کلبھوشن یادیو سزائے موت کا قیدی

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 21 اپريل 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

بھارتی بحریہ کے ایک افسر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان کے علاقے  ماشکیل سے 13 مارچ 2016 کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ایک سال ایک ماہ تک یادیو پاکستان کی زیرحراست رہا اور اپریل 2017 کے دوسرے ہفتے میں اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت اس کا فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کیا گیا ،کارروائی کے دوران کلبھوشن پر لگائے گئے تمام الزامات درست پائے کہ جس پر اسے سزائے موت سنائی گئی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کلبھوشن کو دی گئی سزائے موت کی توثیق کردی۔

اس قانونی پراسس کے بعد اب کلبھوشن سزائے موت کا ایک قیدی ہے اور قانون کے مطابق کسی بھی وقت اس سزا پر عملدرآمد کیا جاسکتا ہے۔ کلبھوشن کو سنائی جانے والی اس سزا کے بعد بھارتی حکومت بڑے سخت ردعمل کا اظہار کر رہی ہے، بھارت میں متعین پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے دھمکی آمیز احتجاج کیا گیا۔ پاکستانی ہائی کمشنر سے کہا گیا کہ کلبھوشن کی سزائے موت کا مطلب پہلے سے طے شدہ قتل سمجھا جائے گا۔

اسی قسم کا احتجاج بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران کیا۔ دفتر خارجہ کے مطابق بغیر ٹھوس شہادتوں کے یادیو کو سزائے موت سنایا جانا مضحکہ خیز عمل ہے۔ یادیو کو سزائے موت سنانے کے بعد بھارتی حکومت نے ردعمل کے طور پر 12 پاکستانی ماہی گیروں کی رہائی روک دی ہے اور بھارتی حکمران اس حوالے سے پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے بھارتی احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن کو سزائے موت سنا کر کوئی غلط کام نہیں کیا۔ کلبھوشن پر بلوچستان میں تخریب کاری کے سنگین الزامات ہیں۔ تفتیش کے دوران کلبھوشن نے مجسٹریٹ کے روبرو ان الزامات کو قبول کیا اور کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘نے اسے پاکستان میں تخریب کاری کی ذمے داری سونپی تھی۔

مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں شدت آگئی ہے۔ ایل او سی پر آئے دن کی جھڑپوں اور بے گناہ شہریوں کے جانی نقصان کے بعد مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی میں بھی شدت آگئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آئے دن ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ لوک سبھا کے ضمنی انتخابات کے دوران کشمیری عوام مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، 9 اپریل کو مظاہرین پر بھارتی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے 8 مظاہرین جاں بحق اور 100سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ اس جانی نقصان کے باوجود کشمیری عوام کا احتجاج جاری ہے۔ بھارتی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے احتجاج کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کو بھیج کر وہاں تخریبی کارروائیاں کروا رہی ہیں۔ دونوں حکومتوں کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔

ان مقابلاتی الزامات کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم مقبوضہ کشمیر کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ افسوسناک حقیقتیں سامنے آتی ہیں کہ اب تک 70 ہزار سے زیادہ کشمیری دونوں ملکوں کے درمیان موجود تضادات کی نذر ہوچکے ہیں۔ بھارتی حکمران یہ خدشہ ظاہر کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کشمیر میں مذہب کے حوالے سے ایک اور منی پاکستان بنانا چاہتا ہے۔ ہوسکتا ہے بھارتی حکمران اس قسم کے خدشات کے اظہار میں حق بجانب ہوں لیکن کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کے جمہوری حق خود ارادیت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہر ذی ہوش انسان یہی کہے گا کہ اس انتہائی سادہ لیکن انتہائی پیچیدہ مسئلہ کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کرا دی جائے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے تو اسے مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری پر اعداد ہو جانا چاہیے۔

کشمیر کا پھوڑا اب ناسور بن کر برصغیر کے پورے جسم کو متاثر کر رہا ہے، بھارت کا اگر یہ موقف مان لیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان تخریب کاری کروا رہا ہے تو پھر پاکستان کے اس موقف کو کس طرح نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ بھارت پاکستان میں خاص طور پر بلوچستان میں تخریبی کارروائیاں کروا رہا ہے اور اگر پاکستان کی حکومت اس حوالے سے کلبھوشن یادیو کے اقبالی بیانات پیش کرتی ہے اور ان کے پس منظر میں یادیو کو بھارتی جاسوس قرار دے کر اسے سزائے موت سنانے کو حق و انصاف کی کارروائی کہتی ہے تو اس موقف کو کس طرح جھٹلایا جاسکتا ہے۔

ہماری دنیا میں قانون اور انصاف کا جو نظام رائج ہے اور دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ دنیا قانون اور انصاف کے جس احمقانہ نظام پر فخر کرتی ہے، وہ سارے کا سارا نظام ظاہری گواہوں اور ثبوتوں کی ٹانگوں پر کھڑا ہوا ہے اس نظام میں نہ گیرائی ہے نہ گہرائی نہ آفاقی وژن ہے اور یہ احمقانہ نظام اس لیے مقدس بنا ہوا ہے کہ ایک تو اس نظام کو چلانے والوں کے مفادات اس سے وابستہ ہیں دوسرے اس کو چلانے والے وہ سیاستدان ہیں جن کا کوئی وژن ہی نہیں ہے بلاشبہ جاری قانون اور انصاف کے مطابق کلبھوشن نے جاسوسی کا ارتکاب کیا ہے لیکن اس قسم کے مجرموں کے جرائم کے محرکات کیا ہیں؟

اس پر کوئی بندہ خدا غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس قسم کے جرائم کا پہلا محرک ’’روزگار‘‘ ہے انسان کو زندہ رہنے کے لیے ضروریات زندگی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ بغیر دولت کے حاصل نہیں ہوتیں اور دولت کے حصول کے لیے انسان ہر کام کر گزرتا ہے۔ اس کا دوسرا محرک حب الوطنی اور قومی مفادات ہیں۔ اگر ان حقائق پر نظر ڈالیں تو پھر کلبھوشن نہیں بلکہ وہ محرکات اصل مجرم ٹھہرتے ہیں جو انسانوں کو جاسوسی جیسے جرائم پر آمادہ کرتے ہیں یوں اصل مجرم ہمارا وہ نظام ٹھہرتا ہے جو انسانوں کو جرائم پر آمادہ اور مجبور کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔