آصف زرداری، بلوچستان اور اِینو

تنویر قیصر شاہد  پير 17 اپريل 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

گرفتاری کے ٹھیک ایک سال بعد بھارتی جاسوس، کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی ہے۔اسے پچھلے سال مارچ میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت نے کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزا کی حمائیت کی ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مجرمانہ سرگرمیاں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ آصف علی زرداری بھی بھارت کی کھل کر مذمت کر تے سنائی دے رہے ہیں۔

بلوچستان میں جا کر انھوں نے جو لہجہ اختیار کیا ہے، سچی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے بہت سے دھونے دھو دیے ہیں۔ ملک میں اُن کے بارے میں جو منفی فضا ہموار ہُوئی، تازہ بیانات نے تمام شکووں، شکائتوں کو زائل کر دیا ہے۔ اُنہوں نے بلوچستان کے علاقے، جعفر آباد، میں میر جعفر خان جمالی کی پچاسویں برسی کے موقع پر خطاب کرتے ہُوئے یہ کہا ہے:’’بلوچستان میں بھارت ہمارے (بعض) بھائیوں کو گمراہ کر رہا ہے۔جو بلوچ بھائی بھارتی بہکاوے میں آئے ہیں، مَیں اُن سے کہنا چاہتا ہُوں کہ انٹر نیٹ پر بھارت میں مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ لیں۔ وہاں گائے ذبح کرنے پر سر کٹتے اور پھانسیاں ملتی ہیں۔ کیا ہم نے بھی گائے اور بَیل کاٹنے پر پھانسی کی سزا لینی ہے؟‘‘

زرداری صاحب نے اپنے خطاب میں مزید کہا’’مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ہمارے کشمیری بھائیوں پر ظلم کی انتہا کر دی ہے۔آپ پاکستان اورآزادی کی قدر کریں۔بلوچستان میںہمارے کچھ دوست(ریاست کے خلاف) پہاڑوں پر چڑھ گئے لیکن ایسا کر کے اُنہوں نے کسی اور کا نہیں، اپنا ہی نقصان کیا۔ میری گزارش ہے کہ بلوچ بھائی بھارتی مفاد میں چند گمراہ افرادکے ہاتھوں استعمال نہ ہوں۔‘‘اُن کے الفاظ دلوں پر بیٹھے ہیں۔

سابق صدر ہونے کے ناتے ان کا یہ بیان اہم بھی ہے اور غیر معمولی بھی۔ وہ جو کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی چاروں صوبوں کی زنجیر ہے، وسیع تر مفہوم میں بلوچستان کے خلاف بھارتی ریشہ دوانیوں کا تذکرہ کرکے زردار ی صاحب نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے، اور یہ کہ وہ ایک صوبے کی نہیں بلکہ سارے پاکستان کی سیاست کرنے کے متمنی اور سب کو ساتھ لے کرچلنے کے حامی ہیں۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کوئی آج شروع نہیں ہُوئی ہے۔

جب آصف زرداری صاحب صدر اور گیلانی صاحب وزیر اعظم تھے، تب بھی بھارت افغانستان کے راستے بلوچستان میں مسلسل مداخلتیں کر رہا تھا۔ اُسی زمانے میں بھارت نے سوئزر لینڈ میں مقیم بلوچ لیڈر، براہمداغ بگٹی، کو مبینہ طور پر بھارت بلایا تھا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے مصر میں بھارتی وزیر اعظم (منموہن سنگھ) کو بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کے کئی ثبوت تھمائے۔ چنانچہ جب جناب آصف علی زرداری بلوچستان میں بھارتی مداخلتوں کا ذکر کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت ہمارے بعض بلوچ بھائیوں کو گمراہ کر رہا ہے تو ہمیں(اُن کے صدارتی پس منظر میں) پکا یقین کر لینا چاہیے کہ بھارت پاکستان بھر میں اور بلوچستان کے خلاف اپنی شرارتوں، شرانگیزیوں اور شیطانیوں سے باز نہیں آ رہا۔

پاکستان کے صدر ہونے کے ناتے عالمی میڈیا اُنکے بیان پر کان دھرنے پر مجبور ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ زرداری صاحب نے بلوچ نوجوانوں کو بھارتی مداخلتوں سے خبردار کر کے واقعی ایک قومی فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو عدالت کی طرف سے سنائی جانے والی سزائے موت کے پس منظر میں جناب زرداری کے متذکرہ بیان کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔

جناب زرداری کا یہ بیان بروقت آیا ہے۔ بلوچستان کو دانستہ ہدف بناتے ہُوئے بھارت نے بلوچستان مخالف کچھ ایجنٹ بھی تیار کر لیے ہیں۔اِن میں سے کئی لوگ بھارتی خفیہ اداروںسے مراعات کے بدلے بلوچستان کے خلاف شعلہ فشانیاں کر رہے ہیں۔ایسے عناصر میں ایک ’’صاحب‘‘ ایسے بھی ہیں جو کبھی پاکستانی تھے اور پاکستان کے ایک نیم سرکاری ادارے سے وابستہ بھی۔ پھر وہ سعودی عرب سے ہوتے ہُوئے کینیڈا جا پہنچے۔ اب وہ کینیڈا کے شہری ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ کینیڈا اور امریکا میں بیٹھ کر پاکستان، اسلام، دو قومی نظرئیے، افواجِ پاکستان کے خلاف دریدہ دہنی کرتے رہے تھے۔

کینیڈا کے ایک چھوٹے سے نجی ٹی وی، جس کے ’’مالک‘‘ ایک سابق پاکستانی ہیں، پر بیٹھ کر بھی یہ شر انگیزیاں کرتے رہے ہیں۔ ایک دل آزار کتاب بھی لکھی ہے۔ یہ ’’صاحب‘‘ اب بھارت کے ایک نجی ٹی وی پر بیٹھ کر ہفتے میں (فتح کا فتویٰ کے نام پر) دو پروگرام کرتے ہیں اور ہر پروگرام میں بلوچستان کے عوام کا نام لے کر پاکستان، حکومتِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں(بلوچستان کے ساتھ ساتھ دو قومی نظرئیے، پنجاب کی تقسیم اور مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر علیہ رحمہ کے خلاف بھی دشنام طرازی ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے) بھارت میں بیٹھ کر ایک ’’محترمہ‘‘ نائلہ بلوچ بھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بلوچستان کے نام پر پاکستان کے خلاف گند اچھالنے میں مشغول ہے۔ (اس کا اصل نام نائلہ قادری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نسلی اعتبار سے بلوچ بھی نہیں ہے) اس کے پاس فنڈز بھی ہیں اور اس نے بھارت میں بیٹھ کر ’’ ورلڈ بلوچ ویمنز فورم‘‘ کے زیر عنوان ایک نام نہاد ادارہ بھی بنا رکھا ہے۔

کیا کسی پاکستانی کو بھارتی انٹیلی جنس اداروں کی اشیرواد کے بغیر کھلے بندوں یوں’’کام‘‘ کرنے کی بھلا اجازت مل سکتی ہے؟ بھارت کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے بھی کئی نام نہاد بلوچ لیڈروں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے؛ چنانچہ اپریل 2017ء کے پہلے ہفتے پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر خان جنجوعہ کو بھی کہنا پڑا کہ ’’یہ بدقسمتی ہے کہ برطانیہ نے بھی اپنے ہاں بعض ایسے برگشتہ اور منحرف (Dissident)بلوچ عناصر کو پناہ دے رکھی ہے جو پاکستان کے خلاف بروئے کار ہیں۔‘‘

بلوچستان کے خلاف کام کرنے کے لیے بھارت نے اب بنگلہ دیش کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ اِس قابل ِمذمت عمل میں بنگلہ دیش کی بھارت سے ہمنوائی تو ششدر انگیز ہے! بلوچستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے نئے گٹھ جوڑسے پاکستان کو بجا طور پر تشویش ہے۔ اپریل2017ء کے دوسرے ہفتے حسینہ واجد نے بھارت کا دورہ کیا تو بلوچستان کے خلاف اُن کی زبان خاصی غیر ہموار اور نامناسب پائی گئی۔ جو کسر رہ گئی تھی، وہ حسینہ واجد کے اشارے پر بنگلہ دیشی وزیراطلاعات(حسن الحق اِینو) نے پوری کر دی۔

بلوچستان کے خلاف حسن الحق کی ناحق باتیں دلخراش بھی تھیں اور دل آزار بھی۔ اِینو ’’صاحب‘‘ نے دہلی میں ایک معروف بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے :’’پاکستان کے صوبے، بلوچستان، میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بنگلہ دیش کو بہت تشویش ہے۔ بلوچستان کے قوم پرست لیڈر پاکستان کے جبری ہتھکنڈوں کا ہدف بن رہے ہیں۔ہماری حکومت جَلد ہی بلوچستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کرے گی۔‘‘

کیا پاکستان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ پہلے ہمیں افغانستان گُھرکیاں دے رہا تھا اور اب بنگلہ دیش ہمیں دھمکانے لگا ہے؟بلوچستان کے نام پر پاکستان کے خلاف کیچڑ اچھالنے والا یہ شخص، حسن الحق اِینو، بھارتی فوج کے ساتھ مل کر 1971ء کی جنگ میں پاک فوج کے خلاف خونریزی بھی کر چکا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بنگلہ دیشی وزیر اطلاعات کی دریدہ دہنی کا جواب ہماری حکومت کی طرف سے فوری طورپر، اور اُسی لہجے میں، دیا جاتا لیکن افسوس اسلام آباد میں گہری خاموشی چھائی رہی!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔