ہارون رشید کو ’’واپسی مبارک‘‘

سلیم خالق  منگل 18 اپريل 2017
اتفاق سے یہ فیصلہ کرنے والی ایچ آر کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی ہی ہیں۔ فوٹو: فائل

اتفاق سے یہ فیصلہ کرنے والی ایچ آر کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی ہی ہیں۔ فوٹو: فائل

’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا‘‘

میرے جیسے صحافیوں کا یہ مخصوص جملہ ہوا کرتا ہے، جب بھی کرکٹ میں کچھ خاص ہو تو ہم اسے دہراتے ہیں، جیسے ابھی پی سی بی کی ای میل موصول ہوئی جس میں ہارون رشید کو ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کہ تمام مروجہ طریقہ کار پر عمل اور باقاعدہ انٹرویو کے بعد ان کی تقرری عمل میں آئی تو میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا‘‘۔

اس ملازمت کا رسمی اشتہار جاری ہونے سے قبل ہی مجھ جیسا عام صحافی بھی جانتا تھا کہ یہ پوسٹ ہارون رشید ہی سنبھالیںگے، وہ پی سی بی چیئرمین کے سوا تقریباً تمام بڑے عہدوں پر براجمان رہ چکے،ان کے دیگر بھائیوں نے بھی ملکی کرکٹ کیلیے ’’ گراں قدر خدمات‘‘ انجام دیں،اس میں کوئی اعتراض بھی نہیں ہونا چاہیے مگر مسئلہ طریقہ کار کا ہے، اس بار بھی ہارون رشید کولانے کا منصوبہ بہت پہلے تیار کیا جا چکا تھا، ہم لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہے۔

اس لیے میں اس حوالے سے تھوڑا پس منظر بیان کرنا چاہوں گا، گزشتہ برس ایشیا کپ اور ورلڈٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کو بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت سلیکشن کمیٹی کی سربراہی ہارون رشید کے ہی پاس تھی،حکومت نے بھی ٹیم کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تو پی سی بی نے پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی،اس کے سامنے ہارون رشید اپنے فیصلوں کی وضاحت پیش نہ کر سکے۔

یوں ان پر قومی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد ہوا، اپنی سفارشات میں کمیٹی نے انھیں عہدے سے ہٹانے کا لکھا، چیئرمین شہریارخان پہلے ہی سلیکشن میں من مانیوں کے سبب ہارون رشید سے خوش نہ تھے، لہذا اس کمیٹی کی رپورٹ کو جواز بنا کر انھیں فارغ کر دیا گیا،سابق بیٹسمین ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کے بیحد قریب اور کرکٹنگ امور میں انھیں مشورے دیتے رہتے ہیں۔

ایسے میں چند ماہ بعد انھیں نئی پوسٹ پر واپس لانے کا منصوبہ تیار کیا گیا،پہلے تو شہریارخان مان گئے ایسے میں کسی نے انھیں یاد دلایا کہ ’’جناب آپ نے ہارون رشید کو نااہلی پر برطرف کیا اب خود ہی واپس لائیں گے‘‘ لہذا انھوں نے بورڈ میٹنگ میں اس کی مخالفت کر دی، سابق کرکٹرکے چاہنے والوں سے یہ برداشت نہ ہوا، ہارون رشید کو ذہن میں رکھ کر اشتہار تیار کیا گیا، امیدوار کا کم ازکم بیچلر ڈگری کا حامل اور ایڈمنسٹریشن ترجیحاً اسپورٹس میں10 سالہ کام کا تجربہ ہونا ضروری قرار پایا۔

ہارون طویل عرصے سے بورڈ کے ساتھ منسلک اور ان دونوں شرائط پر پورا اترتے تھے، یہ پلان میڈیا میں آنے پر سوائے اقبال قاسم کے کسی اور ہائی پروفائل شخص نے اس عہدے کیلیے درخواست نہیں دی، بغیر کام لیے محض عمران خان کی دوستی کے دم پر بورڈ سے ہر ماہ بھاری تنخواہ اور مراعات لینے والے ذاکرخان نے بھی اپلائی کیا۔

دونوں شہریارخان سے قربت رکھتے ہیں، مگر اب خود چیئرمین اپنا استعفیٰ وزیر اعظم ہاؤس بھیج چکے اور نجم سیٹھی تیسری بار چیئرمین بننے کیلیے تیار بیٹھے ہیں، یوں ہارون رشید کیلیے میدان صاف تھا، البتہ شفافیت دکھانے کیلیے تھوڑی تاخیر کی گئی، ایک صحافی نے کیا خوب ٹویٹ کی ہے کہ ’’ جو شخص ایک ٹیم نہ بنا سکا وہ اب پورے پاکستان کی کرکٹ سنبھالے گا‘‘۔

اتفاق سے یہ فیصلہ کرنے والی ایچ آر کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی ہی ہیں، وہ اب پوری قوت کے ساتھ پوسٹ سنبھالیں گے، ڈائریکٹر میڈیا اور ڈائریکٹر مارکیٹنگ سمیت تمام اعلیٰ عہدوں پر ان کی قریبی شخصیات موجود ہیں، سی او او سبحان احمد بعض کیسز میں الجھے ہوئے ہیں یا انھیں الجھا دیا گیا، سنا ہے ان کی جگہ بھی ڈائریکٹر گیم ڈیولپمنٹ ایزد سید کو لانے کیلیے کوششیں جاری ہیں۔

بورڈ میں ویسے ہی سب ’’یس مین‘‘ بن چکے تھے اب اور زیادہ وفاداریاں نبھائی جائیںگی، ذاکرخان،انتخاب عالم،آغا اکبر و چند دیگر قریبی شخصیات کے جانے یا غیرفعال ہونے سے شہریارخان ویسے ہی تھوڑی بہت پاور بھی کھو چکے تھے، ایسے میں اب ان کے پاس بھی گھر جانے کے سوا کوئی راہ باقی نہیں بچی۔

ویسے ہارون رشید کی عمر اب 64 سال ہو چکی، پی سی بی گورننگ بورڈ تو یہ طے کر چکا تھا کہ 60 سال سے زائد العمر کسی شخص کو ملازمت نہیں دی جائے گی تو وہ کیسے آ گئے؟ یہ خبر کئی ماہ قبل ’’ایکسپریس‘‘ میں آ چکی تھی کہ ہارون رشید کو ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز بنا کر لایا جا رہا ہے،اس ضمن میں اشتہار دے کر تقرری ہو گی، اب ایسا ہو چکا تو یہ کیا محض اتفاق ہے؟ اب یہ بات بھی لکھ لیں کہ عنقریب معین خان بھی کسی پوسٹ پر واپس آ جائیں گے،ان کے سر پر بھی بعض بڑی شخصیات کا ہاتھ ہے جو انھیں واپس لانے کیلیے مناسب موقع کی تلاش میں ہیں۔

گزشتہ دنوں میں ایکسپریس نیوز کا پروگرام ’’اسپورٹس پیج‘‘ دیکھ رہا تھا، اس میں جب نجم سیٹھی نے شکوہ کیا کہ میڈیا سرفراز نواز جیسے سابق کھلاڑیوں کو بہت اہمیت دے رہا ہے تو میزبان مرزا اقبال بیگ نے مسکراتے ہوئے بڑی گہری بات کہی کہ ’’جناب کیا کریں بیشتر سابق کرکٹرز کو تو بورڈ نے ملازمت دے دی، اب جو بچ گئے انہی کو تو بلائیں گے‘‘ حقیقت یہی ہے کہ جو سابق اسٹارز جارحانہ بیانات دینے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے، ان سب کو اب پی سی بی نے اپنا بنا لیا ہے۔

بعض کو تو قصیدہ گوئی کیلیے باقاعدہ ماہانہ تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں، اگر اتنی قوت مسائل حل کرنے پر لگائی جاتی تو یقیناً معاملات میں بہتری آ جاتی مگر ابھی تو یہ حال ہے کہ اگر آپ سچ بھی لکھیں تو’’اینٹی پی سی بی‘‘ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، بجائے میڈیا کو قصور وار ٹھہرانے کے حکام کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، مگر افسوس سب طاقت کے نشے میں چور ہیں، انھیں لگتا ہے کہ حکمران اپنے ہیں اس لیے کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا لیکن ہمیشہ تو ایسا نہیں چلے گا، کبھی نہ کبھی تو حالات تبدیل ہوںگے،شاید تب ہی کرکٹ معاملات میں کچھ بہتری آ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔