پیٹرول کے بجائے لوہے سے گاڑیاں چلیں گی

عبدالریحان  جمعرات 20 اپريل 2017
دھاتی ایندھن پر کینیڈا کے سائنس دانوں کی تحقیق جاری ہے۔ فوٹو : فائل

دھاتی ایندھن پر کینیڈا کے سائنس دانوں کی تحقیق جاری ہے۔ فوٹو : فائل

روایتی ایندھن (پیٹرول، ڈیزل، گیس) کو رکازی ایندھن یا فوسل فیول بھی کہا جاتا ہے جبکہ گاڑیوں کو رکازی ایندھن کی یہی تینوں اشکال رواں رکھتی ہیں۔ 

دنیا میں جاری صنعتی سرگرمیاں فوسل فیول ہی کی رہین منت ہیں۔ چند برسوں سے بجلی سے چلنے والی کاریں بھی استعمال کی جارہی ہیں مگر ان کی تعداد محدود ہے۔ فوسل فیول کے متبادل کے طور پر شمسی توانائی ( دھوپ) کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں اب سولر پینلز کی مدد سے بجلی حاصل کی جانے لگی ہے۔ کچھ سال پہلے تک بایوفیول کا چرچا تھا، اور اسے پیٹرول و ڈیزل کا بہترین متبادل قرار دیا جانے لگا تھا، مگر پھر پتا چلا کہ اس کا حصول کچھ زیادہ مفید نہیں۔

عالمی اداروں کی رپورٹیں کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں رکازی ایندھن کے ذخائر بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے ختم ہوتے جارہے ہیں۔ فوسل فیول کے علاوہ زمین کے سینے میں مختلف دھاتوں کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ اگر یہ دھاتیں فوسل فیول کا متبادل بن جائیں تو اس ایندھن کے ذخائر پر دبائو میں کمی آ جائے گی۔ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے موٹرسائیکل کو پیٹرول کے بجائے لوہے یا کسی اور دھات سے چلایا جائے۔ کینیڈا کے کچھ سرپھرے سائنس داں اسی تصور پر کام کررہے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ایک روز وہ دھاتوں کو ماحول دوست ایندھن میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔

کینیڈا کی میک گل یونی ورسٹی سے وابستہ ماہرین دس برسوں سے دھات بالخصوص لوہے کی احتراق پذیری کا مطالعہ کررہے ہیں۔ پچھلے ہفتے انھوں نے لوہے کی اس خاصیت کے بارے میں مزید جاننے کی غرض سے خلا میں تجرباتی آلات روانہ کیے۔ اس تجربے سے سائنس دانوں کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ بے وزنی کی حالت میں آہنی ذرات کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

دھات کو بہ طور ایندھن استعمال کرنے کا تصور انوکھا ضرور ہے مگر نیا نہیں۔ البتہ اس کا بہ طور ماحول دوست ایندھن استعمال نیا پہلو ضرور ہے۔ مک گل یونی ورسٹی سے منسلک اینڈریو ہگنز کے مطابق وہ بیس سال سے اس تصور کا مطالعہ کررہے ہیں۔ دھاتی ایندھن دھاتی کو پیس کر بنایا جاتا ہے۔ اس ایندھن کو چولھے میں ڈالنے پر عام ایندھن کے مقابلے میں زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے۔

دھاتی ایندھن کی سب سے اہم خوبی اس کا ماحول دوست ہونا ہے۔ اسے جلانے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا اخراج نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آئرن آکسائیڈ یعنی زنگ بنتا ہے، مگر یہ بھی ضایع نہیں ہوگا۔ اسے ایک ویکیوم میں جمع کرکے ازسرنو جلایا جاسکتا ہے۔

ہگنز کہتے ہیں کہ لوہے کا بہ طور ایندھن استعمال ’ کلوزڈ لوپ‘ سسٹم ہے۔ یعنی ایندھن ضایع نہیں ہوتا بلکہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے بار بار استعمال ہوتا رہتا ہے۔ یہ سسٹم گاڑیوں کے لیے دوسرے متبادل ایندھنوں جیسے بایوفیول وغیرہ سے زیادہ بہتر اور مؤثر ثابت ہوگا۔

دھاتی ایندھن پر کینیڈا کے سائنس دانوں کی تحقیق جاری ہے۔ انھیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں وہ لوہے کا بہ طور ایندھن استعمال ممکن بنانے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر کینیڈا جیسے ممالک میں، جہاں لوہے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، نیا معاشی انقلاب آجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔