کھیل کا اصل مقصد کیا تھا؟

نصرت جاوید  جمعـء 18 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کئی برسوں سے سوائے سیاست کے میں اور کسی موضوع پر توجہ ہی نہیں دے پایا۔ اپنے ملک کی سیاست کو سمجھنے اور اس کے بارے میں ذرا مختلف انداز میں لکھنے کے لیے آپ دوسرے ملکوں میں ہونے والی سیاست کو جاننے پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔ بھارت کا سیاسی اور پارلیمانی نظام تقریباََ ہمارے جیسا ہے۔ 1984ء میں وہاں الیکشن ہوئے تو ان کے بارے میں کئی ہفتوں تک مسلسل رپورٹنگ کی اور ان دنوں کے تجربات مجھے آج کے دنوں میں اس ملک میں ہونے والی سیاست کو ذرا جلدی سمجھا دیتے ہیں۔

بہر حال کتابوں اور پھر بھارت اور برطانیہ کی حالیہ حکومتوں کو بنتا بگڑتا دیکھ کر مجھے یہ پتہ چلا کہ اگر کسی پارلیمانی نظام حکومت والے ملک میں انتخابات کے بعد کوئی سیاسی جماعت اکثریت نہ حاصل کر پائے تو وہ اتحادی ڈھونڈتی ہے۔ حکومت بنانے کے لیے اتحاد قائم کرتے وقت سیاسی جماعتیں اپنے باہمی اور نظریاتی اختلافات کو فراموش نہیں کر دیتیں۔ انھیں صرف پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ اتحادی حکومت بنا لینے کے بعد اس میں شامل جماعتیں وقتاََ فوقتاََ اپنی الگ شناخت اور ترجیحات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ مگر ایک بات پر سب کا ایکا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ حکومت کو ہر صورت اپنی معیاد حکومت ختم ہونے تک برقرار رکھنا ہے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا جو قبل از مدت انتخابات کی طرف لے جائے۔

ہمارے ملک میں 2008ء کے انتخابات ہوئے تو صاف راستہ یہ دِکھ رہا تھا کہ پاکستان کی دونوں بڑی جماعتیں جن کے درمیان ایک ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ بھی طے ہو چکا تھا، مل کر حکومت بنائیں۔ انھوں نے یہ حکومت بنا تو لی۔ مگر صرف چند ہفتوں کے لیے۔ پھر مفاہمت،مفاہمت کی گردان کرتے ہوئے ’’ایک زرداری۔ سب پر بھاری‘‘ نے پہلے ایم کیو ایم اور بالآخر ایسی لیگ کو بھی گلے لگا لیا جسے خود انھوں نے محترمہ کے قتل کے بعد ’’قاتل لیگ‘‘ کا نام دیا تھا۔ اسفند یار ولی کی عوامی نیشنل پارٹی شروع دن سے پیپلز پارٹی کے ساتھ رہی۔ مگر ایم کیو ایم نے حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے فوراََ بعد این آر او کو قومی اسمبلی سے منظور کرانے سے انکار کر دیا۔ یہی موقف اس جماعت نے RGST کے سلسلے میں بھی اختیار کیا۔ این آر او کی قومی اسمبلی سے تصدیق نہ کرانے کے بعد حکومت سپریم کورٹ کے روبرو کمزور پڑگئی۔ ابھی اس کمزوری کا حل بھی نہ مل پایا تھا کہ حکومت کی ایک اور ’’اتحادی‘‘ جماعت کے ایک سابق وزیر، اعظم سواتی سپریم کورٹ چلے گئے۔ حج اسکینڈل بنا اور سابق وزیر برائے مذہبی امور دو برس سے زیادہ کے لیے جیل چلے گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن سواتی کے اقدام کی وجہ سے حکومت سے باہر آئے تو ’’قاتل لیگ‘‘ کے فیصل صالح حیات رینٹل پاور کا کیس لے کر سپریم کورٹ چلے گئے۔ راجہ پرویز اشرف ان دنوں اسی کیس کی مصیبتیں بھگت رہے ہیں۔ مگر مخدوم فیصل صالح حیات کی جماعت کے چوہدری پرویز الٰہی نائب وزیر اعظم ہیں۔

انتہائی مضحکہ خیز نظر آنے والے ان تمام ترتضادات کے باوجود اس حکومت نے اپنے پانچویں سال میں داخل ہو کر واقعتاََ ایک حیران کن کارنامہ کر دکھایا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتحادی جماعتیں سر جھکا کر اطمینان سے نئے انتخابات کی راہ بنائیں۔ مگر کئی سال تک خود ساختہ جلا وطنی میں رہنے کے بعد کینیڈا کے ایک قادری 23 دسمبر 2012ء کو لاہور آ گئے۔ انھوں نے حکومت کو صاف، شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے چند اقدامات اٹھانے کے لیے دس جنوری کی مہلت دی۔ ان کی آمد اور ڈیڈ لائن کو ایم کیو ایم نے والہانہ سراہا۔ ان کو بڑے اہتمام سے نائن زیرو بلوا کر شہر کراچی سے ایک بڑے انقلابی کے طور پر متعارف بھی کرایا۔ کینیڈا سے آئے قادری ترنگ میں آ گئے اور اسلام آباد پر لشکر کشی کی تیاریاں شروع کر دی۔ ان کی تیاریوں کے درمیان حکومت کی ایک اور ’’اتحادی‘‘ جماعت کے چوہدریوں نے لاہور میں عارضی طور پر قائم کردہ ’’آستانہ قادری‘‘ کے پھیرے لگانا شروع کر دیے۔

بہانہ یہ بنایا گیا کہ کینیڈا سے آئے قادری کو اسلام آباد پر چڑھ دوڑنے سے روکنے کے لیے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ وہ صاحب مگر مان کر نہ دیے۔ پوری دنیا کے سامنے بلکہ ثابت کر دیا کہ چوہدریوں اور آصف علی زرداری کے درمیان رشتوں میں ’’ایلفی‘‘ کا کردار تو جناب ریاض ملک سر انجام دیتے ہیں۔ چوہدری برادران کے ’’مذاکرات‘‘ ناکام ہونے کے بعد حکومت پنجاب اور اسلام آباد میں قائم حکومتوں کا یہ مشترکہ فرض بنتا تھا کہ وہ قادری مارچ کو روکنے کی تیاریاں کرتیں۔ مجھے باوثوق ذرایع سے خبر ہے کہ چند روز پہلے وزیر اعظم سے اپنی ملاقات کے دوران شریف النفس اور جمہوریت پر مکمل ایمان رکھنے والے محمود خان اچکزئی نے اسی تعاون پر زور دیا تھا۔ ان کی موجودگی میں راجہ پرویز اشرف نے نواز شریف کو فون کیا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ نے اچکزئی کے خیال سے اتفاق کیا اور یہ تجویز دی کہ وفاقی سیکریٹری داخلہ کو پنجاب میں بیٹھے ہم منصبوں کے ساتھ مکمل رابطے میں رہنا چاہیے۔ اس کے بعد کیا ہوا۔ میں نہیں جانتا۔

ایم کیو ایم کا مگر اصرار اپنی جگہ قائم رہا کہ رحمٰن ملک ’’آستانہ قادری‘‘ جائیں اور کینیڈا سے آئے انقلابی کو کسی طرح مطمئن کریں۔ وہ مطمئن نہ کر پائے تو چوہدریوں نے اصرار شروع کر دیا کہ قادری کو اسلام آباد آنے سے نہ روکا جائے۔ وہ آ گئے تو اس جگہ نہ رکے جہاں رکنے کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ اس کے بعد والے تماشوں سے آپ سب اچھی طرح واقف ہیں۔ 24/7 چینلز نے آپ کو سب کچھ دکھا دیا ہے۔ میرا سوال تو صرف یہ ہے کہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے ’’اتحادی‘‘ کینیڈا سے آئے شخص کے سحر میں اتنا گرفتار کیوں ہو گئے تھے؟ اس سارے کھیل کا اصل مقصد کیا تھا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔