مصالحت کاری؛ انسانی معاشرے کا اسلامی وصف

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 21 اپريل 2017
ادیان عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی فرماتا ہے۔ فوٹو: فائل

ادیان عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی فرماتا ہے۔ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے جو اعمال محبوب اور جو کام پسند ہیں ان میں ایک صلح کرانا بھی ہے۔

ادیان عالم میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر مکمل راہ نمائی فرماتا ہے۔ اسلام انفرادی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کی تمام پیچیدگیوں اور الجھنوں کو سلجھاتا ہے، اس کا موثر اور آسان حل بھی پیش کرتا ہے، مزید یہ کہ اس کا فائدہ محض دنیا تک ہی محدود نہیں رکھتا بل کہ ہمیشہ کی کام یابی کے حصول تک مقرر کرتا ہے۔

چوں کہ ہر انسان کا مزاج دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لیے اکٹھے رہن سہن، لین دین اور باہمی معاملات و تعلقات میں اکثر اوقات دوسرے کی خلاف مزاج باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں بڑھتے بڑھتے نفرت و عداوت، قطع کلامی و قطع تعلقی، دشمنی اور لڑائی جھگڑے، جنگ و جدل، خون خرابے اور قتل و غارت تک جا پہنچتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں فساد شروع ہوجاتا ہے، انسانی نظام زندگی تباہ ہو کر رہ جاتا ہے، حتیٰ کہ خاندانوں کے خاندان اجڑ جاتے ہیں۔

اس موقع پر اسلام ہماری کیا راہ نمائی کرتا ہے۔۔۔ ؟

قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صلح کی اہمیت و ضرورت، اس کی ترغیب اور خاندانی و معاشرتی نظام زندگی میں اس کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسے’’ خیر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسے ضروری قرار دیا گیا ہے، ایسے لوگوں کی مدح اور تعریف کی گئی ہے جو صلح پسند ہوں۔

آئیے اس بارے میں چند احادیث مبارکہ سے سبق لیتے ہیں۔ عموماً مختلف مواقع پر صلح صفائی کی نوبت پیش آتی ہے، بہ طور خاص جماعتوں، قبیلوں کے درمیان، عزیز و اقارب اور رشتہ داروں بالخصوص میاں بیوی کے درمیان۔

1: (خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان صلح سے متعلق ایک حدیث پاک میں ہے ) حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اہل قباء کسی معاملے پر باہم جھگڑ پڑے یہاں تک کہ ہاتھا پائی اور ایک دوسرے پر پتھر پھینکنے کی نوبت آگئی۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع کی گئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو فرمایا : ہمارے ساتھ چلو ہم ان کے درمیان ’’صلح صفائی ‘‘ کراتے ہیں۔

(صحیح بخاری ، باب قول الامام لاصحابہ اذھبوا بنا نصلح ، حدیث نمبر2693)

2: ( گروہوں کے درمیان صلح سے متعلق ایک حدیث پاک میں ہے ) حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کسی معاملے کے حل کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے گزارش کی گئی کہ آپ عبداﷲ بن ابی (منافق) کے پاس تشریف لے چلیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو قبول فرمایا اور ایک دراز گوش (گدھے) پر سوار ہوئے آپ کے ہم راہ چند مسلمان بھی تھے جس طرف آپ جا رہے تھے وہ زمین سیم اور شور والی تھی۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم وہاں پہنچے تو عبداﷲ بن ابی نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھ سے ذرا دور رہیں آپ کے گدھے کی بدبو سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔

(عبداﷲ بن ابی کی اس بات کا مقصد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوفت اور تکلیف دینا تھا ) چناں چہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص نے عبداﷲ بن ابی کی اس شرارت کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے گدھے سے آنے والی بو تجھ سے بہت اچھی اور خوش بودار ہے۔ عبداﷲ بن ابی کو اس پر غصہ آیا اور اس کی قوم کے ایک شخص نے اس انصاری صحابی کو گالی دی۔ چناں چہ دونوں قوموں کے درمیان لڑائی ہوگئی یہاں تک کہ نوبت ہاتھاپائی پر جا پہنچی۔ چناں چہ اسی موقع پر سورۃ الحجرات کی آیت نازل ہوئی جن کا ترجمہ یہ ہے : اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ جھگڑ پڑیں تو ان کے درمیان ’’صلح صفائی ‘‘ کرا دو۔

(صحیح بخاری، باب ما جاء فی الاصلاح بین الناس اذا تفاسدوا، حدیث نمبر2691)

( نوٹ: عبداﷲ بن ابی بہ ظاہر خود کو مومن کہتا تھا اس لیے قرآن کریم میں اس کے گروہ کو بھی مومن کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شخص مومن نہیں بل کہ پکا منافق تھا۔)

3: حضرت اسماء بنت یزید رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : تین مواقع ایسے ہیں جہاں جھوٹ بولنے کی گنجائش موجود ہے۔ پہلا یہ کہ میاں بیوی کے درمیان صلح کے وقت، دوسرا جنگ میں اور تیسرا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے۔

(جامع الترمذی ، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین ، حدیث نمبر 1939)

4: حضرت ابوالدرداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو درجے میں (نفلی) روزے (نفلی) نماز اور (نفلی) صدقے سے بھی زیادہ فضیلت والی ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کیا: کیوں نہیں ؟ ضرور بتائیے! آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ لوگوں کے درمیان ’’صلح صفائی‘‘ کرانا ہے۔ اس لیے کہ باہمی ناچاقی اور پھوٹ دین کو ختم کرنے والی چیز ہے۔

(جامع الترمذی ، باب فضل کل قریب ہین سھل ، حدیث نمبر 2509)

5 : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جنت کے دروازے سوموار اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں ان دو دنوں کے اندر لوگوں کی مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے لیکن مشرک آدمی اور باہمی عدوات رکھنے والوں کی مغفرت نہیں کی جاتی۔ (فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ) انہیں دیکھتے رہو! انہیں مہلت دو یہاں تک کہ وہ دونوں آپس میں ’’صلح صفائی ‘‘ کرلیں۔

(جامع الترمذی ، باب ما جاء فی المتھاجرین ، حدیث نمبر 2023)

6 : حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوایوب! میں تمہیں ایسی نیکی کے بارے میں بتلاتا ہوں جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب ہے وہ یہ ہے کہ جب لوگ لڑ جھگڑ پڑیں یا (ان کی محبت میں کسی وجہ سے کمی آ جائے یعنی) فساد میں مبتلا ہوجائیں، تو ان کے درمیان ’’ صلح صفائی ‘‘ کرانا۔

(مجمع الزوائد و منبع الفوائد، باب ما جاء فی اصلاح بین الناس ، حدیث نمبر 13051)

صلح کروانے سے متعلق چند بنیادی باتیں:

1: صلح کرانے والے کو چاہیے کہ وہ اخلاص نیت کے ساتھ صلح کرائے۔ مال کمانے، شہرت، دکھلاوے اور ریاکاری اور دنیاوی مفادات سے بالاتر ہو کر خالص اﷲ کی رضا کے لیے صلح کرائے۔

2 : صلح کے لیے عدل و انصاف کو ضرور ملحوظ خاطر رکھے اور ظلم و ناانصافی سے دور رہے۔

3 : صلح کے لیے پہلے اس معاملے کے بارے میں اہل علم سے راہ نمائی ضرور لے۔

4 : صلح میں کسی فریق پر حکم لگانے میں عجلت اور جلد بازی سے کام نہ لے بل کہ انتہائی غور و خوض کے ساتھ فیصلہ کرے۔

5 : صلح کے لیے ایسے وقت کا انتخاب کرے جب فریقین صلح کے لیے رضامند ہوں، ان کا غصہ وغیرہ ٹھنڈا ہوجائے۔

6 : صلح کراتے وقت نرم الفاظ اور دھیما لہجہ اختیار کرے اور فریقین کو ان کے عمدہ اوصاف اور خاندانی شرافت یاد دلائے تاکہ وہ ’’صلح صفائی ‘‘ کے لیے جلد تیار ہوں۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے باہمی نفرت و عداوت کو ختم فرمائے اور ہم سب کو ’’صلح صفائی‘‘ کا عادی بنائے۔ آمین یارب العالمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔