نواز شریف واقعی قسمت کے دھنی ہیں !

میاں عمران احمد  جمعرات 20 اپريل 2017
اگر نواز شر یف آج نااہل ہوجاتے تو بہت سے حکومتی وزراء انہیں چھوڑ جاتے۔ نون لیگ کمزور ہوجاتی اور 2018ء کے انتخابات میں کوئی بھی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کر پاتی۔

اگر نواز شر یف آج نااہل ہوجاتے تو بہت سے حکومتی وزراء انہیں چھوڑ جاتے۔ نون لیگ کمزور ہوجاتی اور 2018ء کے انتخابات میں کوئی بھی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل نہ کر پاتی۔

پنچائیت لگ چکی تھی۔ مدعی اور ملزم دونوں پنچائیت کے سامنے پیش ہوئے اور کارروائی شروع ہوگئی۔ مدعی کھڑا ہوا۔ اپنے کیس کے حق میں دلائل دیے، ثبوت پیش کیے اور پنچائیت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ پنچائیت کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی، ثبوتوں کا جائزہ لیا اور مدعی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ

’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘

پھر ملزم کھڑا ہوا اور اپنے کیس کے حق میں دلائل دیے، ثبوت پیش کیے اور پنچائیت کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ پنچائیت نے کاغذات اور دلائل کا تفصیلی جائزہ لیا اور ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ

’آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘

عوام میں ایک شخص بیٹھا ساری صورتحال کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور پنچائیت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مائی لارڈ مدعی اور ملزم ایک ہی وقت میں ٹھیک کیسے ہوسکتے ہیں؟ اُن میں سے یقیناً ایک شخص صحیح ہوگا اور ایک شخص غلط۔ پنچائیت کچھ دیر خاموش رہی۔ پھر عوام میں کھڑے اُس شخص کو مخاطب کیا اور فرمایا کہ

’آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘

آپ پنچائیت کے اِس فیصلے کو سامنے رکھیں اور اِس کا موازنہ سپریم کورٹ کے پانامہ کیس کے ٖفیصلے سے کریں تو آپ یقیناً ایک دلچسپ صورتحال کا مشاہدہ کرسکیں گے۔ کیونکہ اِس فیصلے میں عمران خان اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی ٹھیک ہیں، نواز شریف بھی ٹھیک ہیں اور عوام بھی ٹھیک ہے۔ اِس فیصلے نے آج عمران خان کو ایک نئی اُمید دلائی ہے کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے پاس منی ٹریل نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ ثابت کرسکیں ہیں کہ انہوں نے یہ پیسہ جائز طریقے سے باہر بھجوایا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف سے کہا ہے کہ آپ بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ آپ کو نااہل نہیں کرنا چاہیے اور اِس معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن بنا دینا چاہیے۔ جبکہ تیسری طرف عوام کو اِس طرح مطمئن کیا گیا ہے کہ ابھی مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔ نواز شریف ٖجوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہونگے اور اپنی بے گناہی ثابت کریں گے۔ یعنی نواز شریف کو 60 دن کا ٹائم دیا گیا ہے اور 60 دن کے بعد ہم تفصیلی فیصلہ جاری کریں گے کہ نواز شریف بے گناہ ہیں یا نہیں۔

آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ جو ثبوت نواز شریف ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط عدالت میں پیش نہیں کرسکے وہ ثبوت اِن کمزور اور لاچار افسروں کے سامنے کیسے پیش کریں گے؟ جو منی ٹریل سپریم کورٹ پتہ نہیں لگا سکی وہ ہماری اپاہج بیورو کریسی کیسے پتہ لگا سکے گی؟ جو ہمیشہ مصلحتوں کا شکار رہی ہے اور جو بخوبی جانتی ہے کہ صاف اور شفاف تحقیقات کی سزا اُن کی آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گیں۔

محترم عدالت کے مطابق چئیرمین نیب نے اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کیا، ڈی جی ایف آئی اے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکے اور ایف بی آر نے بھی اپنا کام نہیں کیا۔ اگر اِن سب نے اپنا اپنا کام نہیں کیا تو پھر اِن کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اِن کے اشتراک سے نئی کمیٹی کس طرح کام کرسکے گی؟ اور کیا کم از کم اِن کو اپنے عہدوں سے نہیں ہٹانا چاہیے؟

اب میں تصویر کے دوسرے پہلو کی طرف آتا ہوں اور وہ یہ کہ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں۔ یہ ہر مشکل وقت میں مکھن میں سے بال کی طرح نکل جاتے ہیں۔ آپ 8 اکتوبر 1999ء کی مثال ہی لے لیجے۔ نواز شریف سمیت پورے ملک کو یقین تھا کہ نواز شریف کو ذالفقار علی بھٹو کی طرح پھانسی کی سزا ہوجائے گی اور وہ زندہ جیل سے باہر نہیں آئیں گے۔ لیکن پھر قسمت کی دیوی نے اپنا جادو دکھایا اور نواز شریف صحیح سلامت سعودیہ عرب روانہ ہوگئے۔ آپ پانامہ کیس کے فیصلے کو ہی دیکھ لیں۔ ثبوتوں کی عدم فراہمی، 17 اپریل کو نواز شریف کے حق میں بینرز، سپریم کورٹ کا فیصلہ صدیوں یاد رکھے جانے جیسے بیانات اور نواز شریف سمیت تمام حکومتی وزراء کے چہروں پر مایوسی اِس بات کا واضح اشارہ تھا کہ نواز شریف اِس فیصلے سے مایوس ہوں گے لیکن پانامہ کے فیصلے میں ایک مرتبہ پھر قسمت کی دیوی اُن پر مہربان ہوگئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ 2018ء کا الیکشن بھی نون لیگ کا الیکشن ہوگا۔

اِس کے برعکس اگر نواز شریف آج نااہل ہوجاتے تو بہت سے حکومتی وزراء یقینی طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں شامل ہوجاتے۔ نون لیگ کمزور ہوجاتی اور 2018ء کے انتخابات میں کوئی بھی ایک پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پاتی اور اِن حالات میں پی پی پی کے ووٹ کے بغیر کوئی بھی پارٹی حکومت نہیں بنا سکتی تھی اور اگر پی پی پی مرکزی حکومت کا حصہ بن گئی تو حالات کس قدر خراب ہوسکتے ہیں یہ آپ سب جانتے ہیں۔ اِن تمام تر حقائق کے پیشِ نظر یہ فیصلہ اب عوام نے کرنا ہے کہ یہ فیصلہ صدیوں یاد رکھا جائے گا یا نہیں۔

پانامہ لیکس کے فیصلے کے حوالے سے بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔