بدلو بیانیہ ، آج اور ابھی

جاوید قاضی  جمعرات 20 اپريل 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

نورین خیر سے گھر کو لوٹ آئی اور مشال، مشعل بن کر آگہی دیتا ہے، وہ جل تو گیا مگر بجھا نہیں ہے۔ وہ سب لوٹ آئے ہیں میری دہلیز پر کھڑے ہیں۔کہتے ہیں ’’تم صحیح تھے۔‘‘

اور میں غم سے چْور عضو عضو نڈھال اپنے رنجور کوزوں کی طرف دیکھتا ہوں۔میرے رنجور کْوزے، میری بے نْور شمعیں۔میں اپنی کھوئی ہوئی آنکھیں،خاک میں ڈھونڈتا ہوں۔ میں غم سے چور مشال کی آنکھوں میں تابناکی دیکھتا ہوں۔ وہ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتا ہے کہتا ہے’’دیا جلائے رکھنا‘‘

وہ مشال ہی تو تھا جو ابھی آیا بھی نہیں تھا اورچھا گیا۔آنیوالے دنوں کا سفیر،ایک ایسے پاکستان کا امین جہاں بھٹکی ہوئی نورین گھر کو لوٹ آئی ہے اور زمزمہ کے چوراہے پر ایسٹر کی وہ شام بم کے دھماکے سے بچ جاتی ہے۔ کئی مائیں، کئی بچے گھر کو لوٹ آتے ہیں، صلیب کے سامنے کھڑے ہونے کے بعد ،گِرجا گھر کا گھنٹہ بجنے کے بعد۔

دردکی ایک نہیا ہے، ناؤکے اْس پار سے بہتی ہے،آبشاروں، برف کے پگھلنے، بارش کے قطروں سے بنتی ہے۔ دریا ہے کہ سمندر کی طرف دوڑتا ہے، موجوں کا سفینہ ہے، وشال، وسعتوں سے مالا مال وشال ہے یا مشال ہے، وہ نہیں ہے ناؤ میں بہہ گیا ہے اور رہ گیا ہے اس کا ہر اک ساماں اس کے اشعار، اس کے درجنوں کپ وٹرافیاں جو اس نے امتحانوں کھیلوں کے میدانوں میں، تقریری مقابلوں میں جیتے تھے۔ میں اپنے عہدکا مسافر، اپنے عہد کے سِوا کچھ بھی نہیں۔ اپنے حالات و ستم کا عکس ہوں۔ کتنا تاریک ہے یہ سب مگر پھر بھی جرأت ہے کہ ٹہرتی نہیں، میں مقتل کی طرف دوڑتا جاتا ہوں۔ لال چولی پہن کر قلندر کے لہو میں لت آنگن میں، رقص صرف اْس بھرم کی خاطر اور اِس قسم کی خاطر جو بھٹائی نے مْجھ سے لی تھی۔

وہ مشال نہیں تھا، وہ میں تھا وہ تم تھے، وہ سب ہی تھے، وہ سب جو شعورکے سوداگر ہیں اور آگہی کے انگارے ہیں اور دھمال پر نقارے ہیں۔ چیخیں ہیں، آہ وپکار، فْغاں ہے مگر دل ہے کہ ہر دھڑکن پر کہتا ہے کہ بدلو یہ پاکستان۔ بدلو یہ بیانیہ آج اور ابھی ورنہ تاریخ کے اوراق میں خود کو پاؤ گے۔ اس خواب کو اقبال نے دیکھا، اْس حقیقت کو جس کی تعبیر جناح نے کی تھی۔

میں نہ کہتا تھا ’’بیانیہ بدلو‘‘ یہیں پڑی ہیں میری سب تحریریں۔ میرے سب حْروف، سیاہی اور خون میں تر۔ وہ بولتے ہیں۔ اْن میں زباں ہے۔ سانسیں ہیں آوازیں ہیں۔ وہی ہے جس سے مشال آخری بار چلا کر کہتا رہا ’’نہیں نہیں میں کافر نہیں ہوں، میں نے کوئی گستاخی نہیں کی، اس لیے کہ اْن کو بیانیہ ڈس گیا تھا، نورین کو بھی تو وہی لے گیا تھا اور نہ جانے کتنے بچے، خود کش جیکٹ پہن کر، حوروں کو پانے کی ہوس میں پھٹ گئے، ریزہ ریزہ ہوئے، گھر اْجڑ گئے، بیواؤں اور یتیموں کے بازار لگ گئے، یہ سب کیا تھا، بیانیہ ہی تو تھا، حْوروں کو پانے کی ہوس، بس اِک کافر مار دو اور راستے سب کْھل جائیں گے تمھارے۔ دودھ وشہد کی ندیاں ہونگی تمھارے لیے اور ایسے بھی تھے جِن کو ڈالر چاہیے تھے۔ اْن کی بازار میں جنگوں کا، منشیات کا نیلام ہوتا تھا ۔ بیانیہ بگڑتا گیا، یہ کافر، وہ کافر، سچے جھوٹے سب اِک صف میں۔ اِ ن دعویداروں کے بازار لگ گئے، یہ کافر وہ کافر، عدالتیں کفر، پولیو کے ڈراپس کْفر، سیکیولر تعلیم نہ سہی اْسے دنیاوی تعلیم کہیں وہ کفر، سوچنا کفر، منطق کا طالب ہونا کفر۔

بس دماغوں کو طوق ڈالو، سوچو مت، سمجھو مت، نفرتوں سے محبت کرو، بارود خریدو، بمبار بن جاؤ، دشمنوں کو نہیں اپنوں کو مارو تا کہ اپنی صفیںصحیح ہوںاور ایک بھی کافر نہ رہے۔ صْوفیوں کو مارو، نیست و نابود کرو، دھمال کْفر، غنایت کْفر۔

اور بگڑتا گیا بیانیہ، اور سے اور نکھرتا گیا، زہر جذب ہوتا گیا۔ ہمیں اپنے وجود میںدیمک کی طرح چاٹتا گیا۔ پھر یہ بیانیہ نہ رہا، یہ میرا لا شعور بن گیا اتنا گہرا اتنا شدید ہوتا گیا کہ صْوفیوں کی دھرتی کی نورین لغاری کی دہلیز پر بھی دستک دے گیا۔

اور وہ سائیکلوں سے پراڈو پر آگئے۔ جو جی میں آ جائے تشریح کر دیں۔ان کے تشریح حرفِ آخر ٹہری۔ یہاں تک کہ اینکروں نے مقبولیت کے اپنے زینے پارکر لیے۔ تہمت لگا دی، وہ تہمت نہ ٹھہری فتویٰ بن گیا اور یہ لوگ بغیر کسی شہادت کے عدالت بن کر خوداْس کا کام تمام کردیتے۔ جس طرح مشال کا کیا۔ منصور حلاج و سرمد کو پھر بھی عدالت ملی تھی، مشال کو تو وہ بھی نہ مِل سکی۔

’’مہہ کی جگہ خونِ دل پینا

کب تک آخر کب تک‘‘

ان کو نفرتوں کے بازار نظر نہ آئے، قتل و غارت کے لشکر نظر نہیں آئے۔ ایک مزدور کے ہاتھوں میں پڑی آدھی کچی آدھی پکی شراب نظر آئی۔ انھیں ذرا گْماں بھی نہ ہوا کہ معاملہ آدھی کچی آدھی پکی شراب کا نہیں۔

معاملہ اْس تقویت کا ہے جس سے نفرتوں کے بازار گرم کرنے والے اور سینہ تان کے نفروںکو بیچتے ہیں، تہمتوں کے نام پر، بندشوں کے نام پر،اخلاقیات کے نام پر وغیرہ وغیرہ ان سب کو سستی شہرت چاہیے تھی۔

سستی شہرت کے خاطر، خوف کا اندھیرا پھیلانے کی خاطر یہ سب کرتے ہیں، خود ہی فتویٰ صادر کرتے ہیں، خود ہی عمل کرواتے ہیں۔ خود ہی جج خود ہی جلاد، اور بیانیہ پر بیانیہ بنتا گیا۔ہم اتنی دور آگئے ہیںکہ بیانیہ بدلنے کے لیے ہم سب ایک Pageپر ہیں۔ اب بیانیہ بدلے تو کیسے بدلے۔

وہ سب سیوھن میں سب کچھ کر کے جب لوٹ رہے تھے تو، اچھے پڑھے لکھوں نے کہا، میں نے اپنے کانوں سے سْنا:

’’جب ناچ گانا ہوگا تو خود کْش حملہ تو ہو گا‘‘

ہم اپنے لاشعور میں شکست کھا چکے ہیں، مشال جبھی تو کہتا تھا کہ ’’علم کا ہونا خود زمہ دار ہونا ہے ضمیر پرست ہونا ہے‘‘

مشال اپنی یونیورسٹی میں انتظامیہ سے ٹکرا گیا۔ مشال کی بہن کہتی ہے کہ وہ پڑھنے کا سبق دیتا تھا کہ ’’پڑھ‘‘۔ کْل مِلا کر تین حْروف سے بنتا ہے’’پڑھ‘‘ عربی میں اِسے ’’اقراء‘‘کہتے ہیں۔ پڑھ سے جْڑتا ہے علم۔ یہ دو لفظ آپس میں جْڑے ہوئے ہیں چولی اور دامن کی طرح۔

حواسوں سے، حوصلے سے، تگ ودو سے جڑتا ہے پھر فرد۔ وہی تو تھا مشال، مشعل کی روشنی، بازو سے اوپر ہاتھ کی جْنبش سے جلتی ہوئی روشنی۔ مشعل ہو یا یا مشال ہو اک لَو ہے، اک اْمنگ ہے اور پھر’’ڈر‘‘ہے کہ بے چارہ سہم کر گِر جاتا ہے۔ وہ بے چارہ ہی تو ہے ۔بے چارہ!۔

کہ ہر بار اْسے ہی شکست ہوتی ہے اور مشال سر خْرو ہوتا ہے۔اس لیے کہ پروانے بہت ہوتے ہیں مست والست،حق موجود، سدا موجود مشعلیں اور مشال، روشن و جمال کی طرح آکاش کے افقوں پر راج کرتا ہے۔ لیکن اْس کی بد نصیبی تھی، میری آنکھ سے نہیں، بموں کی بازار کے سوداگروں کی آنکھ، کہ وہ سوچتا کیوں ہے پڑھتا کیوں ہے، سچ بولتا کیوں ہے۔ انتظامیہ کے خلاف لب کشائی کیوں کرتا ہے ۔

ہمارے گاؤں میں جب کوئی ذہین لڑکی پیدا ہوتی ہے، وہ بہادر ہوتی ہے اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے۔ اْس پر ’’کالی‘‘ کی تہمت لگا دی جاتی ہے۔

’’کالی کاروبار بھی ہے، پولیس، سردار، کمدار سب کھاتے ہیں اِس سے۔نہ جانے کتنی ذہین لڑکیاںمیرے سندھ کی ’’کالی‘‘ کی بھینٹ چڑھ گئیں۔

کئی سال سے لکھ رہا ہوں، میرے حْروف، میرے الفاظ بیانیہ کی بنیادوں پر، بیانیہ کو رَد کرتے رقم ہوتے گئے۔ مجھے ایک سْورمی کی تلاش تھی سبین کے رْوپ میں میرے حْروف کو ’’ہیرو‘‘ کی تلاش تھی مشال کے رْوپ میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔