سانحہ کوئٹہ وسوات

ایم جے گوہر  جمعـء 18 جنوری 2013
 mjgoher@yahoo.com

[email protected]

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیزگزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں ہے، خلیل جبران کا قول بار بار یاد آتا ہے اس نے کہیں کہا تھا کہ درندوں نے بہیمت کے تمام گر دراصل ابن آدم ہی سے سیکھے ہیں۔ آج ملک کے طول و ارض میں کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں آگ وخون کا الاؤ روشن نہیں،کراچی تا خیبر خونریز وارداتوں میں قیمتی و بے گناہ انسانی جانوں کا ضیاع معمول بنتا جارہا ہے۔

وحشت، بربریت اور قتل و غارت کا بازار گرم ہے، دہشت گرد عناصر دندناتے پھر رہے ہیں، انھیں اپنے مخصوص اہداف کو ٹارگٹ کرنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی، وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں لہو کی ہولی کھیل کر گزر جاتے ہیں۔ عام آدمی سے لے کر پولیس، ایف سی اہلکار، عسکری جوانوں اور مخصوص مسلک کے لوگوں کو نشانہ بنانا ان کا محبوب مشغلہ بنتا جارہا ہے اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اکابرین طویل عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک کوئی ایسا میکنزم بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے جس کو روبہ عمل لانے سے دہشت گرد عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرکے ان کے نیٹ ورک کو توڑا جاسکے تاکہ وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو پاتے۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی حفاظت کے ذمے دار اداروں کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہوتی جا رہی ہے، لوگوں کے جان و مال کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شدید عدم تحفظ کا شکار اور خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ سانحہ کوئٹہ بھی ہمارے سیکیورٹی اداروں کی نااہلی ہی کا شاخسانہ ہے، جس میں سو سے زائد افراد شہید ہوگئے۔ شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ اور بنوں میں بھی دہشت گردوں نے سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں متعدد لوگ شہید اور زخمی ہوئے۔

کوئٹہ و سوات میں ہزارہ برادری کے لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ اس سے قبل بھی اس برادری کے لوگوں پر حملے ہوتے رہے ہیں، مخصوص طبقے کے افراد کو نشانہ بنانے کا مقصد ملک میں افراتفری، فرقہ واریت، مسلکی تفرقہ پھیلانا اور انارکی پیدا کرنا ہے۔ مذکورہ سانحے میں پولیس اہلکار اور صحافی بھی نشانہ بنے،کوئٹہ اور سوات میں درندگی و بربریت کے خون آشام سانحے پر پورے ملک کی فضا سوگوار اور افسردہ رہی، لیکن جس طرح شہدا کے لواحقین جن میں بچے، خواتین اور بزرگ بھی شامل ہیں اپنے پیاروں کی لاشوں کے تابوت لیے یخ بستہ موسم میں کھلے آسمان تلے سڑک پر دھرنا دیے بیٹھے اور چار دن تک احتجاج کرتے رہے اس نے ملک کے کروڑوں عوام کو مزید رنجیدہ، ملول اور دل گرفتہ کردیا۔

لواحقین کا مطالبہ تھا کہ چونکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت صوبے میں دہشت گردی کی وارداتوں کوکنٹرول کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے لہٰذا اسے برطرف کرکے انتظام فوج کے حوالے کردیا جائے۔ سانحہ کوئٹہ کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے کراچی سمیت پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے دیے گئے، اتوار کو ایم کیو ایم اور پیر کو پاکستان بار کونسل کی اپیل پر ملک بھر میں یوم سوگ منایا گیا۔

سانحہ کوئٹہ کے موقعے پر بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کی عدم موجودگی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ ان کی صوبے میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ کی عدم موجودگی میں گورنر بلوچستان ذوالفقار علی مگسی جائے حادثے پر متاثرین سے اظہار ہمدردی کے لیے پہنچے تو انھوں نے حکومت کی ناکامی کا برملا اعتراف کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ بھی گمشدہ افراد کے کیس میں بلوچستان حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ناکام قرار دے چکی ہے، صوبے میں حکومتی رٹ نظر نہیں آتی۔ یہ صورت حال ارباب اختیار کے لیے یقیناً تشویش اور فکرمندی کا باعث ہے۔

خوش آیند امر یہ ہے کہ سانحہ کوئٹہ پر ملک گیر سطح پر سخت عوامی ردعمل اور حالات کی نزاکت کے پیش نظر وفاقی حکومت نے سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عملی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اول مرحلے میں وفاقی وزیر خورشید شاہ صاحب کو کوئٹہ بھیجا گیا تھا تاکہ وہ شہداء کے لواحقین سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کریں۔اگرچہ شاہ صاحب نے مظاہرین کو ان کے مطالبات تسلیم کرانے کی یقین دہانی کرائی لیکن مظاہرین نے فوری عملی اقدام اٹھائے جانے تک لاشوں کی تدفین اور احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا۔

صورت حال کی سنگینی کے پیش نظر وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے ازخود کوئٹہ جانے کا دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ انھوں نے گورنر بلوچستان، مظاہرین کے نمایندوں اور متعلقہ حکام سے طویل مشاورت کے بعد صدر مملکت کی منظوری سے صوبے میں 60 دن کے لیے گورنر راج نافذ کردیا۔ ذوالفقار مگسی کو بطور چیف ایگزیکٹو فوج سمیت کسی بھی سیکیورٹی ادارے کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا، بلوچستان میں امن کا قیام گورنر صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔

یوں تو پورا ملک ہی شدید بدامنی کی لپیٹ میں اور دہشت گردوں کی سفاکانہ وارداتوں میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی عروج پر ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف اندرون وطن بلکہ بیرون وطن بھی تبصرے اور تجزیے کیے جارہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق بلوچستان میں سرکاری رٹ ایک عرصے سے تقسیم ہوچکی ہے اور صوبے کے بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ وہاں پیشگی اجازت کے بغیر وزیر اعلیٰ بھی نہیں جاسکتے۔

ڈیرہ بگٹی، مکران کا ساحلی علاقہ خضدار اور قلات سمیت وسطی بلوچستان یا تافتان سے ژوب تک کا سرحدی علاقہ ان سب جگہوں پر کوسٹ گارڈز، ایف سی، انٹیلی جنس ایجنسیوں، مسلح قوم پرستوں، اسمگلرز مافیا یا مقامی سرداروں کی رٹ سے سابقہ پڑتا ہے حکومتی رٹ نظر نہیں آتی، اس طرح خیبرپختونخوا میں 9/11 کے بعد حکومتی رٹ پشاور، وسطی اضلاع مردان، چارسدہ، صوابی اور ہزارہ ڈویژن تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ جب کہ تقریباً تمام قبائلی ایجنسیوں بشمول ضلع سوات، بنوں، ٹانک، لکی مروت، ڈی آئی خان، کوہاٹ اور درہ آدم خیل میں حکومتی رٹ کو شدید مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا ہے۔

یہ صورت حال ارباب اقتدار کے لیے یقیناً لمحہ فکریہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے محض دو ماہ بعد نگراں حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا ملک کے طول و ارض میں امن وامان کی صورت حال کا حکومتی دسترس سے نکلنا سخت تشویش کا باعث ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت سانحہ کوئٹہ جیسی کسی خونی واردات سے بچنے کے لیے سنجیدہ کاوش کرے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔