سوالات درد سے چیخ رہے ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 22 اپريل 2017

1975 میں ژاں پال سارتر سے کسی نے پوچھا ’’مرنے کے بعد تمہیں کس حوالے سے یاد رکھا جائے‘‘ سارتر نے جواب دیا ’’میرے ناول نوسیا، میرے دو ڈرامے No Exit اور The Devil and the Good Lord کے حوالے سے ان کے علاوہ میرے فلسفے کی کتابAl Rennson Critique of Dialectic اور میرامقالہ Saint Genet، اگر لوگوں نے ان کو یاد رکھا تو میں یاد رہوں گا، اس کے علاوہ مجھے کسی چیز کی کوئی خواہش نہیں‘‘۔ سارتر نے تو چند کتابوں، ڈراموںکا نام گنوایا ہے، لیکن سارتر کا لکھا ہوا ہر لفظ لوگوں کے اندر زندہ ہے۔

سارتر لکھتا ہے کہ ’’میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو‘‘۔ سال ہا سال بعد فرانس سے لاکھوں میل دور پاکستان میں آج کوئی ایک نہیں، جی کوئی ایک نہیں بلکہ 20 کروڑ انسان دن رات یہ ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ ’’انھیں سکون نصیب ہو‘‘۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کے حالات اور ماحول میں کسی نارمل انسان کو کیسے سکون حاصل ہوسکتا ہے؟ آپ چاہیں تو یہ سوال دنیا کے کسی بھی نامور فلسفی، ماہر نفسیات، ماہر معاشیات، ماہر عمرانیات کے سامنے رکھ کر دیکھ لیں، ان کے پاس سے بھی آپ کو وحشی خاموشی کے علاوہ کچھ اور نہیں ملے گا اور کچھ مل بھی کیسے سکتا ہے، کیونکہ جب ایک عام انسان روز اپنی چھوٹی چھوٹی سی خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں کے ہاتھوں روندا اور کچلا جارہا ہے، جہاں اس کی عزت نفس کو بار بار برہنہ کیا جارہا ہو، جہاں اس کی شرافت، سادگی، معصومیت اور دیانت کو روز موٹی موٹی گالیاں سننے کو مل رہی ہوں۔

جہاں اس کے سوالات درد سے چیخ رہے ہوں، جہاں اس کے خواب کراہ رہے ہوں، جہاں اس کے الفاظ سہمے ہوئے ہوں، جہاں بیس بیس گھنٹے وہ بجلی آنے کا انتظار کررہا ہو، جہاں وہ زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتیں سن کر اپنے ادھڑے ہوئے بٹوے کو کوس رہا ہو، جہاں اس کے گھر والے اس کے مرنے پر اخراجات کی وجہ سے اسے کوس رہے ہوں، جہاں وہ پانی کی ایک ایک بالٹی کے لیے ترس رہا ہو، جہاں وہ اپنے آپ اور اپنے پیاروں کے سامنے روز ذلیل و خوار ہورہا ہو، جہاں وہ روز اپنے آپ کو اور دوسروں کا قتل عام کرنے کے منصوبے بناتا پھررہا ہو، جہاں وہ روز اپنی سوچوں اور خیالات کا گلا گھونٹ رہا ہو اور انھیں اسے دفنانے کی بھی اجازت حاصل نہ ہو، جہاں وہ اپنے ننگے جسم کو ڈھانپنے کی روز ناکام کوشش کررہا ہو تو پھر آپ ہی بتادیجئے کہ ان حالات اور ماحول میں اسے سکون کیسے نصیب ہوسکتا ہے؟

ان حالات اور ماحول میں تو انسان ہراساں ہوکر ایک حقیر گوشے میں چھپ جاتا ہے اور اوراق الفاظ کی تہوں کے نیچے زندگی سے بے تعلقی ڈھونڈتا ہے۔ ہم سب ایسے مقاصد سے محروم ہیں جو ہمیں موت سے آگے کوئی بات سجھا سکیں۔ ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج ہم میں سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوؤں کا جائزہ لے سکے۔ کیونکہ ہماری شخصیتیں کٹی پھٹی ہیں، ہم پھر اس مسئلے سے دوچار ہیں جس نے سقراط کو پریشان کیا تھا، ہم میں سے کوئی نہیں جانتا اور نہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور کیا جہاں ہم جارہے ہیں وہاں ہماری اداس روحوں کو کوئی امن و سکون میسر آسکے گا۔

صوفی کہتے ہیں کہ سکون کا تعلق انسان کے اندر سے ہے، لیکن ہمارے سکون کا تعلق اندر سے نہیں بلکہ باہر سے ہے۔ ان حالات اور ماحول سے ہے جو ہمارے حکمرانوں کی نیت اور کردار سے بنا ہے۔ ہم اپنے ذکر کو یہاں روکتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے 1818 کے یورپ میں چلتے ہیں۔ واٹر لو کی لڑائی لڑی جاچکی تھی، انقلاب مرچکا تھا اور فرزند انقلاب نپولین دور سمندر میں ایک چٹان پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہا تھا۔ تمام یورپ ویران ہوچکا تھا، لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، لاکھوں ایکڑ زمین غیر مزروعہ پڑی تھی یا غارت ہوچکی تھی، دیہات میں غلاظت اور ابتر ی پھیلی ہوئی تھی، زمین دار قلاش ہوچکے تھے، شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے۔

جن ملکوں سے نپولین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گزری تھیں وہاں ہر طرف غارت گری کے آثار نمایاں تھے۔ ماسکو راکھ کا ڈھیر تھا، انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گند م کی رقم اتنی گری کہ زمین دار تباہ ہوگئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا یورپ جسد بے روح ہو۔ ازالہ فریب اور حرماں نصیبی کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں، لیکن اونچے طبقے کے اکثر افراد کا یہ عالم تھا کہ آخرت پر سے ان کا اعتماد ہی اٹھ گیا تھا۔ سچ پو چھیے تو 1818 میں اس کرۂ زمین کی جو دردناک حالت تھی اسے ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لانا دشوار تھا کہ عنان اختیار دراصل خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بولون سے لے کر ماسکو اور اہرام مصر تک ہر زبان خاموشی سے کچھ استفسار کررہی تھی۔ خدایا! یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا۔ لیکن اس ساری وحشت اور دہشت کے باوجود گرے ہوئے غم زدہ، نڈھال، برباد، مایوس، اداس، زخموں سے چور انسان ایک بار پھر دوبارہ سے اٹھے اور ارادے کی قوت سے وحشت اور دہشت زدہ ماحول اور حالات کو یکسر تبدیل کردیا۔ آج ہم سب اسی یورپ میں بسنے کے خواب دیکھتے ہیں۔

اب ہم دوبارہ اپنی طرف لوٹتے ہیں، کیا خدا نے ہمیں حوصلے، جذبے اور ارادے کی قوت سے محروم کیا ہے، کیا خدا نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں سکون نصیب ہو۔ آئیں اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کرتے ہیں اور اس وقت تک اپنی نظریں نیچی نہ کریں، جب تک اپنے سوالوں کا ہمیں جواب نہ ملے۔ میرا ایمان ہے کہ جیسے ہی ہم اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کریں گے، اسی وقت ہمیں اپنے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ تو پھر آئیں دیر کس بات کی ہے، انتظار کس چیز کا ہے۔ کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ آپ کو سکون نصیب ہو۔ آئیں مل کر ماحول اور حالات کو بدل دیں، تاکہ آپ کو اور مجھے سکون نصیب ہو سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔