ہوگیا فیصلہ۔۔۔ کیا بدلا، کیا بدلے گا؟

محمد عثمان جامعی  جمعـء 21 اپريل 2017
دونوں طرف کے لوگ خوشی سے ناچ رہے ہیں، مٹھائیاں کھا رہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہی۔  فوٹو : فائل

دونوں طرف کے لوگ خوشی سے ناچ رہے ہیں، مٹھائیاں کھا رہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہی۔ فوٹو : فائل

فیصلہ آگیا، دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے طلوع ہوکر غروب ہوا۔

کیا فیصلہ ہے صاحب! واہ واہ، عدالت کی مہارت کا شاہ کار، دونوں فریق خوش، شادمانی کا یہ عالم کہ ہر دو طرف کے لوگ ناچ رہے ہیں۔ دونوں طرف مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں اور خوب کھائی جارہی ہیں۔ فیصلے کا میٹھا میٹھا ہپ ہپ کیا جارہا ہے اور کڑوا کڑوا تھوتھو۔ خدشہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہان اور ان کے پُرجوش حامی شیرینی کھا کھا کر ذیابیطس میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

پاناما کیس نے یوں تو شروع دن سے ہی پوری قوم کو متوجہ کر رکھا تھا، لیکن مسند عدل سے نازل ہونے والے اس فقرے نے کہ ’’یہ ایک تاریخی فیصلہ ہوگا‘‘ ایوانوں سے چوراہوں اور تھڑوں سے گھروں تک ہیجان برپا کردیا۔ صاحبان اقتدار کو خدشات تھے مگر نظام انصاف سے توقعات بھی، ان کے مخالفین امید کے دیپ جلائے ہوئے تھے اور لوٹ کھسوٹ سے بیزار عوام کی آنکھوں میں اُس انصاف کی آرزو دمک رہی تھی جو حکم رانوں کی بدعنوانی کو زنجیر کردے۔

مہینوں سے ہر زبان پر ایک ہی سوال تھا ’’کیا ہوگا؟‘‘ اور جب ’’تاریخی فیصلے‘‘ کی بات چلی تو طے کرلیا گیا کہ۔۔۔اُن کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گئے کہ شام گئے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی بن آئی۔ قیاس آرائیوں کا بازار گرم کیا گیا، پیش گوئیوں کی منڈی لگی، چیختے تبصروں کے ساتھ جذبات سے کھیلنے کا دھندا جاری رہا اور ہیجان پھیلانے میں مرکزی کردار ادا کرکے اپنی پستی کا ثبوت دیا جاتا رہا۔

فیصلہ ہوکر محفوظ ہوا تو جذبات اور ہیجان میں مزید اُبال آگیا۔ آخر اعلان ہوا کہ فیصلہ جمعرات بیس اپریل کو سنایا جائے گا۔ تاریخ رقم ہونے اور مثال قائم ہونے کے انتظار میں آنکھیںبچھائے لوگوں نے نعرہ لگایا جمعرات بھری مُراد، ساتھ ہی اندیشوں نے بھی صدا دی۔ خدشہ تھا کہ فیصلے سے کوئی ایک فریق تو یقیناً ناراض ہوگا اور وہ اپنی برہمی کا اظہار سڑکوں پر بھی کر سکتا ہے۔ چناں چہ اس دن کے آنے سے پہلے پیٹرول پمپس پر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی قطاریں لگ گئیں۔

جمعرات کو بعض اسکول بند کردیے گئے، بہت سے لوگ گھروں کو جائے امان سمجھ کر بیٹھ گئے۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے اس خوف کے باعث کہ مشتعل فریق ان کے کاروباری اور صنعتی مراکز کو اشتعال کا نشانہ نہ بناڈالے، حفاظتی اقدامات کرلیے۔

فیصلہ آیا تو امیدیں اور توقعات جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اور اندیشے اور خدشات پھن سمیٹ کر بِلوں میں جاگھسے۔ اشتعال اور برہمی کے اندیشوں نے خوف کی چادر ہٹاکر دیکھا تو مقدمے کے دونوں فریق مسرور تھے، دونوں نے فیصلے سے اپنی فتح برآمد کرلی تھی، راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا تھا، اور صورت حال پر حیران لوگوں کے لیے یہ بھی لکھتا تھا کہ ’’حیرت کس بات کی، یہ پاکستان ہے پیارے!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔