جہاں بچے بوڑھے پیدا ہورہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 19 اپريل 2017

پاکستان بوڑھوں کا دیس بن کر رہ گیا ہے جہاں بچے بوڑھے پیدا ہورہے ہیں، جہاں کوئی نوجوان یا جوان نہیں بلکہ سب کے سب بوڑھے ہیں۔ اداس، فکرمند، لاغر، بیمار بوڑھے جنھیں دیکھ کر وحشت ہونے لگے، جو نہ تو ہنستے ہیں، نہ مسکراتے ہیں، نہ قہقہے لگاتے ہیں، نہ جیتے ہیں، بس سب کے سب کل کی فکر میں مرے جارہے ہیں۔

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

موت آتی ہے پر نہیں آتی

جہاں ایک طرف بوڑھے پیدا ہورہے ہیں تو دوسری طرف دھڑا دھڑ بوڑھے مر رہے ہیں، بے موت مرے جارہے ہیں۔ آئیں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بے موت کیوں مرے جارہے ہیں۔

سائنسدانوں نے صرف جراثیم کو ہی انسانی صحت کا دشن قرار نہیں دیا ہے بلکہ منفی سوچیں اور خودساختہ ذہنی دباؤ مخصوص رویہ اور طرزعمل انسان کے لیے جراثیموں سے خطرناک ہیں۔ تازہ ترین تحقیقات سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ وہ افراد جن میں بیک وقت کئی شخصیتیں پرورش پارہی ہوں، خود اپنی شخصیت کے کسی پہلو یا جذبات کے حملے سے شدید زخمی ہوسکتے ہیں اور وہ شدید زخم جان لیوا بھی ہوسکتے ہیں۔

ان میں ہر وقت ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کی جنگ جاری رہتی ہے۔ یہ کسی بھی حالت میں کیے گئے ایک عمل اور فیصلے سے مطمئن نہیں ہوتے، کیونکہ ان کے اندر مختلف شخصیات ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوتی ہیں، اس لیے وہ ہر وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں۔ سابقہ تحقیق کے مطابق انسان اپنے جسم کی نفسیاتی تشکل، ناقص غذا، طرز زندگی، غیر صحت مند ماحول اور دیگر عوامل کی بنا پر بیمار پڑتے تھے، لیکن جدید ترین سائنسی تحقیق کہتی ہے کہ دنیا بھر موجود پچاس سے ساٹھ فیصد بیماریوں کا تعلق ہیجان یا دباؤ Stress سے ہے اور وہ افراد جو ہیجان یا Stress میں ہوتے ہیں، ان میں کسی بھی بیماری سے متاثر ہونے کی صلاحیت ایک عام نارمل انسان کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہوتی ہے۔

ان میں گلے اور حلق کی بیماریاں، دل کے امراض، مختلف اقسام کے السر، کینسر، بے خوابی، جگر کا بڑھ جانا، وقفے وقفے سے سر کا درد اس کے ہی تحفے ہیں، جو ہماری اکثریت خوشی خوشی زندگی بھر وصول کرتی رہتی ہے اور الزام جراثیموں پر لگاتی پھرتی ہے۔ پاکستانیوں سے زیادہ قابل رحم اور قابل ترس کوئی اور قوم ہوہی نہیں سکتی۔

ایک طرف تو وہ اپنے ہاتھوں مر رہے ہیں، دوسر ی طرف اپنوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں، تیسر ی طرف اپنے کرتا دھرتاؤں کی نیت کے ہاتھوں مررہے ہیں، چوتھی طرف ملاوٹ، غربت، افلاس، بیروزگاری کے ہاتھوں مررہے ہیں، پانچویں طرف مذہب کے نام پر مررہے ہیں اور چھٹی طرف لالچ، کرپشن، لوٹ مار کے ہاتھوں مررہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر کبھی میں پرومیتھیوس کے ان جملوں میں ڈوب جاتا ہوں ’’اذیتیں سالہا سال کی، جن کا شمار کوئی نہیں، قید و بند کی یہ صعوبتیں اور اذیتیں سب دین ہیں اس کی جو دیوتاؤں کا نیا آقا ہے، درد کے یہ نہ ختم ہونے والے سلسلے، یہ ہی انتہائے خیال میرا مداوا ہے، یہ درد کب ٹھہرے گا، ساعت درماں کب آئے گی‘‘۔ اور ساتھ ہی ساتھ عظیم یونانی سوفوکلینر کے لکھے گئے المیہ ڈرامے ’’شاہ اوئی دی پوس‘‘ کا منظر باربار یا د آجاتا ہے۔

’’تھیبیز میں اوئی دی پوس کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گزاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے۔ ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتا ہے۔ اوئی دی پوس: ’کیڈمس کے قدیم ترین گھرانے کے بیٹو! کیا بات ہے، آج تم عرض گزاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے ہوئے کیوں آئے ہو؟ شہر میں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے، اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیں کیوں مانگی جارہی ہیں، میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آکر دیکھوں نہ کہ پیامبر کو بھیجوں، میں اوئی دی پوس جس کو سب جانتے ہیں، تم سب سے عمر رسیدہ ہو، تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ سب کی ترجمانی کرو۔

تم مجھے بتاؤ کہ میری قربان گاہ کے سامنے کیوں جمع ہو۔ کیا تم کسی بات سے خوف زدہ ہو، تم یہاں کیوں آئے ہو ، کیا چاہتے ہو، جس قدر ممکن ہوسکا میں تمہاری مدد کروں گا‘۔ پجاری: ’اے مالک، بادشاہ وقت، ہم سب بزرگ و جواں یہاں جمع ہوئے ہیں، کچھ پجاری ہیں، کچھ تھیبیز کے خوبصورت نوجوان ہیں اور میں زیوس کا پجاری ہوں، ابھی کچھ اور بھی ہیں جو پلاس ایتھنا کی دو متصل قربان گاہوں پر حاضر ہیں، جو اسمینن کے ہاتف کے آتشکدہ کے قریب ہے۔ عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے، موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے۔ چار سو موت پھیلی ہوئی ہے۔ زمین پر، فصلوں میں، چراگاہوں میں جو مویشی گھوم رہے ہیں، موت کی زد میں ہیں۔ ماؤں کے رحم میں وہ بچے جو ابھی پیدا نہیں ہوئے وہ بھی اس کی زد میں ہیں۔ شہر میں طاؤن پھیل رہا ہے اور ہر شے کو گھیرے میں لے رہا ہے۔

کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہورہا ہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ و پکار جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اور میں تمہارے پاس آئے ہیں۔ ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیں یہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کا حل ڈھونڈ سکو، جن سے انسان دوچار ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بھی تھیبیز میں آئے تھے اور ہمیں عذاب سے نجات دلائی تھی۔ جس میں ہم مبتلا تھے۔ تم نے اس کا حل ڈھونڈ لیا تھا۔ اس وقت تم ہم سے زیادہ باعلم نہیں تھے۔ ہم نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی تھی۔ دیوتا تمہاری مدد کو آئے تھے اور تم نے ہمیں دوبارہ معمول کے مطابق زندگی عطا کی تھی۔ اب دوسری بار عظیم اوئی دی پوس ہم تجھ سے مدد مانگنے آئے ہیں۔ ہماری کچھ مدد کرو۔ اپنی مدد کے لیے خواہ کسی دیوتا انسان کو ہی کیوں نہ بلاؤ، میں یقین ہے کہ اب بھی ہماری مدد کروگے۔

اے آقا! ہمارے شہر کی رونقیں بحال کردے۔ اپنی شہرت کا پاس کرو، لوگ جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی تم نے انھیں ان مایوسیوں سے نکالاتھا۔ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دو کہ تم نے ہمیں عروج دیا اس زوال کے لیے۔ ہمارا تحفظ کرو تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں۔ ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈو، اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو۔ اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیرے ہوتی ہے۔ انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں‘۔‘‘

ہم کریں تو کریں کیا، ہم سب بوڑھے اتنے بدنصیب واقع ہوئے ہیں کہ ہم کسی اوئی دی پوس کے پاس جاکر فریاد بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے پاس کوئی اوئی دی پوس ہے ہی نہیں، اس لیے کہ ہم سب لاوارث ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔