بموں کا ’’باپ‘‘ تباہ کن امریکی بم کی داستان ِعجب

ع محمود  منگل 18 اپريل 2017
روس کے سائنس دانوں نے بموں کا باپ 2007ء میں تیار کیا تھا۔ فوٹو : فائل

روس کے سائنس دانوں نے بموں کا باپ 2007ء میں تیار کیا تھا۔ فوٹو : فائل

13 اپریل کی رات امریکی فوج نے افغانستان صوبے، ننگرہار میں داعش کے اڈے پر GBU-43/B Massive Ordnance Air Blast نامی بم گرایا جسے ’’بموں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس موقع پر پاکستانی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا غیر جوہری یا روایتی بم ہے۔ یہ بات غلط ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا روایتی بم روس نے بنا رکھا ہے جو سرکاری طور پر ’’Aviation Thermobaric Bomb of Increased Power‘‘ کہلاتا ہے۔عرف عام میں اسے ’’بموں کا باپ‘‘ کہا جاتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ کہ بہ لحاظ وزن یہ باپ صاحب ماں صاحبہ سے کمتر ہیں۔امریکی بم کا کل وزن 10.3 ٹن ہے جبکہ روسی بم7.1 ٹن وزن رکھتا ہے۔ مگر بموں کا باپ یوں ممتاز ہے کہ اس میں رکھا انتہائی دھماکہ خیز مواد (High explosive) ’’44 ٹن‘‘ ٹی اینڈ ٹی کے برابر طاقت رکھتا ہے۔ جبکہ بموں کی ماں کا انتہائی دھماکہ خیز مواد ’’11 ٹن‘‘ ٹی این ٹی جتنی طاقت کا حامل ہے۔ گویا روسیوں کا ’’باپ‘‘ امریکیوں کی ’’ماں‘‘ سے چار گنا زیادہ طاقتور روایتی بم ہے۔

واضح رہے، ٹی این ٹی بموں میں دھماکا خیز مواد پھٹنے پر جنم لینے والی توانائی ناپنے کا پیمانہ ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، روایتی بموں میں بموں کا باپ سب سے زیادہ شدت (44 ٹن) والا دھماکا خیز مواد رکھتا ہے۔ مگر ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم پھٹنے سے جو توانائی پیدا ہو،وہ کہیں زیادہ شدت رکھتی ہے ۔ امریکیوں نے جاپانی شہر، ناگاساکی پر جو ایٹم بم گرایا اس کی شدت ’’20 کلو ٹن‘‘ (بیس ہزار ٹن) تھی۔ جبکہ 1961ء میں روس (سویت یونین) نے جس ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا، وہ ’’50 میگاٹن‘‘ (پانچ کروڑ ٹن) ٹی اینڈ ٹی جتنی شدت رکھتا تھا۔

سویت یونین نے بحیرہ قطب شمالی کے نزدیک جس ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا، وہ انسانی تاریخ میں انسان ساختہ سب سے بڑا دھماکا ہے۔ یہ بم 26 فٹ لمبا اور تقریباً 30 ٹن وزنی تھا۔ روسیوں نے اسے ’’آئیون‘‘( Ivan) کا نام دیا۔ اہل مغرب نے اس کو ’’زار بمبا‘‘ (Tsar Bomba) کہہ کر بلایا۔ روس میں اسے ’’کوزکینامت‘‘ (Kuzkina mat) بھی کہا جاتا ہے۔ روسی زبان میں اس محاورے کے معنی ہیں :’’میں تجھے دیکھ لوں گا۔‘‘ دراصل 1961ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے سویت رہنما، خروشیف نے امریکا کو بم دھماکے کی دھمکی دیتے ہوئے ’’کوزکینامت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ اسی لیے زار بمبا پر بھی یہ انوکھا محاورہ ثبت ہوگیا۔

بات ہورہی تھی بموں کے ’’باپ‘‘ اور بموں کی ’’ماں‘‘ کی! یہ دونوں تباہ کن اور انتہائی خوفناک بم زمین سے چھ سات فٹ بلندی پر پھٹتے ہیں۔ تب انتہائی دھماکا خیز مواد پھٹ کر جھٹکے دینے والی زبردست لہریں (شاک ویوز) پیدا کرتا ہے۔ یہ لہریں نیچے اور دائیں بائیں تیزی سے پھیل کر اپنی راہ میں آنے والی ہر شے تباہ و برباد کرڈالتی ہیں۔

بموں کی ماں اور باپ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ روسی بم میں انتہائی دھماکا خیز مواد کے چاروں طرف کئی ٹن تیل بھی رکھا جاتا ہے۔ چناں چہ جب بم چھ سات فٹ بلندی پر پھٹے، تو دھماکا خیز مواد پھٹ کر تیل کو بھی آگ لگا دیتا ہے۔ گویا تب نہ صرف جھٹکے دینے والی زبردست لہریں جنم لیتی ہیں بلکہ جلتا تیل چاروں طرف پھیل کر خوفناک آگ بھی لگا دیتا ہے۔ یہ آگ اتنی لرزہ خیز ہوتی ہے کہ شدید درجہ حرارت کی وجہ سے پتھر بھی جل کر مانند کوئلہ ہوجاتے ہیں۔ یوں زمین کے کچھ نیچے یا باہر موجود دشمن کی ہر شے کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔

روس کے سائنس دانوں نے بموں کا باپ 2007ء میں تیار کیا تھا۔ خطرناک بم یہ امر ذہن میں رکھ کر بنایا گیا کہ وہ ایٹمی ہتھیار کی طرح وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائے۔ لیکن اس بم سے تاب کار مادہ خارج نہ ہو جو ایٹمی ہتھیار سے پھوٹ کر میلوں تک پھیلتے ہوئے ہر قسم کی زندگی کے لیے موت کا پیغام بن جاتا ہے۔

امریکا نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے افغان صوبے، ننگرہار میں واقع داعش کی سرنگیں تباہ کرنے کی خاطر ’’بموں کی ماں‘‘ کو سرزمین افغانستان پر گرایا۔ زیر زمین واقع عسکری تنصیبات تباہ کرنے والا بم عسکری اصطلاح میں ’’دخول پذیر‘‘ (Penetrator) کہلاتا ہے۔ جبکہ بموں کی ماں دخول پذیر بم ’’نہیں‘‘ ۔ اس سے جنم لینے والی شاک ویوز بہ مشکل تین چار فٹ تہہ زمین تک پہنچ پاتی ہیں۔ گویا بعض ماہرین کا یہ دعویٰ درست ہے کہ امریکیوں نے اس بم کا تجربہ کرنے کی خاطر سرزمین افغاناں کو بطور ’’گنی پگ‘‘ استعمال کیا۔

حیرت ہے کہ امریکا نے داعش کی زیر زمین واقع سرنگیں تباہ کرنی تھیں تو اپنا دخول پذیر بم کیوں استعمال نہ کیا؟ یہ بمGBU-57A/B Massive Ordnance Penetrator کہلاتا ہے۔ اسے عرف عام میں ’’بنکر بسٹر بم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے طاقتور دخول پذیر بم ہے۔ یہ زیر زمین 200 فٹ (60 میٹر) تک واقع کنکریٹ و اسٹیل سے بنی عمارتیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔