کلبھوشن کو سزا؛ قانونی تقاضے پورے کئے، کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 17 اپريل 2017
قانونی ودفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امورِ خارجہ کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

قانونی ودفاعی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امورِ خارجہ کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: ایکسپریس

3مارچ 2016ء کو بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی بحریہ کے حاضر سروس آفیسر کلبھوشن سدھیر یادیو کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔

کلبھوشن یادیو جاسوسی اور پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اس کا فیلڈ کورٹ مارشل کیا گیا، کارروائی کے دوران تمام الزامات درست ثابت ہوئے جس کے بعد اسے سزائے موت دی گئی اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے گزشتہ دنوں اس کی توثیق کر دی۔ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے اس اہم پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں دفاعی و قانونی تجزیہ نگاروں اور ماہرین ِ امور خارجہ نے سیر حاصل گفتگو کی۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

محمد مہدی (ماہر امور خارجہ و رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)

پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ ہم نے ایک ہائی لیول کا جاسوس پکڑا ہے جو بھارتی حاضر سروس فوجی افسر ہے۔ یقینا یہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ ماضی میں کشمیر سنگھ کو پکڑا گیا جسے اس وقت کے صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے رہا کردیا ، وہ جاسوس بھارت جا کر ہیرو بن گیا اور وہاں اس نے بیانات دیے کہ وہ ہمارے ملک میں ہونے والی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ اسی طرح سربجیت سنگھ بھی ہمارے ملک میں پکڑا گیا، اس کے خلاف یہاں کیس چلا، سزا بھی ہوئی مگر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔

یہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ایجنسیاں قابل ہیں اور انہوں نے بار بار جاسوس پکڑے ہیں۔ ہماری عدالتوں نے کوئی پہلی مرتبہ سزا نہیں دی بلکہ ماضی میں بھی سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ گزشتہ سال یورپی یونین کا ایک وفد ہمارے ملٹری ایکٹ کو دیکھنے آیا اور پھر اس وفد نے واپس جاکر یہ رپورٹ دی کہ پاکستان کا ملٹری ایکٹ ایک مکمل قانون ہے جس میں کوئی خامی نہیں ہے لہٰذا کلبھوشن کو سزا ایک ایسے قانون کے تحت ہوئی ہے جسے دنیا سمجھتی بھی ہے اور تسلیم بھی کرتی ہے۔

کلبھوشن کے حوالے سے پاکستان کی حکومت اور دفتر خارجہ نے دنیا کے تمام اہم ممالک کے ساتھ معلومات شیئر کی ہیں اور انہیں اعتماد میں لیا ہے۔  عالمی برادری کے ساتھ ساتھ جنوری میں بھارت کو بھی کلبھوشن کے حوالے سے شواہد پیش کیے گئے لیکن اس پر کوئی جواب نہیں آیا۔ اس سلسلے میں صرف دفتر خارجہ ہی متحرک نہیں رہا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے گروپ تشکیل دیئے گئے جنہوں نے اس حوالے سے کام کیا۔

کلبھوشن کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدر کو مشاہد حسین سید، ڈاکٹر زنیرہ اور ملیحہ لودھی نے دستاویز پیش کی۔ سرتاج عزیز نے بھی اقوام عالم کو ثبوت پیش کیے۔ اسی طرح اویس خان لغاری کی زیر قیادت یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر میں ایک وفد گیا تھا جس نے کلبھوشن کے حوالے سے دستاویزات پیش کیں اور اس وفد میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے نمائندے بھی شامل تھے۔ جس دن سے کلبھوشن پکڑا گیا ہے ا س دن سے اس معاملے پر سول ملٹری رابطے بڑھے ہیں، دونوں مل کر اس کیس کو آگے لے کر چلے ہیں اور جہاں جس کی ضرورت تھی اس نے اپنے حصے کا کام کیا۔

پاکستانی حکومت اور فوج نے بھی عالمی سطح پر سب سے پہلے G7ممالک کے نمائندوں کے ساتھ معاملہ شیئر کیا۔ اسی طرح اسلامی ممالک کے سفیروں کے ساتھ بھی اس معاملے پر بات چیت کی گئی۔ اب کلبھوشن کے کیس میں پیش رفت ہوئی ہے اور اسے پھانسی کی سزا سنائی جاچکی ہے لہٰذا اب اگر ہمارے سے کوئی خود پوچھے کہ اسے کس قانون کے تحت سزا ہوئی ہے تو ضرور بتایا جائے لیکن ہمیں خود کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کو پاکستان مخالف پراپیگنڈہ میں ہر سطح پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑاہے۔

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے یہ کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کس طرح مذاکرات شروع کرائے جائیں اور ہم کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک میں مصالحتی کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ امرتسر میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ہم کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کیلئے تیار ہیں۔ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں بھارت تو یہ چاہ رہا تھا کہ پاکستان کو تنہا کردیا جائے لیکن ایران کے وزیر نے پاکستان کے حق میں بات کی۔ دنیا آج ہمارے موقف کو تسلیم کررہی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جب اور جہاں جو ضروری تھا وہ ہم نے کیا ہے۔

کلبھوشن کی گرفتاری سے پہلے اور بعد میں بھی ایرانی سفیر نے دو مرتبہ بھارت کو کلبھوشن کے کردار کے حوالے سے آگاہ کیا اور یہ بھارتی اخبار میں چھپ چکا ہے۔ کلبھوشن کوفوجی عدالت میں وکلاء بھی فراہم کیے گئے اور تمام ضروری مراعات بھی قانون کے مطابق دی گئیں۔ بھارتی وزیر سشما سوراج نے بھارتی پارلیمنٹ میں کہا کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں جائیں گی اور صدر پاکستان سے بھی بات کریں گی۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کلبھوشن کے حوالے سے تمام معاملات قانونی طریقے سے ہوئے ہیں لہٰذا اب وہ بھی قانونی راستہ ہی اختیار کریں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت ہمارے سے قونصلر تک رسائی مانگ رہا ہے جب کہ ہمارا بھارت کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ماضی میں جب ہم نے چند کیسز میں بھارت سے قونصلر تک رسائی مانگی تو اس نے نہیں دی۔ اب وہ کس منہ سے یہ سہولت مانگ رہا ہے۔ ہمیں اس مسئلے پر خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہندوستان اس حوالے سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا لیکن کوئی عالمی دباؤ نہیںآئے گا۔ بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔

ہم بھارتی اراکین پارلیمنٹ کے نفرت آمیز بیانات بھی سن رہے ہیں جن میں بلوچستان اور سندھ میں حالات خراب کرنے کی باتیں کی گئی ہیں۔کلبھوشن کی گرفتاری سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ہم نے ایک بڑا تخریب کار پکڑ لیا اور نیٹ ورک توڑ دیا گیا جس سے بھارت کا چہرہ بے نقاب ہوا جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے کشمیر کی تحریک میں جو نئی روح پیدا ہوئی ہے، کلبھوشن کو پھانسی کی سزا دینے سے اسے بھی تقویت ملے گی۔

پاکستان دفاعی و سفارتی حوالے سے مضبوط ہے لہٰذا ہمیں کسی بھی محاظ پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کلبھوشن کو سزا دینے کا فیصلہ درست ہے، میرے نزدیک جو کام پاکستان کے حق میں بہتر ہے وہ ضرور ہونا چاہیے۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد اس کا اعترافی بیان آیا، پھر اس کیس کو آگے بڑھایا گیا اور ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے بعد اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ کلبھوشن کے حوالے سے تمام مراحل پلاننگ کے ساتھ ہورہے ہیں، ملٹری کورٹ میں کیس بھیجنے سے پہلے تمام شواہد موجود تھے جو دنیا کے ساتھ شیئر کیے گئے۔

وزیراعظم کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ انہیں اس معاملے پر بیان دینا چاہیے تھا۔ 9/11کے بعد سے اقوام متحدہ میں ہر سال ہمارے ملک کا سربراہ شرکت کرتا ہے لیکن کسی نے ہندوستان اور کشمیر پر بات نہیں کی مگر گزشتہ تین سالوں سے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس حوالے سے بات کی۔ اس لیے وزیر اعظم بہتر سمجھتے ہیں کہ انہیں کس فورم پر کیا بات کرنی چاہیے۔ صرف کلبھوشن پر بیان دینے سے تو یہ ثابت نہیں ہوگا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) بھارت کے معاملے میں سافٹ کارنر نہیں رکھتی۔

ہماری جو پالیسی ہے وہ سب کے سامنے ہے، ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی ملک پاکستان میں مداخلت کرے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اس چیز کو کسی بھی صورت برداشت نہیںکی جائے گا۔ میرے نزدیک کلبھوشن کو ملکی مفاد میں ضرور سزا دینی چاہیے۔

جنرل (ر) راحت لطیف خواجہ (دفاعی تجزیہ نگار)

کلبھوشن پاکستان کی حدود میں پکڑا گیا، اس سے تفتیش کی گئی جس میں اس نے انکشافات کیے اور کراچی و بلوچستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک قائم کرنے کا اعتراف کیا۔ وہ چابہار میں سونے کی دکان چلاتا تھا جبکہ اس کا اصل کام دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانا تھا اور وہ بھارت کا حاضر سروس نیوی افسر بھی ہے۔ ایک سال کی تفتیش کے دوران اس کے بتائے ہوئے دیگر لوگوں کوبھی پکڑا گیااور پھر فوجی ٹرائل کے بعد اسے سزائے موت سنا دی گئی جس کے بعد اب واویلا شروع ہوگیا ہے۔ میرے نزدیک حکومت پاکستان کو اس کیس کو قانونی طریقے سے مزید آگے لے کر بڑھنا چاہیے اور کلبھوشن کو ہر ممکن قانونی تعاون فراہم کرنا چاہیے۔

پاکستان ملٹری لاء کے مطابق کلبھوشن کا ٹرائل ہوا جو پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہے۔ اسے مکمل قانونی معاونت دی گئی اور صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔ اسے وہ تمام مراعات دی گئیں جو بریگیڈئیر رینک کے حاضر سروس قیدی کو دی جاتی ہیں کیونکہ اس کا آفیسر رینک ہمارے بریگیڈیئر کے برابر ہے۔اس معاملے کی مکمل چھان بین اور ٹرائل کے بعد اسے سزا سنائی گئی ہے۔ میرے نزدیک ہم نے بالکل درست فیصلہ لیا ہے لہٰذا ہمیں کسی کے دباؤ میں آکر صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم نے اسے سزا کیوں دی،اگر کوئی خود ہمارے سے پوچھے تو پھر ہمیں شواہد فراہم کرنے چاہئیں۔

پیپلز پارٹی کے دور سے یہ بات بار بار کی گئی کہ بھارت ہمارے ملک میں دہشت گردی کررہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں سابق وزیراعظم پاکستان نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ سے کہا کہ بھارت ہمارے ملک میں مداخلت کررہا ہے اور اس کے بعد رحمان ملک نے بھی بارہا بھارتی مداخلت کے حوالے سے بات کی۔ اس وقت عالمی سطح پر بات کرنے کا موقع تھا ۔ پھر جب ہم نے کلبھوشن کو پکڑ لیا تب بھی ہمارے پاس موقع تھا کہ ہم اس مسئلے کو عالمی فورمز پر اٹھاتے اور اقوام عالم کو بتاتے کہ بھارت ہمارے ملک میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔

دفتر خارجہ کو چاہیے تھا کہ بھارتی مداخلت پر بات کرتا، افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں پر بات کرتا کہ وہاں سے ہمارے ملک میں دہشت گردی ہوتی ہے لیکن اب جبکہ کلبھوشن کو سزا ہوچکی ہے تو ایسی صورتحال میں اگرہم کوئی مہم چلاتے ہیں تو اس سے ایسا لگے گا کہ ہم غلط ہیں۔ ہم نے اپنے ملک میں دیگر دہشت گردوں کو بھی پھانسی دی ہے لہٰذا یہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ ہم نے اپنے ملکی قانون کے مطابق کلبھوشن کو سزا دی ہے۔

بھارت نے اجمل قصاب کو پکڑا ، ہماری ٹیم بھارت گئی لیکن اسے اجمل قصاب تک رسائی نہیں دی گئی اور پھر اسے پھانسی دے دی گئی۔ کیا اجمل قصاب انسان نہیں تھا؟ ہم نے جو فیصلہ لیا ہے اس پر ڈٹے رہنا چاہیے اور خود کو کمزور محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ امریکا نے ہمیشہ ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا ہے، اب جب ہم نے ’’ڈومور‘‘ کیا تو اس میں بھارتی جاسوس پکڑا گیا جسے ہم نے قانون کے مطابق سزا دی ہے لہٰذا اب اس پر کوئی واویلا نہیں ہونا چاہیے۔

اس مسئلے پر بھارت کا ردعمل فطری ہے مگر ہم ملکی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ ہم دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں لہٰذا پوری قوم کو اس مسئلے پر یکجا ہونا چاہیے اور اپوزیشن کو بھی اس میں یکجہتی کا پیغام دیکر حکومت کو مضبوط کرنا چاہیے تاکہ اس حوالے سے آگے بڑھا جاسکے۔

جاوید حسین (سابق سفارتکار)

کلبھوشن یادیو کو گزشتہ برس 3 مارچ کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی پھیلانے میں ملوث تھا۔ ملٹری کورٹ میں تقریباََ ساڑھے تین ماہ کے ٹرائل کے بعد شواہد اور تحقیقات کی روشنی میں اسے قانون کے مطابق پھانسی کی سزا دی گئی ہے لیکن ابھی اس کے پاس دو اپیلیں کرنے کی گنجائش موجود ہے جو وہ آرمی چیف اور صدر پاکستان سے کرسکتا ہے۔ اقوام عالم کی بات کریں تو اس کیس کے فیصلے کے حوالے سے انہیںآگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔

ہمیں اقوام متحدہ و دیگر عالمی فورمز پر پر ُ زور طریقے سے یہ بتانا ہے کہ یہ شخص ہمارے ملک میں دہشت گردی پھیلانے اور امن و امان کی صورتحال خراب کرنے میں ملوث تھا، اس حوالے سے ہمارے پاس جو شواہد موجود ہیں، انہیں دیئے جائیں اور یہ بھی بتایا جائے کہ کلبھوشن کو قانون کے مطابق درست سزا دی گئی، اس کا ٹرائل فیئر ہوا ہے، اسے صفائی کا بھرپور موقع دیا گیا اور اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے تاکہ ہمارے پر ایسا کوئی الزام نہ لگے کہ ہم نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

دہشت گردی کے حوالے سے پوری دنیا کا موقف مضبوط ہے کہ ایک ملک کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں دہشت گردی پھیلائے۔ کلبھوشن ہمارے ہاں دہشت گردی میں ملوث تھا، یہاں دہشت گردوں کانیٹ ورک چلا رہا تھا ، وہ بھارت کا حاضر سروس فوجی افسر بھی تھا اور ’’را‘‘ کیلئے کام کررہا تھا۔ بھارت ہم پر الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان اس کے ملک میں دہشت گردی کروا رہا ہے لیکن آج تک ہمارا کوئی بھی شخص نہیں پکڑا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے بھارت کوئی شواہد پیش کرسکا ہے۔

کلبھوشن کے اعترافات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ بھارت نے ہمارے ملک میں دہشت گردی کی ہے اور ان کی حکومت اور ادارے براہ راست اس میں ملوث ہیں لہٰذا دنیا اس مسئلے پر ہمارے ساتھ کھڑی ہوگی۔ بھارت منافقت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، ایک طرف دہشت گردی پر بات چیت کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس پر بھارت کی باز پرس ہونی چاہیے اور پاکستان کو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ، او آئی سی، یورپی یونین و دیگر عالمی فورمز پر بھارت کا اصلی چہرہ بے نقاب کرنا چاہیے۔

کہا جارہا ہے کہ حکومت کو اس کیس کے حوالے سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے تھا۔ میرے نزدیک حکومت کو کسی بھی معاملے کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر ملک میں پہلے سے ہی ایک خاص قسم کی فضا قائم کردی جاتی تو پھر اس ٹرائل پر سوالات اٹھ سکتے تھے اور دنیا یہ کہتی کہ ہم نے تو شروع سے ہی ایسا ماحول بنا لیا تھا جس میں کلبھوشن کو لازمی یہ سزا دینا مقصود تھا۔

شاید ہم نے اسی وجہ سے ہی اس کیس کے حوالے سے اپنا لہجہ دھیما رکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے کلبھوشن کے حوالے سے عالمی سطح پر کوئی کام نہیں کیا بلکہ سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل و دنیا کے دیگر ممالک کو کلبھوشن کے حوالے سے ثبوت فراہم کیے لہٰذا ایسا نہیں ہوسکتا کہ روزانہ ایک ہی چیز پر بات کی جائے۔ اب ہمارے پاس یہ اہم موقع ہے کہ ہم اس مسئلے کوبین الاقوامی سطح پر مزید اجاگر کریں۔

اب ہمیں اپنے دوست ممالک اور جن ممالک کے سفارتخانے یہاں موجود ہیں انہیں بھی کلبھوشن کی سزا کے حوالے سے شواہد دینے چاہئیں تاکہ یہ بتایا جاسکے کہ اس کا فیئر ٹرائل ہوا ہے اور قانون کے مطابق سزا ہوئی ہے۔ یہ دہشت گردی کا مسئلہ ہے ، اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں اس پر موثر آواز اٹھائی جاسکتی ہے۔ ہمیں اپنے سفیروں کے ذریعے عالمی برادری کو اس مسئلے پر اعتماد میں لینا چاہیے اور یہ ثابت کرنا چاہیے کہ بھارت ہمارے ملک میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔

پاکستان اور بھارت پڑوسی ممالک اور ایٹمی طاقتیں ہیںلہٰذا ان کے مابین پرامن تعلقات ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک غیر مشروط مذاکرات جاری رکھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی، کشمیر، سرکریک، سیاچن اور پانی جیسے حل طلب مسائل پر بھی بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ دہشت گردی کے حوالے سے دونوں ممالک کو مل کر ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے جس سے دونوں کے اعتراضات اور خدشات کا خاتمہ ہوجائے۔ بھارت جنوبی ایشیاء میں بالادستی چاہتا ہے جس کی وجہ سے مسائل حل کی طرف نہیں جارہے۔ جب تک برابری کی سطح پر پاک بھارت مذاکرات نہیں ہوتے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔

پیر مسعود چشتی (سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن)

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ٹرائل آرمی ایکٹ 1952ء کے مطابق ہواہے اور اسی کے تحت ہی سزا سنائی گئی ہے۔ کلبھوشن کو سزائے موت کے فیصلے کے بعد بھارتی وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میںاپیل کریں گے۔ آرمی چیف اور صدر پاکستان کے پاس اپیل تک تو ٹھیک ہے لیکن آئین پاکستان کے مطابق آرمی ایکٹ کے تحت فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

آرمی ایکٹ کے حوالے سے سپریم کورٹ کو عمل دخل کا اختیار نہیں ہے تاوقت یہ کہ اس میں کوئی بددیانتی یا دائرہ کار کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ اس لیے میرے نزدیک سپریم کورٹ میں ا س کی شنوائی نہیں ہو گی۔ کلبھوشن کے اقبالی بیان کے بعد واضح ہوگیا کہ وہ پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے اور اس نے یہاں دہشت گردی و امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی ہے لہٰذااسے پاکستان کے قانون کے مطابق درست سزا دی گئی ہے۔ ہمارے ملک کا قانون سب کے لیے برابر ہے، اگر کسی دوسرے ملک کا کوئی شخص ہمارے ملک میں انتشار پھیلانے یا نقصان کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے بھی اسی قانون کے تحت سخت سے سخت سزا دی جائے گی۔

بھارت ہمیشہ سے ہی پاکستان پر مداخلت کے الزامات لگاتا رہا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔ اجمل قصاب و دیگر لوگوں کا رابطہ پاکستانی اداروں کے ساتھ ثابت نہیں ہوا، اگر کسی نے خود کوئی کارروائی کی ہے تو اس میں پاکستانی حکومت یا اداروں کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ یہ اس شخص کا ذاتی فعل ہے۔ بھارت کے حاضر سروس آفیسر کا پکڑا جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت ہمارے ملک میں مداخلت کررہا ہے۔

میرے نزدیک پاکستان کو اس مسئلے کو عالمی فورمز پر بھرپور طریقے سے اٹھانا چاہیے کیونکہ ہمارے ملک میں ہونے والی دہشت گردی اور خراب حالات کا ذمہ دار بھارت ہے، اس نے یہاں بہت تباہی مچائی ہے اور ہمیں بدنام کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔