کیا واقعی انقلاب آنے والا ہے؟

پاکیزہ منیر  جمعـء 18 جنوری 2013
  پاکیزہ منیر

پاکیزہ منیر

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امن و آشتی اور نظام کارکو اس وقت ہمیشہ خطرے کا سامنا رہا ہے، جب کوئی ملک انتہائی مفلوک الحالی کی چکی میں پس رہا ہو اور اس کے ساتھ اس میں جنگی جذبات بھی بدرجہ اتم موجود ہوں۔ دنیا کی تاریخ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ انقلابات کے پس منظر میں دو اہم وجوہ رہی ہیں، مذہب اور غربت۔ انقلاب کی اصل روح اقتصادی بنیاد ہی سے پھوٹی ہے۔ تاہم ایسے انقلابات کی قیادت مذہب کے ہاتھ سنبھال لیتے ہیں۔

سیاسی تبدیلیاں عالمی معیشت میں بے چینی کی واضح مثالیں ہیں، عرب دنیا جن میں تیونس، لیبیا، مصر، فلسطین، یمن، شام، کویت، ان سب اسلامی ممالک میں تبدیلیاں آئیں اس کی بنیادی وجہ معاشی مستقبل کے متعلق بے چینی ہے کیوں کہ غربت اور بے روزگاری کی شرح روز بہ روز بڑھتی ہی جا رہی ہے اور اس کے نتیجے میں تیونس، لیبیا، یمن اور مصر میں تبدیلی آئی، کسی بھی ملک کے عوام کسی بھی تبدیلی کے لیے کھڑے ہوجائیں تو وہ تبدیلی یقیناً ہوتی ہے کیونکہ عوام ہی اصل طاقت ہیں، اگر عوام کسی ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، انقلاب لانا چاہتے ہیں تو پھر اس کو کوئی بھی نہیں روک سکتا۔

مصر عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے یہاں صدر حسنی مبارک 30 سال اقتدار میں رہنے کے بعد رخصت ہوئے، یہاں بھی عوام اپنی حکومت سے سخت ناراض تھے اور عوام ملک میں تبدیلی چاہتے تھے، وہاں عوامی تحریکیں شروع ہوئیں اور آخرکار عوام مصر میں انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے۔ کسی بھی ملک میں جب انقلابی تحریکیں شروع ہوتی ہیں تو اتنی آسانی کے ساتھ کامیاب نہیں ہوتیں ان تحریکوں کو کافی کشت وخون سے گزرنا پڑتا ہے، پھرکہیں جاکر کامیابی کی کرن نظر آتی ہے اور پھر یہی کرن اجالے میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ شام، لیبیا، مصر سب جگہ جہاں جہاں انقلابی تحریکیں شروع ہوئیں وہاں کے لوگوں نے ہر طرح کی قربانیاں پیش کیں۔ کئی انسانی جانیں زندگی کی بازی ہار گئیں تو ان کو جیت نصیب ہوئی۔

ایسے ہی عوامی تحریکیں پاکستان میں بھی وجود میں آگئی ہیں۔ اب لوگ پاکستان میں بھی عرب ممالک کی طرح تبدیلی چاہتے ہیں اور آج کل پاکستان کی سیاست انقلابی تبدیلی کی طرف گامزن ہوتی نظر آرہی ہے یہاں پر بھی عوام تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے ملک میں بھی عوام کی فتح ہوگی؟ اور کیا واقعی پاکستان میں انقلاب آجائے گا؟

اس وقت عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے تھے اور اس مارچ میں سیکڑوں خواتین اور بچے شامل تھے۔ یہ ہمارے ملک کا واحد ایسا مارچ ہے جس میں عورتوں اور بچوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اس مارچ سے پہلے بھی ملک میں مارچ ہوئے اور اختتام کامیابی پر ہی ہوا۔ بے نظیر کا 1993 میں Mini March ہوا، نواز شریف کا 2009 میں مارچ چیف جسٹس صاحب کی بحالی کے لیے ہوا اور سب کے سب کامیاب رہے ہیں۔

پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے چند سیاسی گھرانوں کی میراث رہی ہے۔ ذات پات، برادری، سسٹم، قبائلی نظام اور مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری پاکستان کی سیاست کا محور اور مرکز ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی مقامی سیاست چند خاندانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ آج بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے۔ پرانے عمر رسیدہ سیاستداں جو گزشتہ بیس تیس سال سے ملک کے سیاسی منظرنامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ اب عوام اس چیز سے بھی عاجز آچکے ہیں اب وہ اقتدار پر سیاسی گھرانوں کی میراث سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

سیاسی گھرانوں کی وراثت والی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں عوام کو بہت سارے نہ بھولنے والے تحفے دیے ہیں، پاکستان میں امن و امان کی صورت حال نہایت ابتر رہی جس کے اثرات زندگی کے تمام شعبوں میں محسوس کیے گئے، صوبہ خیبرپختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے بدستور خودکش بم دھماکوں، دہشت گردی، تخریبی کارروائیوں اور ڈرون حملوں کی زد میں رہے، بلوچستان بھی شدید بدامنی کی لپیٹ میں رہا، یہاں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی قتل کی افسوس ناک وارداتوں کا سلسلہ رک نہ سکا بلکہ ان میں مزید اضافہ ہوا، کراچی میں بھی ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

گزشتہ دس ماہ کے دوران کراچی میں اٹھارہ سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں، اس طرح گزشتہ اٹھارہ سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا، مختصراً پاکستان کے عوام کو اب روزانہ ٹارگٹ کلنگ، خودکش حملوں، لوٹ مار، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ، اداروں کی کرپشن، مہنگائی، دہشت گردی، بوری بند لاشیں، بم دھماکے ایسی سنگین صورت حال کا سامنا ہے، اس تمام صورت حال سے عوام عاجز آچکے ہیں۔

عوام ملک میں امن وامان، سکون، خوشحالی، ترقی چاہتے ہیں اسی لیے لوگ اب سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ پاکستان کے عوام اب تیونس، لیبیا، یمن کی طرح تبدیلی چاہتے ہیں۔ بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں سب ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھے رہے سخت سردی کا عالمتھا مگر مارچ کرنے والوں کے حوصلے سرد نہیں ہوئے۔ اس وقت مارچ میں کتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے اس کا صحیح تعین ابھی تک نہیں ہوسکا ہے مگر کافی بڑی تعداد اسلام آباد کی سڑکوں پر کھلے آسمان تلے سخت سردی میں دھرنا دیے رہی۔ یہ عوام اب پاکستان میں تبدیلی چاہتے ہیں اور ایسی تبدیلی جو عوام کے حق میں ہو اور مستقل بنیاد پر ہو۔

تبدیلی اور انقلاب کا نعرہ ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے کئی بار لگایا کسی نے کہا انقلاب سونامی لائے گا، کسی نے کہا انقلاب اب ہمارے ملک کا مقدر ہے، مگر ملک میں انقلاب کا سہرا ایسے شخص کو باندھا جائے گا جس سے بہت ہی کم لوگ واقف تھے مگر وہ ملک میں آئے اور چھا گئے اور اقتدار حکومت کو زلزلے کی طرح جھٹکے دے ڈالے اور سیکڑوں ہزاروں لوگوں کی تعداد کو اپنے ساتھ کرنے میں کامیاب ہوگئے جو لوگ پہلے سے ہی پریشان تھے، غمزدہ تھے ان کو طاہر القادری کی صورت میں روشنی کی کرن محسوس ہورہی ہے، طاہر القادری پاکستان میں آئے اور پاکستان کی سیاسی صورت حال یکسر بدل گئی۔

عوام طاہر القادری کی قیادت میں سڑکوں پر نکل آئے ، یہ لوگ ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں، یہ لوگ جانتے ہیں کہ صدر ستمبر کے مہینے میں اپنی میعاد پوری کریں گے اور نومبر 2013 میں مسلح افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی کمان کا عہد مکمل ہوگا اور پھر دسمبر 2013 میں عدالتی و آئینی تاریخ میں زبردست شہرت یافتہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنی زندگی کی اس بہار کو عبور کرلیں گے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی ہمارے ملک میں بھی عوام کی فتح ہوگی اور کیا واقعی پاکستان میں انقلاب آجائے گا؟ جیسے مصر، تیونس، لیبیا میں آیا۔ جب جب عوام سڑکوں پر آئے ہیں ان کو کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ طاہر القادری کے ساتھ عوام سڑکوں پر رہے، کیا ان کو دوسروں کی طرح کامیابی نصیب ہوگی؟ بہت سارے سوالات ہیں جو خود وقت ہی ان کا جواب دے گا۔ ہم سب انتظار میں ہیں کہ جو بھی ملک میں ہو اچھا ہو، جو بھی تبدیلی رونما ہو وہ عوام اور پاکستان دونوں کے حق میں بہتر ثابت ہو اور مستقل بنیادوں پر ہو، پاکستان جس مشکل دور سے گزر رہا ہے وہ مشکل دور جلد ازجلد ختم ہوجائے اور اچھے دور کا آغاز ہوجائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔