- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
کاربن ڈائی آکسائیڈ میں اضافہ، امیر اور غریب میں فرق کی علامت
میساچیوسٹس: ماحولیاتی معاشیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جن امریکی ریاستوں میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق جتنا زیادہ ہے وہ ریاستیں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کے معاملے میں بھی اتنی ہی آگے ہیں۔
اگرچہ یہ تحقیق امریکا کے بوسٹن کالج میں کی گئی ہے لیکن اس کا اطلاق دنیا کے کسی بھی ملک، معیشت اور معاشرے پر کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں عمومی طور پر وہ علامات بیان کی گئی ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور معاشی ناانصافی میں باہمی تعلق کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
ریسرچ جرنل ’’ایکولوجیکل اکنامکس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں امریکا کی 10 امیر ترین ریاستوں کے 1997 سے 2012 تک 15 سالہ معاشی اعداد و شمار اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج سے متعلق ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ان امریکی ریاستوں میں ٹیکساس، کیلیفورنیا، پنسلوینیا، فلوریڈا، الینوئے، اوہایو، لیوسیانا، انڈیانا، نیویارک اور مشی گن شامل ہیں۔
اس تجزیئے کی روشنی میں رپورٹ کے مرکزی مصنف کا کہنا ہے کہ جن مالدار امریکی ریاستوں میں چند مخصوص افراد بہت زیادہ دولت مند جب کہ ان کے مقابلے میں عام لوگ بہت زیادہ غریب ہیں، ان ریاستوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں طور پر زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ البتہ وہ ریاستیں جو اجتماعی طور پر امیر ضرور ہیں لیکن جہاں انفرادی طور پر امیروں اور غریبوں میں دولت کا فرق نسبتاً کم ہے، وہاں اس 15 سالہ عرصے کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بھی بڑی حد تک کنٹرول میں رہا ہے۔
رپورٹ کے مصنف کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں فرق ظاہر کرتا ہے کہ جس معاشرے میں دولت مند اور با اثر افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے وہ اپنے مفادات کی خاطر عوامی بہبود اور ماحول سے متعلق منصفانہ قانون سازی کے راستے میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں تاکہ ان کی اپنی صنعت پھلتی پھولتی رہے اور وہ زیادہ سے زیادہ منافع کما سکیں۔
چونکہ انہیں ہر صورت میں صرف اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے اور عام لوگوں یا ماحول کی کوئی پروا نہیں ہوتی اس لیے وہ ایک طرف معاشی ناانصافی کے ذریعے عام لوگوں کو غریب رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری جانب یہی سرمایہ دار طبقہ اپنی روز افزوں صنعتی ترقی کے باعث ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافے کی رفتار بڑھاتا ہے۔ یہ مقاصد حاصل کرنے کےلیے وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے ایسا کوئی قانون بننے کے راستے میں شدید رکاوٹیں ڈالتے ہیں جو ماحول دوستی یا سماجی انصاف کا ضامن ہو۔
اگرچہ اس کے نتیجے میں ریاست کی مجموعی دولت میں ضرور اضافہ ہوتا ہے لیکن امیر کی دولت کے ساتھ غریب کی غربت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس مطالعے نے امریکا کی حد تک تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافے اور معاشی ناانصافی میں تعلق واضح کردیا ہے لیکن یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ آیا اس سے دوسرے ممالک میں بھی اسی نوعیت کے نتائج حاصل ہوتے ہیں یا نہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔