نار فوک کے شمالی سمندر میں 10,000سال قدیم جنگل کی دریافت

مرزا ظفر بیگ  اتوار 16 اپريل 2017
یہ جنگل ماضی بعید میں خشکی پر ہوا کرتا تھا، مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے اسے سمندر میں پہنچا دیا ۔  فوٹو : فاءل

یہ جنگل ماضی بعید میں خشکی پر ہوا کرتا تھا، مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے اسے سمندر میں پہنچا دیا ۔ فوٹو : فاءل

نار فوک کے ریسرچ سینٹر میں کام کرنے والی ایک 45سالہ خاتون غوطہ خور مس ڈان واٹسن نے شمالی سمندر کی تہہ میں ایک ایسا پوشیدہ جنگل دریافت کیا ہے جو یقینی طور پر کم و بیش 10,000 سال پرانا ہے اور یہ حیرت انگیز جنگل یورپ کے مساوی رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا جنگل نہیں ہے، بہت بڑا اور وسیع و عریض علاقے میں پھیلا ہوا ہے، یہ الگ بات ہے کہ سمندر کی متلاطم موجوں نے اسے انسانی آنکھ سے پوشیدہ رکھا تھا۔ لیکن یہ سمندر کے مکین آخر کس طرح انسان کی نظروں میں آئے، اس حوالے سے یہ کہانی سنائی گئی ہے:

مس ڈان واٹسن شمالی سمندر میں غوطہ خوری کررہی تھیں کہ انہیں اس مقام پر شاہ بلوط کے درخت دکھائی دیے۔ وہ یہاں تیرنے یا غوطہ خوری کرنے کے لیے پہلی بار نہیں آئی تھیں، بلکہ اکثر آتی رہتی تھیں، کیوں کہ یہ ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ بہرحال اس انوکھے اور انسانی آنکھ سے اوجھل جنگل کو ایک دم اپنے سامنے دیکھ کر مس واٹسن حیران رہ گئیں۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ نہایت قدیم دور کے جنگل کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ بار بار خود سے یہ سوال کیے جارہی تھیں کہ اگر یہ جنگل نامعلوم وقت سے یہاں موجود ہے تو مجھے اس سے پہلے یہ کیوں دکھائی نہیں دیا؟ کیا یہ کوئی جادوئی اور سحرانگیز جنگل ہے؟

شمالی سمندر میں غوطہ خوری کرتے ہوئے مس واٹسن نے دل ہی دل میں یہ بھی سوچا کہ اگر میری آنکھیں بالکل ٹھیک ٹھیک دیکھ رہی ہیں اور اس جگہ ماضی قدیم کا یہ جنگل واقعی موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہاں صرف ایک جنگل ہی نہیں ہے، بلکہ ہمیں مستقبل میں کام کرنے اور انوکھی دریافتیں کرنے کے لیے بہت کچھ ملے گا اور پتا نہیں اس حیرت انگیز مقام سے کیا کیا مل سکتا ہے جو دنیا میں ایک انوکھا انقلاب برپا کردے گا۔

مس ڈان واٹسن کو یقین کامل ہے کہ یہ کوئی معمولی مقام نہیں بلکہ ایسی غیرمعمولی اور ناقابل یقین جگہ ہے جہاں سے ماضی قدیم کی تاریخ کے بارے میں ہمیں بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ مس ڈان واٹسن شمالی سمندر میں نارفوک کے ساحل سے کم و بیش 300میل دور غوطہ خوری کررہی تھیں کہ انہیں یہ دنیا کا بے مثال اور انوکھا ’’گم شدہ جنگل‘‘ دکھائی دے گیا جس نے انہیں اس حد تک حیران و پریشان کردیا کہ وہ کچھ لمحوں کے لیے خود کو بھی فراموش کر بیٹھیں اور مسلسل اس جنگل کے انوکھے درختوں کو دیوانوں کی طرح دیکھنے لگیں۔ مس ڈان واٹسن کو سمندر کی تہہ میں اپنی غوطہ خوری کے دوران شاہ بلوط کے پورے، بھرپور اور مکمل درخت دکھائی دیے جن کی شاخیں کم از کم آٹھ میٹر لمبی تھیں۔ ان درختوں کو دیکھ کر ذرا بھی یہ احساس نہیں ہورہا تھا کہ یہ طویل عرصے سے دنیا کی ہواؤں اور کرۂ ارض پر چمکنے والی سورج کی روشنی سے محروم رہے ہیں۔ وہ درخت بالکل تروتازہ اور صحت مند دکھائی دے رہے تھے جن سے ان کی قدامت کا کوئی اندازہ نہیں ہوپارہا تھا۔

بعد میں جب یہ معلومات مس واٹسن نے دیگر بحری، آبی اور ارضیاتی ماہرین کے ساتھ شیئر کی تو ان سب ماہرین نے اپنی آراء پیش کرتے ہوئے یہ کہا کہ نہ جانے کتنے نامعلوم وقت سے یہ گم شدہ جنگل سمندر کی تہہ میں چھپا ہوا تھا، یقینی طور پر جب حال ہی میں ہمارے کرۂ ارض پر مختلف سائنسی اسباب کی بنا پر موسمیاتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں اور موسم نے اہل دنیا کے لیے اپنے تیور بار بار بدلے تو شاید انہیں تبدیلیوں کی وجہ سے قدرت نے اس پوشیدہ جنگل کو اہل دنیا کے سامنے ایکسپوز کردیا اور دنیا کو اس پوشیدہ اور گم شدہ جنگل کے بارے میں پتا چل گیا۔ بعد میں جب ان سبھی ارضیاتی ماہرین نے اس حوالے سے گفت و شنید کی اور بار بار بحث و مباحثہ کیا تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ سمندر کی تہہ میں یہ پوشیدہ جنگل برفانی دور کا ہے اور کم از کم 10,000 سال پرانا ہے۔ کیا یہ انکشاف بالکل درست ہے؟ کیا واقعی اس بحری اور آبی سمندر کی عمر اتنی ہی ہے جتنی ماہرین بتا رہے ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال قبل از وقت ہوگا، بہرحال ریسرچ جاری ہے اور اس حوالے سے تحقیقی کام مسلسل چل رہے ہیں جس کے نتیجے میں ریسرچ بھی آگے بڑھ رہی ہے۔

45سالہ مس واٹسن شمالی سمندر کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں، وہ اس سمندر کو اور اس کی گہرائیوں کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں، کیوں کہ وہ کم و بیش 16سال سے اس سمندر میں غوطہ خوری کررہی ہیں،ان کا کہنا ہے کہ میرے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں ایک گہرا غوطہ لگاؤں گی اور میرے سامنے تاریخ کا ایک حیرت انگیز منظر ہوگا اور میں برفانی دور کے جنگل کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی جو اہل دنیا کے لیے بھی حیران کن ہوگا۔

مس ڈان واٹسن ایسٹ اینگلیا میں اپنے ساتھی راب اسپرے کے ساتھ مل کر میرین کنزرویشن سوسائٹی کا سروے پراجیکٹ ’’سی سرچ‘‘ چلاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے:’’اس انوکھی اور ناقابل یقین دریافت نے مجھے عجیب سا جوش اور ولولہ عطا کیا تھا، کیوں کہ یہ ناقابل یقین دریافت تھی۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی تھی کہ اس ’’دریافت‘‘ کو سب سے پہلے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ اس روز شمالی سمندر کناروں پر خاصا بپھرا ہوا تھا، اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ سمندر میں غوطہ لگانے کے لیے تھوڑا سا دور چلی جاتی ہوں، چناں چہ میں مسلسل تیرتی ہوئی آگے بڑھتی رہی اور لگ بھگ 300میٹر کے بعد مجھے ایک بڑا اور طویل پشتہ دکھائی دیا جس کی رنگت بالکل سیاہ ہورہی تھی۔ جب میں نے اس کے بہت قریب جاکر اسے غور سے دیکھا تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو درخت کے تنوں والی لکڑی ہے، اور قریب جاکر مجھے پورا جنگل ہی دکھائی دینے لگا، میں نے وہاں موجود شاہ بلوط کے درختوں کے لمبے اور مضبوط تنے دیکھے جن کی شاخوں کے اوپر میں مسلسل تیرتی رہی، انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ درخت یا وہ پورا کا پورا جنگل آسمان کی بلندیوں سے یہاں گرگیا ہے۔ میرے لیے یہ بات بہت حیرت انگیز بھی تھی اور نہایت خوشی کی بھی کہ یہ درخت بلکہ یہ پورا کا پورا جنگل ہزاروں سال سے اس مقام پر چھپا ہوا ہے اور زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے کسی نے دیکھا تک نہیں تھا، مجھے ہی یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ پہلی بار میں نے اسے دیکھا تھا، گویا یہ میری ’’دریافت‘‘ تھی۔ میں طویل عرصے سے اس شمالی سمندر میں غوطہ خوری کررہی ہوں، مجھے یقین ہے کہ یہ درخت ایک بہت بڑے جنگل کا حصہ ہیں اور وہ جنگل کم و بیش ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہوگا۔‘‘

کچھ دیگر ماہرین یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ جنگل کسی زمانے میں خشکی پر رہا ہوگا، مگر جب قطبین کی برف پگھلی تو اس وقت سمندر میں پانی کی سطح 120میٹر کے قریب بلند ہوگئی۔ اس وقت وہ درخت جو ماضی میں کبھی زمین پر گرے تھے، سمندر کی تہہ میں اس انداز سے پڑے ہوئے ہیں کہ انہوں نے مل کر ایک قدرتی ساحل سا بنادیا ہے، چناں چہ اس جگہ پر رنگ برنگی مچھلیوں، پودوں اور جنگلی حیات نے اپنے مسکن بنالیے ہیں۔

اس سمندری جنگل کا سروے کرنے والے ایک اور ماہر مسٹر اسپرے کا کہنا ہے:’’کسی زمانے میں یہ جنگل بہت بھرپور ہوگا اور ایسا سحرانگیز ہوگا جس کا ذکر ہم طلسماتی اور پراسرار کہانیوں میں پڑھتے اور ایسی ہی خوف ناک فلموں میں دیکھتے ہیں۔ یہ جنگل وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتا اور پھیلتا چلا گیا ہوگا، کیوں کہ اس زمانے میں اس جنگل کو یا اس کے درختوں کو کاٹنے والا کوئی بھی نہیں ہوگا، اس لیے یہ زمانے کی دسترس سے محفوظ رہا اور خوب گھنا ہوتا چلا گیا۔‘‘

اس جنگل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم ’’ہوبٹ‘‘ یا ’’لارڈ آف رنگز‘‘ جیسی فلموں کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے منظر اس ملک میں کہیں اور تو نہیں مل سکتے، اس لیے ارضیات کے ماہرین اس انکشاف پر بہت خوش ہیں اور وہ مستقبل میں اس جگہ کو فلمانے کا ارادہ کررہے ہیں۔یہاں فلمیں بنانے میں بہت مزہ آئے گا ، جہاں وہ مختلف جادوئی موضوعات پر فلمیں بنایا کریں گے۔

مس ڈان واٹسن اور ان کے ساتھی کو اب اس وقت کا انتظار ہے جب اس مقام کی ٹھیک ٹھیک عمر ریڈیو کاربن کے ذریعے معلوم کی جائے گی جس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ آخر یہ بے مثال جنگل کتنا قدیم ہے اور یہاں پر کب سے موجود ہے۔

مس واٹسن اور ان کے پارٹنر کا کہنا ہے:’’ہم دونوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ ہم اس مقام پر مل کر متعدد بار غوطہ خوری کریں گے اور اس کام کو مسلسل دہراتے رہیں گے، جس کے بعد ہمیں اس جنگل کا نقشہ تیار کرنے میں آسانی ہوجائے گی، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمیں اس کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کے بارے میں بھی بہت کچھ مصدقہ معلومات حاصل ہوجائیں گی اور ہمیں کسی حد تک اس کی عمر کے قریب بھی پہنچ جائیں گے۔‘‘

ماہرین اس نئے اور پوشیدہ جنگل کی دریافت کے بعد بہت سے نئے انکشافات کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ان سب کو قوی امید ہے کہ اس مقام سے صرف پوشیدہ جنگل ہی دریافت نہیں ہوگا، بلکہ یہاں سے سائنسی دل چسپیوں کی مزید چیزیں بھی ملیں گی جن میں جانوروں کے فوسلز اور دیگر آبی مخلوق کی باقیات بھی شامل ہیں جن پر ریسرچ کرنے کے بعد مزید انکشافات سامنے آئیں گے۔ گویا یہ جگہ محض ایک دریافت نہیں ہے، بلکہ ریسرچ کے لیے ایک پورا انسٹی ٹیوٹ ہوگی جس پر ماہرین ارضیات کو ایک طویل عرصے تک کام کرنے کا پورا پورا موقع ملے گا اور وہ اپنی دریافتوں کے صلے میں ملنے والی تمام ٹھوس اور مصدقہ معلومات عام لوگوں اور خاص طور سے جغرافیے کے شعبے سے دل چسپی رکھنے والے ماہرین اور بالخصوص اس شعبے کے طلبہ و طالبات تک پہنچائیں گے اور ان کے لیے مستند معلومات کے نئے باب کھولیں گے۔

واضح رہے کہ یہ پوشیدہ بحری جنگل جس مقام پر دریافت ہوا ہے، یہ مقام نارفوک وائلڈ لائف ٹرسٹ کے Cley Marshes reserve کے پاس واقع ہے جو پرندوں کی دنیا یا برڈ لائف کے لیے بہت مشہور اور معروف ہے۔

یہاں Vera نام کا ایک مقام ایسا بھی ہے جو 1914میں سمندر کی سطح بڑھنے کے بعد سمندر برد ہوگیا تھا اور اس کے پانی میں ڈوب گیا تھا، لیکن اس کے بعد سے یہ غوطہ خوروں کے لیے ایک پسندیدہ مقام بن گیا، ہر غوطہ خور یہاں آکر غوطہ خوری کرنا چاہتا ہے، کیوں کہ انہیں یہاں غوطہ خوری کرنے میں ایک عجیب سا لطف آتا ہے اور وہ اس جگہ سمندر میں اترنے کے بعد انوکھے جہانوں کی سیر کرتے ہیں اور ایک ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جو ہر لحاظ سے بے حد دل کش اور سحرانگیر ہے۔

گذشتہ سال طوفانوں کے بعد ویلش کے ساحل کے ساتھ ساتھ کچھ قدیم درخت منظر عام پر آئے تھے۔ اس وقت سمندر میں اٹھنے والے طوفانوں نے آس پاس کے علاقوں اور خاص طور سے دیہی علاقوں میں تباہی مچائی تو کئی مزید پوشیدہ اور قدیم درخت بھی عام لوگوں کو دکھائی دے گئے۔ گویا یہ درخت طوفانوں کی وجہ سے انسانی آنکھ کی زد میں آئے ورنہ اس سے پہلے یہ سمندروں کی تہہ میں خواب غفلت کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ شمالی سمندر کی تہہ سے دریافت ہونے والا یہ گم شدہ یا پوشیدہ جنگل آنے والے وقت میں ماہرین اور عام لوگوں کے لیے کیا کیا انکشافات کرے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔