آج 2PM !

ایاز خان  جمعرات 20 اپريل 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

’’قائد تیرا ایک اشارہ… حاضر حاضر لہو ہمارا‘‘ ۔ یہ اچانک کیا ہو گیا ہے کہ شہر لاہور کی بیشتر شاہراہوں پر ایک گھنٹے کے اندر اتنے پینا فلیکس لگا دیے گئے ہیں۔ جمہوریت کی قبر کھودنے کی سازش کی باتیں بھی پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔ پرسوں شام پوسٹر دیکھے تو 1999ء یاد آگیا۔ میاں صاحب کے لیے تب کچھ اس قسم کے نعرے لگتے اور پوسٹروں اور بینروں پر درج ہوتے تھے۔’’قدم بڑھاؤ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘۔ ’’نواز شریف آپ ہمیں پیچھے نہیں پائیں گے‘‘۔ اور پھر یوں ہوا کہ پرویز مشرف نے جب اقتدار پر قبضہ کیا اور میاں صاحب نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حسب ’’وعدہ‘‘ وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ چوری کھانے والے سارے مجنوں غائب تھے۔ اب پھر وہی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

18سال پہلے وزیر اعظم اور آرمی چیف میں شدید اختلافات جنم لے چکے تھے۔ کارگل کے ایشو پر بات بہت آگے بڑھ چکی تھی۔ آج تو وہ حالات نہیں ہیں۔ آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کا کوئی اختلاف نہیں۔ حکومت ریکارڈ ترقی کے دعوے کر رہی ہے۔ ایک کے بعد ایک منصوبے کا افتتاح ہو رہا ہے‘ پانامہ فیصلے سے پہلے وزیر اعظم نے فی الوقت اپنے آخری منصوبے بھکی پاور پلانٹ کا افتتاح کر دیا ہے۔ ایسے میں اچانک اس طرح کے پوسٹر لگانے کی بظاہرتو کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن کیاکریں پانامہ کیس کے محفوظ فیصلے کے اعلان کا وقت آ گیا ہے۔

منگل کی شام جیسے ہی پانامہ کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں شامل ہوا ٹھہرے پانیوں میں ارتعاش پیدا ہو گیا۔ ٹویٹس‘ بیانات داغنے اور پوسٹرز لگنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور کچھ پریشان دکھائی دینے لگے۔ ایک جرنلسٹ دوست سے پوچھا گیا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ اس نے جواب دیا ’’مجھے کیا پتہ‘‘۔ ساتھ ہی بولا یہ شاید ملکی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ میاں نواز شریف بھی لا علم ہیں کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ شاید اسی وجہ سے پوسٹر لگانے اور دھمکی آمیز بیانات دینے کی نوبت بھی آئی۔

آج 2PM کیا فیصلہ آئے گا یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5جسٹس صاحبان کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ کہتے ہیں تمام ججوں نے اپنا فیصلہ خود ٹائپ کیا ہے۔ کسی ایک نے بھی سٹینو کی خدمات نہیں لیں۔ سارے مخبر مارے مارے پھرتے رہے لیکن ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ فریقین نے آنے والے فیصلے کے حوالے سے اپنی اپنی حکمت عملی طے کر لی ہے۔ اعلیٰ سطح کے اجلاس ہو چکے ہیں۔ ایک فریق کہتا ہے فیصلے سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی جب کہ دوسرے کو جمہوریت کے خلاف سازش کی بو آ رہی ہے۔ ہماری جمہوریت نہ ہوئی کانچ کی گڑیا ہو گئی جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے خطرے میں پڑجاتی ہے۔ کیا جمہوریت اتنی ہی کمزور ہے کہ ذرا سی ٹھیس لگے گی اور ٹوٹ کر بکھر جائے گی۔

برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کا جد امجد ہے۔ وہاں عجیب صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ ان کی وزیر اعظم تھریسا مے نے جن کی مدت اقتدار 2020ء میں ختم ہو رہی ہے اچانک اعلان کیا ہے کہ وہ 8جون کو قبل از وقت الیکشن چاہتی ہیں۔ پتہ نہیں گوروں کی مت ماری جاتی ہے یا ان میں اپنی قوم کی ’’خدمت‘‘ کا جذبہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں تھریسا مے کے پیشرو وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے بریگزٹ کے فیصلے پر استعفیٰ دیا اور گھر چلے گئے۔ اس سے پہلے پانامہ میں والد کا نام آنے پر اسی کیمرون نے اپنے سارے کھاتے پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دیے تھے۔ اب موجودہ وزیر اعظم کو خیال آیا ہے کہ انتخابات ملکی مفاد میں ہیں کیونکہ بریگزٹ کے بعد کی صورتحال کے لیے برطانیہ کو ایک مضبوط لیڈر چاہیے۔

آفرین ہے ہمارے وزیر اعظم پر کہ ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف پانامہ کا کیس 126روز تک سپریم کورٹ میں چلتا رہا اور 57دن تک اس کا فیصلہ محفوظ رہا مگر قوم کی ’’خدمت‘‘ کا جذبہ اس قدر ہے کہ انھوں نے نہ صرف اپنا کام جاری رکھا بلکہ منصوبوں کا افتتاح اور جلسے بھی کرتے رہے۔ ان کا عزم تو 126 دن کے دھرنے سے بھی متزلزل نہیں ہوا تھا۔ تھریسا مے اور ان کی کنزرویٹو پارٹی الیکشن ہار بھی سکتی ہے مگر ان کا خیال ہے کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد انتخابات ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے ملک میں استحکام آسکتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو الیکشن کو ملکی استحکام کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہاں کوئی وزیر اعظم کے خلاف بات بھی کرے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

گوروں کو یہاں آ کر جمہوریت سیکھنی چاہیے۔ ہمیں مضبوط سسٹم کی نہیں مضبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یاد کریں پرویز مشرف کی صدارت چھوڑنے سے پہلے آخری گفتگو جس میں موصوف نے کہا تھا کہ اب اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ انھیں یہ غلط فہمی تھی کہ جب وہ نہیں رہیں گے تو یہ ملک بھی شاید نہیں چل سکے گا۔ قائد کے ایک اشارے کی بات کرنے والے بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ ہمیں بتانا چاہتے ہیں کہ اگر ان کے قائد کے خلاف کوئی فیصلہ آیا تو پھر اس ملک میں جمہوریت نہیں رہے گی۔ گویا ان کا قائد ہی وہ واحد شخص ہے جو ڈکٹیٹر شپ کا راستہ روکے کھڑا ہے۔ حیرت ہے جب فوج جمہوریت کے پیچھے کھڑی ہے تب ہمیں ڈرایا جا رہا ہے ۔ شیخ رشید نے بے شک آئین کے آرٹیکل 62‘ 63 کے تحت نواز شریف کی نااہلی کی استدعا کر رکھی ہے لیکن فیصلہ کیا آتا ہے یہ کس کو معلوم ہے۔

کوئی اگر یہ دعویٰ کرے کہ ملک سے دولت لوٹ کر باہر نہیں لے جائی گئی تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ن لیگ والے پیپلزپارٹی والوں پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہیں اور پیپلز پارٹی، ن لیگ کو کرپٹ قرار دیتی ہے۔ یا تو دونوں سچ بول رہے ہیں یا دونوں ہی جھوٹے ہیں۔ ملک میں کرپشن بھی  ہوئی ہے لیکن بوجوہ یہ ثابت نہیں ہو سکی۔ ن لیگ والے ایک طرف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے قائد کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا اور نواز شریف کا نام پانامہ لیکس میں نہیں ہے اور ساتھ ہی متوقع فیصلے سے خوفزدہ بھی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ان کی یہ کیفیت کیوں ہے۔

حکومتی صفوں میں پریشانی کا تاثر وزیر اعظم کے قریبی لوگ ہی دے رہے ہیں۔ نجم سیٹھی نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اسٹاف کو 4ماہ کی ایڈوانس تنخواہ دے دی ہے۔ بعض وزیر اور مشیر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ عوام نواز شریف کے خلاف فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔ میاں صاحب عدالتی فیصلوں کے حوالے سے اب تک خوش قسمت رہے ہیں۔ وہ تو زائد المیعاد مقدمات میں بھی سرخرو ٹھہرے۔ آصف زرداری کو اسی لیے یقین ہے کہ نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ آ ہی نہیں سکتا۔

آپ کو بھی انتظار ہے کہ فیصلہ کیا آتا ہے۔ کیا قائد کو اپنے کارکنوں کو پکارنے کی ضرورت پڑے گی یا وہ ایک بار پھر لکی رہیں گے…2PMتک انتظار!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔