی ممالک سے روابط بڑھانے اور آزادانہ تجارت کا فروغ شامل ہیں۔ چین دنیا بھر کی معیشت میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے سرگرم ہے۔ چار سال قبل چینی صدر نے دنیا کے 65 سے زاید ممالک میں باہمی تجارت کے فروغ کے لیے سڑکوں، ریلوے لائنز، سمندری اور خشک بندرگاہوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لیے ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبے کا علان کیا تھا۔ اس منصوبے کی تفصیلات اور اس کا سی پیک سے ربط آگے بیان کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چین بنگلادیش کے ساتھ بھی کئی ارب ڈالر کے منصوبوں پر دست خط کرچکا ہے۔ چین افریقی ممالک میں بھی انفرااسٹرکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے۔

کینیا کے انسٹی ٹیو ٹ برائے معاشی امور کے مطابق افریقی خطہ چینی سرمایہ کاری سے مستفید ہونے والے سب سے بڑا علاقہ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں چینی کمپنیوں نے گذشتہ سال 145ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی، جو کہ گذشتہ سال کی نسبت اٹھارہ فی صد سے زاید ہے۔ چین جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے، پہلے نمبر پر امریکا ہے۔ چینی وزارت خارجہ، قو می ادارہ برائے شماریات اور اسٹیٹ ایڈ منسٹریشن آف فارن ایکسچینج کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق چین دنیا بھر میں کی جانے والی براہ راست سرمایہ کاری میں تقریباً دس فی صد شراکت دار ہے۔ گذشتہ سال کے مقابلے میں چین کے معاشی اداروں کی جانب سے کی جانے والی براہ راست سرمایہ کاری 26 فی صد اضافے کے ساتھ ساڑھے 24ارب ڈالر رہی۔

رپورٹ کے مطابق چینی کمپنیوں نے 2015 میں ساڑھے 54 ارب ڈالر کا مرجر (ایک کمپنی کا دوسری میں ضم ہونا) اور ایکوزیشن (کسی کمپنی کے سب سے زیادہ اثاثے خریدنا) کیا، جب کہ 2016کے ابتدائی آٹھ ماہ میں یہ نمایاں اضافے کے ساتھ 61ارب70کروڑ ڈالر رہا۔ Rhodium گروپ کے کنسلٹینٹ اور لا فرم Baker & McKenzie کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ہدف یورپ اور امریکا ہیں اور گذشتہ سال صرف ان دو خِطّوں ہی میں چین نے 38 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رواں سال مغربی معیشت میں چین کی سرمایہ کاری ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ سکتی ہے۔ چینی کمپنیاں پہلے ہی 70ارب ڈالر کے معاہدے کرچکی ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق چین 2020 تک مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا غیرملکی سرمایہ کار بن جائے گا، جب کہ دنیا بھر میں اس کے اثاثوں کی مالیت تین گنا اضافے کے ساتھ 20کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

اگرچہ چینی سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ترقی پذیر ممالک میں توانائی اور قدرتی وسائل ہیں، تاہم اب انہوں نے امریکا اور یورپ میں بھی سرمایہ کاری بڑھا دی ہے۔ گذشتہ 15سال میں چینی کمپنیوں نے 28 یورپی ممالک میں 46ارب یورو کی سرمایہ کاری کی۔ چینی سرمایہ کاری سے مستفید ہونے والے ممالک میں برطانیہ سرفہرست ہے جہاں اس عرصے میں 13ارب یورو سے زائد کی براہ راست سرمایہ کاری کی گئی جب کہ 7ارب یورو کے ساتھ جرمنی دوسرے اور6ارب یورو کے ساتھ فرانس تیسرے نمبر پر رہا۔

دنیا بھر میں چینی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ہدف انفرا اسٹرکچر (سڑکوں، پلوں، اور تعمیرات ) کی تعمیر اور بہتری ہے۔ چین کی انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا جائزہ لینے کے لیے ہمیں کچھ سال پیچھے جانا ہوگا۔ اکتوبر 2013 میں چین نے ایشین انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بکنر (اے آئی آئی بی) کے قیام کا اعلان کیا۔ ایک سال بعد ہی 21 ایشیائی ممالک نے اس بینک میں شمولیت کی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ 2015 میں 57 ممالک اس بینک کے بانی ر رکن بن گئے۔ ابتدائی طور پر اس بینک کے لیے سو ارب ڈالر کا سرمایہ منظور کیا گیا۔ اس بینک میں سب سے زیادہ حصص ہونے کی وجہ سے ووٹنگ کے حقوق بھی چین ہی کو حاصل ہیں۔ بیرون ملک انفرا اسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری میں سب سے اہم کردار سلک روڈ فنڈ کا ہے۔ چین کی سرکاری اور نجی کمپنیوں کے مطابق ون بیلٹ، ون روڈ منصوبہ حکومت کی طرف سے اشارہ ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری کریں۔

بیجنگ میں بننے والے اس بینک کے قیام کا مقصد ایشیائی ملکوں میں انفرااسٹرکچر اور پیداواری شعبوں توانائی، ٹرانسپورٹیشن، مواصلات، شہری انفرا اسٹرکچر، زرعی ترقی، پانی کی فراہمی اور سینی ٹینشن، ماحولیاتی تحفظ، دیہی ترقی اور نقل و حمل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ اپریل 2016 میں بینک نے اپنے پہلے پروجیکٹ کا اعلان کیا، جس کے تحت پاکستان، تاجکستان، بنگلادیش، انڈونیشیا اور انڈیا میں توانائی، ٹرانسپورٹ اور اربن ڈیولپمنٹ کے منصوبے شامل تھے۔ سی پیک سے قبل پاکستان کے لےے اے آئی آئی بی برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) کے اشتراک سے شور کوٹ کو خانیوال سے ملانے کے 64 کلومیٹر طویل ایم 4ہائی وے کی تعمیر کے لیے 273 ملین ڈالر اور ورلڈ بینک کے ساتھ مل کر تربیلا ہائیڈرو پاور ایکسٹینشن پروجیکٹ کے لیے 300 ڈالر کے منصوبے کا اعلان کیا۔ تاجکستان کے لیے یورپین بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے ساتھ مل کر سڑکوں کی بحالی کے لیے 106ملین ڈالر کے پراجیکٹ، بنگلادیش میں پاور ٹرانسمیشن کے لیے 262 ملین ڈالر، انڈونیشیا کے نیشنل سلم اپ گریڈنگ پروجیکٹ کے لیے ورلڈ بینک کے اشتراک سے 216 ملین ڈالر کا منصوبہ، سیاسی حریف انڈیا میں ٹرانسمیشن سسٹم اسڑینتھننگ پراجیکٹ کے لیے 150ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں سی پیک کو لے کر خوشی سے بغلیں بجانے والے شاید اس حقیقت سے دانستہ اور نادانستہ طور پر چشم پوشی کر رہے ہیں کہ انفرااسٹرکچر میں چینی سرمایہ کاری والے دس سر فہرست ممالک میں تو پاکستان کا نام ہی نہیں ہے۔ چین کے لیے یہ ایک کم بجٹ کا پراجیکٹ ہے۔ اس طرح خصوصی طور پر ایشیا میں انفرااسٹرکچر میں بہتری کے لیے قائم ہونے والے بینک اے آئی آئی بی کے ٹاپ ٹین شیئر ہولڈرز میں بھی پاکستان کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔

فروری 2017 تک اے آئی آئی بی کے دس سر فہرست ممالک، ان کی سرمایہ کاری اور ووٹنگ میں حصہ کچھ یوں ہے۔

٭اقتصادی راہداری منصوبہ اور چین کا ’ون بیلٹ، ون روڈ‘
انفرا اسٹرکچر میں بیرون ملک سرمایہ کاری اور سی پیک کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں چین کے ’ون بیلٹ ، ون روڈ‘ جیسے بڑے منصوبے کے بارے میں جاننا ہوگا۔ ون بیلٹ ون روڈ کی ترقیاتی حکمت عملی کا اعلان صدر ژی جن پنگ نے 2013 میں کیا تھا، جس کے تحت چین کو مختلف ممالک سے بہ ذریعہ سڑک ملاتے ہوئے یورپ تک ایک روڈ کی تعمیر اور نقل و حمل، توانائی، تجارت اور مواصلات کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری کو فروغ دینا ہے۔ اس منصوبے کے اعلان کے بعد سے اس بات پر غوروفکر کیا جا رہا ہے کہ عملی طور پر اس منصوبے کو کس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے گا، کس نوعیت کے پراجیکٹ شامل ہوں گے، ان کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا، اور یہاں تک کہ کون کون سے ممالک ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے میں شریک ہوں گے؟ ان سب نکات کو سامنے رکھتے ہوئے بنایا جانا والا ایک ٹھوس منصوبہ یا انفرادی سرمایہ کاری کی سہولیات کے ساتھ ون بیلٹ، ون روڈ آنے والے برسوں میں چین کی دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے آغاز کا تصور ہے۔ درحقیقت یہ چین کی تجارتی راستوں پر علاقائی ربط سازی، دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے، اور گلوبل مارکیٹ میں رسائی کو بڑھانے کے لیے جاری سرمایہ کاری کا تسلسل ہے۔ اسے چین کی ’گوئنگ آؤٹ حکمت عملی‘ کے اگلے مرحلے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

٭ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کیا ہے؟
ابتدائی طور پر اس منصوبے کے دو اہم جُز ہیں، اول: زمینی راستے کے ذریعے سلک روڈ اکنامک (شاہراہ ریشم اقتصادی) بیلٹ، دوئم: سمندری راستے سے اکیسویں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کی تعمیر۔ سلک روڈ اکنامک بیلٹ کے ذریعے چین کو براستہ وسطی اور مغربی ایشیا یورپ سے ملایا جائے گا۔ میری ٹائم سلک روڈ چین کو جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا اور افریقا کے سمندری راستوں سے گزرتے ہوئے ذریعے یورپ سے منسلک کرے گا۔ چین کے سرکاری میڈیا میں شایع ہونے والے نقشے کے مطابق ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ صرف ان دو راستوں تک ہی محیط نہیں ہے بل کہ ان دو مرکزی راستوں سے منسلک کرنے کے لیے رابطہ سڑکوں کا جال بچھایا جائے گا، جب کہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ساٹھ سے زاید ممالک نے اس منصوبے میں اپنی دل چسپی ظاہر کی ہے۔

تاہم ابھی تک ایسی کوئی فہرست سامنے نہیں آئی ہے کہ اس منصوبے میں کون کون سے ممالک اور پراجیکٹ شامل ہیں۔ ون بیلٹ ، ون روڈ منصوبے کے اعلان کے دو سال بعد تک چینی حکومت نے اس پراجیکٹ سے متعلق کوئی سرکاری دستاویزات جاری نہیں کیں، تاہم مارچ 2015 میں چین نیشنل ریفارم ڈیولپمنٹ کمیشن، وزارت خارجہ اور وزارت تجارت نے مشترکہ طور پر ’سلک روڈ اقتصادی بیلٹ اور اکوس یں صدی کے میری ٹائم سلک روڈ کی مشترکہ تعمیر کے وژن اور ایکشن کی نیوز ریلیز جاری کی۔ اس دستاویز کے ابتدائیے میں اس منصوبے میں شامل تمام ملکوں کو حاصل ہونے والے فوائد کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:

اس منصوبے میں بیلٹ اور روڈ کے ساتھ ہونے والی تعمیرات سے نہ صرف اس سے منسلک ممالک میں معاشی خوش حالی آئے گی بل کہ مختلف تہذیبوں کے درمیان باہمی تعاون کے تبادلے سے علاقائی معاشی اشتراک مضبوط ہو نے سے دنیا بھر میں ترقی اور امن کو فروغ ملے گا۔ یہ ایک عظیم منصوبہ ہے، جس سے دنیا بھر کے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اس منصوبے کے تحت معاشی انڈسٹریل پارکس کو اشتراکی پلیٹ فارمز کے طور پر استعمال کیا جائے گا، جب کہ ون بیلٹ، ون روڈ کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے اہم سمندری پورٹس پر نقل و حمل کے لیے سڑکوں کی تعمیر کی جائے گی۔ اس فریم ورک میں چین پاکستان اقتصادی راہداری سمیت چھے اکنامک کوریڈور شامل ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:

٭ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)
٭ بنگلادیش، چین، انڈیا، میانمار اقتصادی راہداری (بی سی آئی ایم)
٭چین، منگولیا، روس اقتصادی راہداری
٭چین ، وسط ایشیا، مغربی ایشیا اقتصادی راہداری
٭چین، انڈوچائنا پینی سولا اقتصادی راہداری
٭ نیو یوریشین لینڈ برج اقتصادی راہداری

ہانگ کانگ ٹریڈ ڈیولپمنٹ کونسل ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری ہونے والے نقشے کو بہ غور دیکھا جائے تو چین تو اپنے حریف انڈیا کو بھی ساڑھے سولہ لاکھ اسکوائر کلومیٹر طویل بی سی آئی ایم اقتصادی راہداری کا حصہ بنا رہا ہے، لیکن وہاں کے عوام اور سیاست دان اتنا شور نہیں کر رہے جتنا ہمارے ملک میں سی پیک کو لے کر کیا جارہا ہے۔ یعنی جس بات پر ہمارے حکم راں خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سی پیک سے پاکستان میں معاشی خوش حالی کا دور دورہ ہوگا تو انہیں عوام کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ سی پیک تو محض چین کے ایک عظیم منصوبے کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ کا اہم مقصد ’پالیسی کوآرڈینیشن‘ ہے۔

چین کی دنیا کے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری
دسمبر 2014 میں چینی صدر نے سربیا کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے سربیا میں انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے ایک درجن سے زاید معاہدوں پر دستخط کیے جن میں بلغراد بُڈاپیسٹ ہائی اسپیڈ ریلوے ٹریک کی تعمیر اور 608 ملین ڈالر کی لاگت سے کوئلے سے بجلی بنانے والے 350میگاواٹ کے پاور پلانٹ کی تعمیر شامل ہے، جب کہ ماضی میں بھی چین 260 ملین ڈالر کی لاگت سے ’سینو سربین فرینڈ شپ برج‘ بناچکا ہے۔ چین کی روڈ اینڈ برج کارپوریشن اب تک دنا بھر میں کئی بڑے پُلوں کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرچکی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ سرمایہ کاری افریقہ میں انفرااسٹرکچر کی تعمیر اور ازسرنو بحالی پر ہے۔ یہ چینی کمپنی ممباسا کو کمپالا، یوگنڈا کے ذریعے نیروبی سے ملانے والے طویل ریلوے ٹریک کی تعمیر پر بھی کام کر رہی ہے۔ یہ کمپنی تیرہ ارب ڈالر لاگت کے اس منصوبے کے پہلے فیز کے لیے 3ارب 60کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی ہے، جس کا مقصد 609 کلومیٹر ریلوے ٹریک تعمیر کرنا ہے یہ پراجیکٹ 2018کے وسط تک مکمل ہوگا۔

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری
چینی صدر ژی جن پنگ نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران6 ارب 45 کروڑ ڈالر کے 51 منصوبوں پر دستخط کیے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں8 ارب 33کروڑڈالر توانائی اور8 ارب 11کروڑڈالر انفرااسٹرکچر کے شامل ہیں۔ بجلی و پانی کے15منصوبوں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 50میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 50میگاواٹ کا سچل ونڈ پراجیکٹ،1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 720 مگاوواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پراجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک، 660 میگاواٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ شامل ہیں۔

توانائی کے منصوبوں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے لیے 5 ارب ڈالر کے مختصر المیعاد کے Early Harvest منصوبے شامل ہیں جو 2017 کے آخر تک 10400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرسکیں گے، جب کہ 3 ارب 18کروڑ ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021 تک 6120 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح ان تمام منصوبوں سے آئندہ 7 سالوں میں مجموعی طور پر 16520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ یہ بات واضح رہے کہ 3 بڑے بینکوں چین ترقیاتی بینک (CDB)، انڈسٹریل اینڈ کمرشیل بینک آف چائنا (ICBC) اور چائنا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک (CIDB) نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی و غیرملکی کمپنیوں کی جانب سے ان منصوبوں کی سیکیوریٹی کے عوض سرمایہ کاری کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔