ہم تو ایک پرُامن قوم تھے

عبدالقادر حسن  پير 17 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

صبر و تحمل کے ساتھ عوام کی فلاح کے لیے سرا نجام دئے جانے والے کاموں یا نئے منصوبوں کا نام حکمرانی ہے اور حکومت تبھی کامیاب ہوتی ہے جب وہ اپنے ان فرائض سے عہدہ برا ہو ورنہ ناکامی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے اور عوام میں غیرمقبول ہو جاتی ہے ۔

ہمارے دین میں ایک حکمران کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں ان کی بنیاد ہی عوام کی فلاح وبہبود ہے ، کسی دوسری چیز کو حکمران کے لیے افضل قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اگر عوام ہی اپنے حکمران یا اس کی پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہوں گے تو اس حکمران سے ان کا کیا لینا دینا وہ تو اچھے دنوں اور ایک بہتر مستقبل کی امید میں کسی بھی حکمران کو منتخب کرتے ہیں اور یہ حکمران پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ عوام کی ان توقعات پر کس طرح یا کس حد تک پورا اتر کر کے ان کو ایک پُرسکون اور باحفاظت زندگی گزارنے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اسلامی طرز حکومت میں صرف اور صرف عوام کی ہی بات کی گئی ہے جس پر ہمارے خلفائے راشدین کے دور تک تو عمل کیا گیا لیکن بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں نے اسلامی حکمرانی کی روح کے مطابق حکمرانی کا حق ادا نہیں کیا ۔

ہمارا ملک خالصتاً اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا کیونکہ اس وقت مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کا متحدہ ہندوستان میں متعصب ہندوؤں کے رہنا کسی بھی طور ممکن نہیںکیونکہ ہندو مذہب اور ہمارا دین مکمل طور پر ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور ایک ہی جگہ ایک دوسرے کے ساتھ رہ کر مذہبی آزادی کا کوئی تصور نہیں اور آئے روزکے مذہبی فسادات سے چھٹکار اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک الگ اسلامی ریاست وجود میں آئے جہاں پر مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو اور وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی کو رواں دواں رکھ سکیں۔

مذہب کے نام پر حاصل کیے ملک میں مذہب کے نام پر جو تماشے لگائے گئے انھوں نے ہمیں ایک قوم کے بجائے مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا اور ایک ہجوم کی شکل اختیار کر گئے ہیں اور اپنے بنیادی عقائد سے رو گردانی کرتے ہوئے اپنے سکو ن کی تلاش میں کبھی تو کسی پیر کے دربار پر حاضر ہیں اور کبھی مذہب کی توہین کے نام پر کسی بے گناہ کو قتل کر دیتے ہیں ۔

مردان میں ہونے والے واقعہ میں ایک طالبعلم کو بغیر کسی الزام کے قتل کر دیا گیا حالانکہ ہمارے مذہب میں بھی ہمیں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ کسی پر بہتان مت لگاؤ یہ ناپسندیدیہ فعل ہے لیکن مذکورہ واقعہ میں بھی ایک ہجوم نے بلا سوچے سمجھے خود ہی منصفی کرتے ہوئے ایک نوجوان کو قتل کر دیا ۔ ہماری حکومت نے اس پر سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے اور وزیر اعظم نے پوری قوم سے اس سفاکیت کی مذمت کرنے کو کہا ہے ۔

عدم برداشت پاکستانی معاشرہ کا سب سے بڑا مسئلہ کیوں بن گیا اس کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے کوئی لمبا چوڑا غور وفکر کرنے کی ضرورت نہیں اس کی وجہ ہمارے وہ معاشرتی رویے ہیں جو ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں اور ان میںلچک پیدا کرنے کو تیار نہیں ، ہمارا ذہن ا س طرح کام ہی نہیں کر سکتا جس کا حکم ہمیں قرآں پاک اور نبیﷺ نے دیا ہے ۔ ہمیں آپس میں ہی اس طرح گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے کہ ہمارا لباس تک تبدیل ہو گیا ہے اور ہم میں سے کچھ تو اپنی مذہبی شدت پسندی کے لیے اپنے لباس کی وجہ سے پہچانے جا تے ہیں ۔

ابھی حال ہی میں سرگودھا میں ہونے والا واقعہ ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہوا جہاں پر ایک جنونی پیر نے اپنے مریدوں کو قتل کر دیا اور وہ خوشی خوشی قتل ہوگئے ، اس طرح کے کئی اور واقعات ہر روز ہمارے ارد گرد وقوع پذیر ہورہے ہوتے ہیں اور ہم ان سے بے خبر ہوتے ہیں یا پھر جان بوجھ کر ان سے صرف نظر کر رہے ہوتے ہیں ۔

اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو کچھ بھی مانگنا ہے براہ راست مجھ سے مانگو اور کسی کو بھی اپنا وسیلہ نہ بناؤ۔ اس طرح کے واضح پیغام کے باوجود ہم دنیاوی وسیلوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور جب اپنی پریشانیوں کے سلسلے میں ہمیں بطور مسلمان قرآن سے رجوع کرنا چاہیے تو ہم ان دنیاوی پیروں کے چکر میں پڑ جاتے ہیں جن کے پا س ہر مشکل کا حل اور ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے اور ہم نابینا مسلمان اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کو ترجیح دیتے ہیں بجائے اس کے کہ سکون کی تلاش کے لیے اﷲ سے رجوع کریں ہم اپنے دنیاوی وسیلوں سے سکون حاصل کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس نے نہ صرف ہمارے مذہب کو نقصان پہنچایا ہے بلکہ ہمیں مذہبی طور پر ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے اور ہمیں شدت پسندی کی طرف مائل کر دیا ہے ۔

سوشل میڈیا بھی معلومات اور افواہوں کا ایک خزانہ ہے، اس پر ایک تصویر نظر سے گزری ہے کہ جنوبی پنجاب کے ایک اسکول میں طالبعلم کلاس میں پڑھ رہے ہیں اور پیچھے دیوار پر لکھا ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا اس کا قتل جائز ہے۔ یہ کیا ہے اور کیوں ہو رہا ہے کون لوگ ہیںجو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ ہمارے بچوں کے کچے ذہنوں میں نامناسب رویوں کا بیج بو رہے ہیں اور اس کے لیے مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ ہم مذہب کے نام پر ہر بات برداشت کرتے ہیں اورکچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اب ہمارا دشمن بھی یہ بات سمجھ چکا ہے اور ہمیں وہ اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کررہا ہے اور یہ سب سے آسان طریقہ ہے اور ہم بغیر سوچے سمجھے اس کا آسان شکار بنتے جا رہے ہیں ۔

ہماری حکومتیں عوام کومذہبی آزادی تو فراہم کرتی رہیں لیکن کسی نے بھی ان شدت پسندانہ رویوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی جس سے ان کا سد باب ممکن ہوتا اور ہم پاکستانی ایک شدت اور انتہا پسند قوم کے طور پر دنیا بھر میں جانے اور پہچانے نہ جاتے ۔ اب جب کہ تیر کمان سے نکل چکا ہے تواس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ حکومتوں کے بجائے اس معاملے میں عوام کو شعور سے کام لینا ہوگا اور اپنے ارد گرد شدت پسندی کے رجحان کو ختم کر کے رواداری کو فروغ دینا ہو گا۔

جس کا حکم ہمیں ہمارے مذہب نے دیا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ہم ایک پرُ امن قوم ہیں جو اپنے اصل مقصد سے بھٹکا دی گئی تھی ۔اگر یہ احساس باقی ہو کہ ہمیں بھٹکا دیا گیا ہے تو اس کی اصلاح ممکن بلکہ آسان ہے ۔یہ کام ہمارے دانشوروں کا ہے کہ ایک قوم کو واپس لائیں اور اسے احساس دلائیں کہ وہ بھٹک گئی تھی ۔ہمارا دین ایک آسان اور صاف ستھرا دین اور عقیدے کا نام ہے اور اس میں ملاوٹ ختم کرنا ایک آسان کام ہے صرف یہ احساس چاہیے کہ ہم بھٹک گئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔