رول ماڈل مصباح الحق

شکیل فاروقی  پير 17 اپريل 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

بالآخر مصباح الحق نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا اعلان کردیا۔ ان کے اس اعلان سے ان کے بارے میں ہونے والی چہ میگوئیاں ختم ہوگئیں۔ انھوں نے یہ فیصلہ عجلت میں نہیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ اس لحاظ سے بروقت اور برمحل ہے کہ اس وقت وہ اپنے کیریئر کے نکتہ عروج پر ہیں۔ انھوں نے نہ صرف ایک کھلاڑی کی حیثیت سے بہترین انفرادی خدمات انجام دی ہیں بلکہ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

انھوں نے جب قومی ٹیم کی کمان سنبھالی تھی تو حالات انتہائی ناسازگار اور مایوس کن تھے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم اس وقت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار تھی۔ اس کا شیرازہ بکھرا ہوا تھا اور حوصلے انتہائی پست تھے۔ مسلسل شکست و ریخت کی وجہ سے اس کا مورال بری طرح ڈاؤن تھا۔ اس وقت کپتان مصباح الحق کے سامنے ایک پہاڑ سا چیلنج موجود تھا۔ ویسے بھی کرکٹ کی دنیا میں پاکستانی ٹیم کی کپتانی سے بڑھ کر اتنا دشوار کام کوئی اور نہیں مگر بلند حوصلہ مصباح نے اس عظیم چیلنج کو نہایت بہادری سے قبول کیا اور اپنی ٹیم کی شیرازہ بندی میں تن من دھن سے مصروف ہوگئے۔

یہاں ان کی ایم بی اے کی Management Skills بہت کام آئیں، جن سے انھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ نرے کھلاڑی نہیں تھے بلکہ بہترین Management Expert بھی تھے۔ اس لحاظ سے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے اب تک کے تمام کپتانوں میں انھیں سب سے نمایاں حیثیت حاصل ہے اور شاید آیندہ بھی رہے گی کیونکہ وہ محض ایک کھلاڑی ہی نہیں بلکہ ماہر منتظم کی حیثیت کے بھی حامل ہیں۔ ان پر یہ مثال حرف بہ حرف صادق آتی ہے کہ ’’وہ آئے، انھوں نے دیکھا اور فتح حاصل کرلی‘‘ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے والی کہاوت بھی ان پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔ اس کے علاوہ تحمل، نظم و ضبط، برد باری، ٹیم اسپرٹ، ٹیم ورک، مردم شناسی اور دور اندیشی کے علاوہ قوت فیصلہ کی غیر معمولی صلاحیت بھی ان کی نمایاں انفرادی خوبیوں میں شامل ہیں۔ ان تمام خصوصیات کو انھوں نے اپنی ٹیم کے حق میں موقع بہ موقع خوب استعمال کیا اور خاطر خواہ نتائج بھی حاصل کیے۔

اپنی تمام چیزوں کی بدولت انھوں نے ایک بکھری ہوئی ٹیم کو دیکھتے ہی دیکھتے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا۔ ایسا نہیں کہ انھوں نے ہمیشہ فتح ہی حاصل کی ان کی کپتانی کے دور میں کئی نشیب و فراز بھی آئے لیکن انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور اپنی ناکامیوں سے بھی ہمیشہ سبق حاصل کرنے کی کوشش کی انھوں نے 2010 میں اپنی ٹیم کی اس وقت باگ ڈور سنبھالی جب انگلینڈ کے دورے کے بعد ٹیم Spot-Fixing کے دھچکے کا شکار تھی اور اس کے حوصلے انتہائی پست تھے ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ہمت ہار بیٹھتا مگر ان کا جذبہ جوان اور عزم تازہ اور مستحکم تھا انھیں اپنے اﷲ اور اﷲ کی عطا کی ہوئی اپنی صلاحیتوں پر پورا اعتماد تھا وہ اس بات کے قائل تھے کہ:

مُشکلے نیست کہ آساں نہ شود

مرد باید کہ ہراساں نہ شود

جنوبی افریقہ میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچوں میں پے در پے شکست کے باوجود عظیم مصباح نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ ان شکستوں سے بھی سبق حاصل کیا اور اپنے تلخ تجربوں سے بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ انگلینڈ کے ساتھ گزشتہ ٹیسٹ سیریز میں انھوں نے اپنے مد مقابل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 2000-2010 میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے کے بعد مصباح الحق نے پیچھے کی جانب مڑ کر نہیں دیکھا اور وہ ترقی کی راہ پر قدم بہ قدم بڑھتے ہی چلے گئے۔ ان کے راستے میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر وہ Head Down اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہی چلے گئے پھر 2010 میں وہ تاریخ ساز لمحہ آیا جب ان کے سر پر پاکستان کی قومی ٹیم کی کپتانی کا تاج سجایا گیا۔

گویا انھیں Hot Sen پر بٹھادیا گیا۔ یہ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے امتحان کا آغاز تھا۔ اس امتحان میں بھی مصباح نے نہ صرف ایک کھلاڑی کی حیثیت سے بلکہ اپنی ٹیم کے کپتان کے طور پر بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر خوب خوب دکھائے۔ اپنے ٹھنڈے مزاج کی وجہ سے بھی انھوں نے نہ صرف اپنی ٹیم میں بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کے میدان میں بھی اپنی اہلیت اور لیاقت کا لوہا خوب منوایا اور ہر جگہ بہت زیادہ مقبولیت اور شہرت حاصل کی۔ انھوں نے سیریز کے بعد سیریز جیتیں اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کیا۔ کپتان بننے سے پہلے انھوں نے 19 ٹیسٹ میچوں میں ایک ہزار آٹھ  رنز اسکور کیے اس کی اوسط شرح 33.60 تھی ،کپتانی سنبھالنے کے بعد انھوں نے 42 ٹیسٹ میچوں میں تقریباً 4000 رنز اسکور کیے جس سے ان کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اگرچہ بسا اوقات وہ محتاط بلے بازی کی وجہ سے قدرے سست اسکورنگ کا شکار بھی ہوئے لیکن وقت پڑنے پر انھوں نے ابو ظہبی میں سرویون رچرڈ جیسی دھواں دھار بلے بازی کا مظاہرہ بھی کرکے دکھادیا۔ وہ ایک Coolاور Calculatedکرکٹر ہیں اور یہ ان کا ایک نمایاں وصف ہے۔ انھوں نے اپنے اس منفرد اسٹائل سے اپنے بعد آنے والے کھلاڑیوں کے لیے بھی اچھے نقوش پاچھوڑے ہیں جنھیں اپناکر وہ اپنا اور اپنی ٹیم کا مستقبل روشن کرسکتے ہیں۔ مصباح کا کہنا ہے کہ تا حال انھوں نے اپنے مستقبل کے لیے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی ہے تاہم وہ Domestic Cricket جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید وہ مستقبل میں کرکٹ کمنٹری کے دوران ایک ایکسپرٹ کے طور پر شریک ہونا پسند کریں گے۔

ملک کے مایہ ناز سپر اسٹار کرکٹرز نے مصباح الحق کے ریٹائرمنٹ کے اعلان کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہنے کا ان کا یہ فیصلہ ان کے نزدیک درست اور بروقت ہے۔ ماضی کے مایہ ناز ٹیسٹ کرکٹر اور فاسٹ باؤلر سکندر بخت کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ سے اس طرح کا فیصلہ اس سے پہلے کسی اور پاکستانی کرکٹر نے نہیں کیا۔ اسٹار بیٹسمین محمد یوسف کا کہناہے کہ مصباح الحق کی کامیابیاں بے شمار ہیں اور وہ ایک فقید المثال الوداع کے مستحق ہیں۔ پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے عندیہ دیا ہے کہ مصباح الحق کو شاندار فیئرویل دیا جائے گا۔ مصباح الحق کی ایک اور بڑی کامیابی یہ ہے کہ انھوں نے گزشتہ سال پاکستان کو بین الاقوامی کرکٹ میں نمبر ایک کی صف میں لے جاکر کھڑا کردیا ہے۔ بلاشبہ وہ پاکستان کے آنے والے کرکٹ کھلاڑیوں کے لیے ایک Role-Model کا درجہ رکھتے ہیں۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔