اقبال ؒ کی شعری بصیرت کا ماحصل ’عظمت ِ انسان اور اس کی تنہائی ‘ ہے

 جمعـء 21 اپريل 2017
تمام ’’شاعران اثبات‘‘ مثلاً ڈانٹے، ملٹن اورگوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں۔فوٹو فائل

تمام ’’شاعران اثبات‘‘ مثلاً ڈانٹے، ملٹن اورگوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں۔فوٹو فائل

’’کوئی شخص بھی شاعری میں عظمت کا حامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عظیم فلسفی بھی نہ ہو۔‘‘ یہ قول اس نہایت ذی شعور نقاد کا ہے جوکولرج کے نام سے موسوم ہے۔ خواہ مغرب میں یہ مفروضہ کلیتاً قابل قبول نہ ہو لیکن مشرق میں، بالخصوص مسلمانوں میں، عظیم ناموں کی ایک فہرست اس کی شہادت دیتی ہے۔

جلال الدین رومی (۱۲۰۷ تا ۱۲۷۳)، مصلح الدین سعدی (وفات ۱۳۱۳ء)، شمس الدین حافظ (وفات ۱۳۸۹) ابن الحسن خسرو (۱۲۵۳ء تا ۱۳۲۵ء) اسد اللہ خاں غالب (۱۷۹۷ء تا ۱۸۶۹ء)۔ اقبال (ڈاکٹر۔ سر۔ شیخ محمد۔ یا علامہ جیسا کہ انہیں احتراماً پکارا جاتا ہے) بلاحیل و حجت اسی منفرد سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ تاہم ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ عہد وسطیٰ کے پیش روؤں کے برعکس محض یہ نہیں کہ انہوں نے فلسفہ کے مختلف مدرسہ ہائے فکر کا، جس میں قدیم و جدید دونوں شامل ہیں۔ بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا بلکہ وہ ایک سے زیادہ زبانوں میں ایسا نثری سرمایہ بھی رکھتے ہیں جس میں منطقی اختصار کے ساتھ انہوں نے حقیقی دنیا کے مسائل کا اپنا حل پیش کیا ہے۔

تمام ’’شاعران اثبات‘‘ مثلاً ڈانٹے، ملٹن اورگوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں۔ انہی کی طرح وہ بھی گردوپیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے اور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی نسلاً بعد نسل کی معاشرتی، مذہبی اور سیاسی معیارات فکر کے لیے غیر مستند نہیں بلکہ مسلمہ قانون ساز کی حیثیت رکھتے تھے۔

غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے انیسویں صدی کے اواخر اور بیسوی صدی کے اوائل کی دہائیاں شدید ذہنی الجھنوں اور جذباتی اذیتوں کا دور تھیں۔ مغلیہ خاندان کی مسلم حکومت کا زوال۔ ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت کے خلاف سرکشی کا خونیں انتقام۔ جاگیرداری نظام کے حقوق، اقدار اور رعایتوں کا خاتمہ۔ غیر مسلم باشندوں کو قوت و دولت کی بیشتر اعلیٰ حیثیتوں کی تفویض۔۔۔ یہ ساری باتیں اجتماعی ذہن کو منشتر کررہی تھیں۔ تباہ حالی نے انہیں سرحد پار کی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ جو خود بھی ایسے ہی حالات سے دوچار تھیں، بھائی چارے کے رشتے میں پیوست کردیا تھا۔

عثمانی ترکوں کے ساتھ، مشرق وسطیٰ کے عربوں کے ساتھ، شمالی افریقہ میں لیبیا، مراکش اور تیونس کے لوگوں کے ساتھ۔ وہ ایک سکوں بخش و حوصلہ پرور آواز کے منتظر تھے جو انہیں بے اطمینانی کے بنجر پن سے باہر نکالے۔ پچھلے دور کی رہنما آوازیں، آزاد خیال مصلحین کی دھیمی آوازیں جو انہیں برطانوی حکمرانوں کے بدیشی طور طریق سے مصالحت کرنے پر اکسا رہی تھیں، نیز مذہبی علماء کی درشت آوازیں جو انہیں کفار کے دلفریب اطوار کو رد کرکے اجداد کی روایات کی جانب واپس بلارہی تھیں۔

یہ دونوں آوازیں نئے دانشور طبقے کے لیے کوئی اپیل نہ رکھتی تھیں۔ شاعر اقبال ان کی ناآسودگی کے سوتوں سے کما حقۂ واقف تھے اور مفکر اقبال ان کے اس فکری اور روحانی کرب کی ماہیت کو خوب سمجھتے تھے جو جدیدیت اور روایت کے دیوان کی کلائیوں کو گرفت میں لے کر مختلف سمتوں میں کشاکش سے پیدا کررہے تھے۔ وہ دونوں سے ذہنی و جذباتی انس رکھتے تھے۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ہندی مسلمانوں، مسلمانان عالم اور خدا۔ انسان اور فطرت کی تکون سے متعلق عصری مسائل کے جوابات تلاش کرلیے۔

اقبال نے مغرب کے بہت سے فلسفیانہ اور سائنسی خیالات کو قابل قدر گردانا اور انہیں ہضم کرلیا۔ مثال کے طور پر ہیگل کا تصور انسان اور تاریخ کے انسانی عمل کا نتیجہ ہونے کا تصور، کانت کا عقل مطلق کے بارے میں استدلال، سرمایہ داری اور طبقاتی استحصال کے خلاف مارکس کا شدید ردعمل، نطشے کا آزاد خیال بور ژوا اخلاقیات کا رد اور حصول قوت و اقتدارر کا استحسان، وجدانی علم کی صحت کے حق میں، برگساں کی بحث، اینسٹائن کا چہارابعادی زمانی/ مکانی تسلسل کا تصور وغیرہ اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ مغرب کے عینی و مادی دونوں قسم کے فلسفے یہاں کے لوگوں کی معاشرتی و نظریاتی صورتحال سے بڑی حد تک مطابقت نہیں رکھتے۔

انہیں یہ محکم یقین تھا کہ مذہب اسلام اور ہماری محترم و پاکیزہ روایات یعنی پیغمبر اسلامﷺؐ کی عملی زندگی اور ان کے اقوال، یہی وہ بنیادیں ہیں جو ان کے پیغام کے لیے سند ہوسکتی ہیں، اور انہیں پر اقبال نے اپنی بصیرت کی روشنی ڈالی۔ مسلم ذہن کو آزاد کرانے کی ضرورت، ایک طرف تو تقریباً پانچ سو سال کے معاشرتی و فکری جمود سے پیدا شدہ بنجر پن سے تھی اور دوسری طرف عقل دشمن، رجعت پسند متعصب قوتوں کے جبر سے۔ پہلے اقدام کے طور پر، قدیم زمانے کے پیغمبروں کی طرح، انہوں نے خانۂ خدا کو جھوٹے بتوں سے۔۔۔ فرسودہ روایات پرستوں، تاریک ضمیر ملا، تارک الدنیا صوفی، مجمع بازوں اور شورش پسندوں سے پاک کرنے کی کوشش کی۔

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے۔۔ پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کے سلوں سے ۔۔ میرے لیے مٹی کا حرم اور بنادو
(بال جبریل)

محض اسی طور ’’خانۂ خدا‘‘ زمین پر اس کے خلیفہ انسان کے شایان شان ہوسکتا ہے۔

اقبال محض معنوی طور پر ہی نہیں لفظی طور پر بھی انسان دوست ہیں۔ ان کے لیے ’’حقیقت کی کوئی صورت اتنی توانا، اتنی دلکشا اور اتنی حسین نہیں جتنی کی روح انسانی۔‘‘ زوال آدم رحمت الٰہی سے محرومی نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ منزل ارتقا ہے جو اسے اس عمل تخلیق میں جو مسلسل جاری ہے، ہم کار خدا کا درجہ دیتی ہے۔ اس لیے کہ کائنات مکمل نہیں، یہ اب بھی مرحلۂ تکمیل میں ہے اور انسان کو اس کام میں ہاتھ بٹانا ہے تاکہ وہ کسی حد تک انتشار میں نظم و ضبط پیدا کرسکے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
(بال جبریل)
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
سفال آفریدی، ایاغ آفریدم
بیابان و کہسار و راغ آفریدی
خیابان و گلزار و باغ آفریدم
(پیام مشرق)

اس کے منطقی نتیجے کے طور پر اقبال نے اسلامی تصور توحید… خدا کی وحدت اور اکائی کے تصور… کو عالم اجسام اور عالم ارواح کی اکائی کے تصور پر منطبق کیا۔ اس طرح دین و دنیا اور روح و مادہ کی ثنویت کو ختم کیا۔ ’’روح اپنے امکانات کو فطرت، مادے اور دنیا میں ظاہر کرتی ہے۔ پس جو کچھ دنیوی ہے وہی اپنے وجود کی ماہیت میں دینی بھی ہے۔‘‘

علاہ ازیں چونکہ مادی قوتوں کی تدریجی تسخیر کے ذریعے انسانی ارتقا کا عمل مسلسل اور لامتناہی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات کا دائم عنصر محض تغیر و تبدیلی ہے۔

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں (بانگ درا)
یہ اصول داخلی و نظریاتی صورت حال پر اتنا ہی منطبق ہوتا ہے جتنا کہ معاشرتی و مادی صورتحال پر… یہاں تک کہ مذہبی احکامات پر بھی۔ ’’ابدی اصول اگر تغیر کے تمام امکانات کو خارج کردیں جوکہ قرآن پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ہے تو یہ اس شے کو جامد بنانے کے مترادف ہے جو اپنے جوہر کے اعتبار سے حرکی ہے۔‘‘ ایسے روایتی صوفی سے جو موجود دنیا کو واہمہ اور انسان کے دنیوی عمل کو کار لاحاصل سمجھ کر اسے رد کردیتا ہے۔ اقبال کنارہ کش ہوجاتے ہیں مگر وہ متشرع فقیہوں اور ان کی جامد و ساکن عصبیت کو بھی پوری قوت سے رد کردیتے ہیں۔

اب آخری بات: اس تخلیقی عمل میں خاص عالم انسانی انا یا شخصیت یا ذات… یا خودی ہے، جس نام سے کہ اقبال اسے پکارتے ہیں۔ تخلیق کے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے، انسانی ذات کے لیے دو تحفظات ضروری ہیں۔ اول ادراک کے ذریعے عالم اجسام کا علم، دوم و جدانی جذب یا اقبال کی اصطلاح میں عشق۔ انہیں کے ذریعے اعلیٰ تر اقدار اور نصب العین کا حصول ممکن ہے۔

اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ’’شخصیت کا تصور ہمیں ایک معیار اقدار مہیا کرتا ہے۔ جو کچھ شخصیت کی توانائی کا باعث بنے وہ خوب ہے اور جو اسے کمزور کرے وہ بد… فن، مذہب اور اخلاقیات کو شخصیت کے اسی تصور کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔ لیکن یہ شخصیت یا ذات خود کو نہ تنہا فروغ دے سکتی ہے اور نہ توانا کرسکتی ہے۔ یہ بحیثیت مجموعی معاشرتی تعلقات کے حوالے سے ہی ممکن ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اقبال کا ’’مرد کامل‘‘ نطشے کے‘‘ سپرمین‘‘ سے مختلف ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اقبال کے حتمی فیصلے ہر قسم کے قومی تعصبات، استعماری مقبوضات، نسلی امتیازات، معاشرتی استحصال اور ذاتی اغراض کے سراسر خلاف ہیں۔ ان میں سے ہر صورت حال انسانی شخصیت کو مسخ کرتی ہے اور اس کی تذلیل کا باعث بنتی ہے۔

یہ بات قابل فہم ہے کہ اقبال کے بارے میں وافر تنقیدی مواد، ان کی شاعری کی تحسین اور قدری جائزے کے بجائے ان کے پیغام اور تصورات کے مطالعے اور تجزیئے سے متعلق ہے۔ تاہم ان کی جذبہ کی شدت سے بھرپور تھرتھراتی ہوئی شاعری اور اس شاعری کی قائل کرنے والی تاثیر ان کے بیشتر اثر و رسوخ کا باعث ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ہئیت و مواد، خیال و اسلوب واضح خطوط پر حرکت کرتے ہیں اور سلسلۂ تخلیق کے طویل عرصے میں ان کا ارتقاء دلچسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ پہلے دور میں جو ۱۹۰۵ء تک ختم ہوجاتا ہے بیشتر نظمیں مظاہر فطرت کے محرکات استعجاب و حیرت سے متعلق ہیں۔ سحر و غروب آفتاب، پہاڑ و دریا، چاند، ستارے اور نوجوانی کی بے سبب اداسیاں، مختصر نظموں کے اس داخلی دور کے بعد طویل نظموں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔

شدید جذبات پر مشتمل خطیبانہ نظمیں، جن میں زیادہ تر قومی یا بین الاقوامی سیاسی موضوعات پر ہیں۔ یہ تمام نظمیں اردو میں ہیں۔ ۱۹۱۵ء میں اقبال نے اپنی پہلی طویل فلسفانہ نظم اسرار خودی، فارسی زبان میں پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی فلسفیانہ فکر کا دوسرا دور، جو زیادہ تر فارسی منظومات پر مشتمل تھا، شروع شروع ہوا۔ اور آخر میں تیسری دہائی کے اوائل میں ان کے پیغامات اور فن کا تکمیل دور آیا جو تین اردو مجموعوں پر مشتمل تھا، بال جبریل، ضرب کلیم اور مغان جحاز جو ان کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اس وقت تک ان کی بے چین تلاش کا سفر داخلی تجربوں کے ٹکڑوں، فطرت سے پیدا ہونے والے تحیر، ہندی مسلمانوں اور اسلامی دنیا کی زبوں حالی سے گزر کر بنیادی حقائق۔۔۔ خدا، کائنات اور انسان ۔۔۔ کے بارے میں پرسکون فکر تک پہنچ گیا۔

شعری بصیرت کے دائرے میں تدریجی پھیلاؤ کے تناسب سے ان کے شعری موضوعات میں کمی ہوتی گئی۔ اسراف، پھیلاؤ سے استحکام کی طرف چلتے ہوئے آخر کار ان کی فکر آخری برسوں کے تصور وحدت تک پہنچ گئی۔ اسی قسم کی تبدیلی اسلوب میں بھی ہوئی۔ تفاصیل کی طوالت کے بجائے ایجازو اختصار، تزئین اور ایمائیت کے بجائے واضح اور بلاواسطہ بیان، شاندار خطابت کے بجائے سادہ شاعری۔ مثنوی کی سیاسی یا فلسفیانہ طویل نظم یامسدس کی ہئیت کی جگہ غزل، قطعہ اور رباعی کے ایجاز نے لے لی۔

جذباتی فضا میں تبدیلی محبت کے احساس کے بجائے عشق کے شدید جذبات کی صورت میں ہوئی۔ بالغ ذہن کی ان نظموں میں اقبال نے مشرقی شاعری کی عام تزئینی روایت کو رد کرکے بہت سے طریق کار ایسے وضع کیے جن کے باعث ان کی نظموں کی سختی و درشتی دور ہوگئی مگر معنی کی اعلیٰ سطح قائم رہی۔ اول صوتیات کا نظام و آہنگ اور بہت سی ایسی عروضی ایجادات جو ترجمہ کی صورت میں معدوم ہوجاتی ہیں۔ دوم خیال انگیز اسم معرفہ کا استعمال جو ان سے پہلے اردو شاعری میں مروج نہ تھا۔ مثلاً ریگ روان کاظمہ ’’کوہ ماوند کی برف‘‘۔ عراق و حجاز کی ریگزار‘‘ خون حسین۔ عظمت روما، جمال قرطبہ، سمرقند و اصفہان کی شان‘‘ وغیرہ۔ سوم یہ کہ انہوں نے بہت سے غیر معروف الفاظ کا اجراء کیا جو قدیم ہیں مگر منسوخ نہیں، جو غیر مستعمل ہیں مگر مبہم نہیں۔ نیز یہ کہ انہوں نے ان سب کے لیے ایسے آہنگ اور اوزان استعمال کیے جو اردو شاعری میں شاید ہی کبھی آسکے ہوں۔

اس منزل پر شدید داخلی چھان بین اور مختلف جہتوں میں غور و فکر کے بعد انہیں بالآخر وہ موضوع مل گیا جو اپنی وسعت کے سبب ان کی پوری شعری بصیرت پر چھاگیا اور وہ دہرا موضوع تھا۔ انسان کی عظمت اور اس کی تنہائی… انسان کے خلاف صف آراء مشکلات، ظلم، استحصال، اس کی باطنی خامیاں اور خارج میں ایک دشمن سنگ دل فطرت اور ان سب کا احاطہ کرتی ہوئی اس کی تنہائی۔ یہ ہے وہ چیلنج جس کے بالمقابل المیہ کے ہیرو۔ انسان، کی عظمت ہے۔ لامتناہی کشمکش اور وصال خداوندی کے لیے مستقل آشوب اور حصول اس کا مقدر ہے۔ وہ اس شان و شوکت اور اس دکھ درد کا، امیدوں اور پریشانیوں کا، انسانی زندگی کے آشوب اور اس کے حصول کا نغمہ خواں ہے۔ کبھی ان نغموں میں نرمی و ہمدردی ہوتی ہے تو کبھی شدید غصہ اور جھنجھلاہٹ اور اقبال نے یہ کام خلوص و یقین اور اظہار کی ایسی وسعت و لطافت کی سطح پر کیا جو ان کے عہد میں کوئی نظیر نہیں رکھتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔