کسی ایدھی کی تلاش میں

عبدالقادر حسن  جمعرات 20 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اُونچے پہاڑوں میں گھرے سرسبز گاؤں سے گرم اور خشک لاہور پہنچنے کے بعد شکوہ کر رہا ہوں ان حالات کا جن کی وجہ سے مجھے گاؤں چھوڑ کر لاہور پناہ لینی پڑی یا یوں کہیں کہ روزی اور روزگار کی ضرورتوں نے مجھے لاہور میں بھیج دیا میں نے گاؤں چھوڑ دیا جہاں روزی روزگار تو موجود تھا مگر قدرت اور حالات نے میری روزی جن پابندیوں اور ضرورتوں میںجکڑ دی ہے وہ بڑی لاپرواہ ہیں اور انھیں میری پسند ناپسند کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔

انھیں ہر روز صاف ستھرے لکھے ہوئے وہ الفاظ چاہئیں جنھیں وہ آگے قارئین تک پہنچا دیں اور لکھنے والے کی محنت و جانفشانی کو بازار میں پھینک دیں جہاں جو قیمت بھی لگے وہی قبول ہے ۔ وہ زمانے اب صرف یادیں بن کر رہ جاتے ہیں جب یہ الفاظ بازار میں نہیں کسی کتاب کے صفحوں میں بند کر دیے جاتے تھے اور قارئین کو اگر پسند ہوتے تو وہ انھیں سنبھال کر رکھ لیتے کسی اچھی قیمت کے لیے یا کسی پرُلطف وقت کے لیے جب ان کے حالات کی تلخی ان الفاظ کی مٹھاس سے کچھ ماند پڑ جاتی اور قاری کو سکون مل جاتا۔بہرکیف تحریر اور اس کے قاری کی یہ کشمکش جاری رہتی ہے اور اسے کسی حال میں بھی ختم نہیں کیا جاسکتا اور ختم ہونا بھی نہیں چاہیے کہ لکھنے والا ذہن کی بتی جلا کر چند الفاظ لکھ پاتا ہے۔

اس امید کے ساتھ کہ وہ انسانی سوچ پر اثر انداز ہوں گے اور شاید کوئی سوچ بدل بھی جائے اور لکھنے والے کی پسند بن جائے ۔ میں نے اس امید پر اب تک لاکھوں کروڑوں الفاظ لکھے ہیں کہ ان کی مدد سے اور ان کے اثرات سے انسانی ذہن میں کوئی تبدیلی ممکن ہو گی اور یہی وہ تبدیلی ہے جس کی تلاش میں نہ جانے کتنے لکھنے والوں نے اپنے دن رات لگا دیے، ان میں سے شاید کچھ خوش قسمت کامیاب بھی ہوئے ہوں گے۔

آج کا زمانہ تحریر کا زمانہ بھی ہے اور کاغذ کے لاکھوںکروڑوں صفحات ہر روز سیاہ کیے جا رہے ہیں ۔ہر روز اخبارات ایک طوفان برپا کر دیتے ہیں ان کی خبریں تبصرے اور قیاس آرائیاں انسانی ذہنوں کو مصروف رکھتی ہیں بلکہ اضطراب سے بے چین بھی کر دیتی ہیں لیکن انسانی ذہن خاموش نہیں رہ سکتا اور اسی طرح انسانی قلم بھی انسان کے جذبات اور انسانی ذہن کے طلسمات کو کروڑوں انسانوں کی خدمت میں پیش کر دیتا ہے جو یقینا رائیگاں نہیں جاتے اور انسانی ذہنوں میں بعض اوقات ہلچل بھی مچا دیتے ہیں۔ الفاظ کی یہی ہلچل نہ جانے کتنے دلوں اور ذہنوں میں تبدیلی کا آغاز بن جاتی ہے ۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان الفاظ نے انسانی زندگیاں بدل دی ہیں بلکہ کئی انقلابات نے ان الفاظ سے جنم لیا ہے ۔ یہ وہی انقلاب ہیں جن کی وجہ سے ہمارے انسانی ذہن میں اس قدر تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ ان سے تصورات کی نئی دُنیائیں آباد ہوئی ہیں اور کئی نئے ذہنوں نے ،نئے خیالات نے جنم لیا جو بعد میں کسی انقلاب کا بنیادی سبب بن گئے۔

لاہور کی شدید گرمی میں جب ایک محاورے کے مطابق چیل انڈہ بھی چھوڑ دیتی ہے اس وقت میں چار و ناچار بیٹھا ہوں کہ زندگی موسموں کی نہیں ضرورتوں کی محتاج ہوتی ہے اور ضرورتیں موسموں سے نہیں حالات سے جنم لیتی ہیں اور ہم انسان یا یوں کہیں کہ ہم مزدور لوگ حالات کے غلام ہیں ، یہی حالات ہیں جو ہمیں ہر گرم اور بے زار کن ماحول میں زندہ رہنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ انسان ایک بے بس مخلوق ہے اور اسے چار و ناچار ہر حال میں زندگی بسر کرنی ہے ۔ زندگی اس کے اختیار سے باہر ہے اور قدرت نے جب تک مقرر کر رکھی ہے اسے ہر حال میں گزارنا ہے کیونکہ ہم مجبور ہیں سوائے اس کے قدرت سے پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں معاف کر دے اور ہمارے لیے ممکن حد تک آسودگیاں پیدا کردے لیکن زندگی آسودہ  ہو یا بے چین وہ تو ہمیں بسر کرنی ہی ہے بس ہمارے اختیار میں صرف یہ ہے کہ اسے جوں توں کر کے بسر کرتے رہیں ۔

انھیں مشکل حالات میں میں نے کئی انسانوں کو اس زندگی سے نجات کی دُعائیں مانگتے دیکھا اور سنا ہے لیکن اس زندگی سے نہیں بلکہ اس زندگی کے دکھوں سے جو بے شمار تھے ۔اب تو کوئی دن نہیں جاتا کہ اخبار میں کسی انسان کی خود کشی کی خبر نہ چھپتی ہو بلکہ بعض اوقات تو ماں یا باپ اپنی اولاد کو تکلیف کی حالت میں نہیں دیکھ سکتے اور وہ جو کر گزرتے ہیں کسی انسان کے لیے اس کا تصور بھی آسان نہیں لیکن یہ سب ہو رہا ہے اور میں تو کسی ایسی خبر کا حوالہ بھی نہیں دے سکتا جو کسی باپ یا ماں کا حال ِ دل بیان کرتی ہے ۔

آج کا اخبار ہی دیکھ لیں آپ کی تسلی ہو جائے گی ، ایک زمانہ گزرا کہ مجھے ایک خبر ملی کہ کسی نے ماں کو قتل کر دیا ہے پہلے تو میں کانپتے ہاتھوں میں قلم دبا کر بیٹھا رہا اور سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں ۔ یہ اچھے زمانوں کی بات ہے ۔ میں اسی گھبراہٹ کے عالم میں ایڈیٹر کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کی مدد چاہی کہ اس خبر کا کیا کروں ، ایڈیٹر نے انتہائی بے چین ہو کر یہ خبر سنی اور کہا کہ جو مرضی ہو کریں بعد میں بُلا کر کہا کہ عبرت کے لیے خبر چھاپ ہی دیں شاید اس کا اثر قابل برداشت ہو چنانچہ اپنے آپ سے ڈرتے ڈرتے یہ خبر چھاپ دی ۔جیسا کہ عرض کیا ہے یہ اچھے وقت تھے لوگوں نے اس خبر کو عبرت سمجھ کر پڑھ لیا اور اپنے خطوط میں اس کا ذکر بھی کیا لیکن آج تو حالات اس قدر سنگین ہو گئے ہیں کہ ایسی خبریں معمول بن گئی ہیں بلکہ بعض اوقات رپورٹر نمک مرچ لگا کر یہ خبر تیار کرتے ہیں اور چھاپنے والے بھی اسے نمایاں کر کے چھاپ دیتے ہیں ۔

اخباروں نے ممکن حد تک اب معاشرتی اصلاح کا کردار بھی ادا کرنا شروع کر دیا ہے جو ایک اچھی بات ہے کہ خبر خواہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو اسے قارئین تک پہنچانا اخبارات کا فرض ہے ۔ وقت بہت بدل چکا ہے اور اس وقت کے ساتھ قارئین کو بھی ساتھ چلانا پڑتا ہے ۔ اگر خرابی کا ذکر نہیں ہوگا تو وہ دور کیسے ہو گی ۔ بہرکیف وقت کے ساتھ ساتھ اخبار اور خبریں بھی بدل رہی ہیں اور بعض اوقات اس کا ردعمل مثبت بھی ہوتا ہے ۔کئی بار قارئین نے کوئی دلدوز خبر پڑھ کر پوچھا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے اور اس پر بات کرنی مناسب ہو گی ۔گناہ کا ذکر ہوگا تو گناہ کا ازالہ بھی کیا جا سکے گا ورنہ کچھ بھی نہیں ہو گا۔

کبھی جی چاہتا ہے کہ اخبار میں ایسی خبریں چھاپی جائیں اور ان پر ردعمل کو بیان کیا جائے تاکہ مرض کا علاج کیا جا سکے ۔ یہ ایدھی مرحوم جیسے لوگوں کا کام ہے جو اخبارات ذریعہ خدمت کرنے کا عزم کرلیں اور اسے قائم بھی رکھیں ۔ بہرکیف کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہو گا اور کوئی ایدھی ضرور پیدا ہو گا اور ہوتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔