عدالتی فیصلے کے باوجود پاناما کیس کا فیصلہ انگریزی میں

ثاقب بشیر  ہفتہ 22 اپريل 2017
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) جواد خواجہ كی سربراہی میں قائم بینچ نے ملك میں اردو كے نفاذ کا حکم دیا تھا، فوٹو؛ فائل

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ر) جواد خواجہ كی سربراہی میں قائم بینچ نے ملك میں اردو كے نفاذ کا حکم دیا تھا، فوٹو؛ فائل

 اسلام آباد: سپریم كورٹ آف پاكستان نے عوامی مفاد كا حامل ایك اور اہم پاناما کیس كا فیصلہ اردو كی بجائے انگریزی میں جاری كیا جب کہ ماضی كے اعلیٰ عدلیہ كے حكم نامے كے مطابق كم از كم عوامی مفاد كے حامل فیصلوں كو اردو میں جاری كرنا ضروری ہے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ریٹائرڈ) جواد ایس خواجہ كی سربراہی میں قائم 3 ركنی بینچ نے 8 ستمبر 2015 كو ملك میں اردو كے نفاذ کا حکم دیا تھا۔ حكومت كی طرف سے پیش كردہ 9 نكات كو فیصلے كا حصہ بنایا گیا تھا جس میں حكومت نے 3 ماہ میں اردو كے نفاذ كو یقینی بنانے كا وعدہ كیا تھا، 9 نكاتی حكم نامے میں ملك میں اردو كے نفاذ كے علاوہ یہ بھی كہا گیا تھا كہ عوامی مفاد سے تعلق ركھنے والے عدالتی فیصلے یا جو آرٹیكل 189 كے تحت اصول قانون كی وضاحت كرتے ہوں لازماً اردو میں ترجمہ كرایا جائے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما کیس کے فیصلے میں وزیراعظم کو نااہل قرارنہیں دیا گیا

اس حوالے سے سابق صدر سپریم كورٹ بار ایسو سی ایشن بیرسٹر علی ظفر نے ایكسپریس نیوز سے گفتگو میں کہا کہ سپریم كورٹ كا اردو كے نفاذ كا فیصلہ جلد بازی میں كیا گیا تھا كیونكہ جب كئی دہائیوں سے ہمارے ہاں اردو كا نفاذ عملی طور پر نہیں ہے تو كیسے چند دنوں یا مہینوں میں قوانین اور اصول و ضوابط كو تبدیل كیا جا سكتا ہے، ہو سكتا ہے ابھی تك سپریم كورٹ كے پاس كوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہ ہوں جس كے مطابق انگریزی كے فیصلے اور قوانین كو اردو میں ترجمہ كیا جاسكے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں: پاناما کیس کا فیصلہ عالمی میڈیا پر بھی چھایا رہا

دوسری جانب سپریم كورٹ نے پاناما كیس كے فیصلے كی كاپیاں مشتركہ تحقیقاتی ٹیم تشكیل دینے كے لیے متعلقہ 6 اداروں سمیت اٹارنی جنرل اورسیكریٹری اسٹیبلشمنٹ كو بھجوادی ہیں جب كہ وزیراعظم اور ان كے صاحبزادوں كو نوٹس بھی جاری كرتے ہوئے ہدایت كردی گئی ہے كہ مشتركہ تحقیقاتی ٹیم سے مكمل تعاون كیاجائے۔ پاناما كیس كی تحقیقات كے لیے سپریم كورٹ نے ایف آئی اے كے ایڈیشنل ڈائریكٹر جنرل كی سربراہی میں كمیٹی تشكیل دینے كا حكم دیا ہے جس میں نیب، سیكیورٹی اینڈ ایكسچینج كمیشن آف پاكستان، ملٹری انیٹلی جنس اور آئی ایس آئی كے نمائندے شامل ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔