پوسٹ پاناما

جاوید قاضی  ہفتہ 22 اپريل 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میں نے ابھی فیصلہ تفصیل سے نہیں پڑھا، اس فیصلے پر ایک جامع بحث پھر کبھی۔ لیکن بنیادی نقطہ جو طے ہوا وہ یہ ہے کہ ہم ستر سال کی طویل مسافتوں کے بعد، ارتقا کے زینے پار کرتے ایک نئی سمت کو پہنچے ہیں۔ وہ کام جو ووٹروں نے کرنا تھا، عدالت کر بیٹھی۔ فیصلہ کچھ اس طرح ہوا ہے کہ پانچوں جج اس بات پر متفق ہیں کہ جے آئی ٹی سات دن کے اندر بیٹھے، چودہ دن میں کام شروع کرے اور ساٹھ دنوں کے اندر کام مکمل کرے۔ وہ اپنی تحقیقات اس طرح کرے کہ عدالت عظمیٰ کو لگ بھگ سولہ سوال، جو انھوں نے ججمنٹ میں بیان کیے ہیں، ان کے جواب ہاں یا ناں میں مل سکیں۔

اینگلو سیکسن لاء میں جج اور جیوری الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ اس طرح سے ہی کورٹ نے جے آئی ٹی کو کہا ہے کہ وہ فیکٹ کی فارنزک انویسٹی گیشن وغیرہ سے گزر کر پوائنٹ آف فیکٹ کا تعین کرے۔ ججمنٹ میں لکھا ہے کہ یہ کام نیب کے حوالے کرنا تھا، مگر نیب پر بھروسہ نہیں، اس لیے چیف جسٹس آف پاکستان گزارش کرتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر مشتمل کمیشن جوڑے، جو اس جے آئی ٹی کی نگرانی کرتے ہوئے ہر چودہ دن کے بعد جے آئی ٹی سے رپورٹ طلب کرے، تاکہ تحقیقات شفاف انداز میں یقینی بنائی جاسکیں۔ لیکن پانچ ججوں میں سے دو جج صاحبان تو اور آگے چلے گئے۔ انھوں نے تو میاں صاحب کو صادق اور امین ہی قرار نہ دیا جو کہ ممبر اسمبلی ہونے کے لیے یا پھر پبلک آفس ہولڈ کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ایف آئی اے کس طرح کام کرتی ہے، نیب یا دوسرے ادارے جو کرپشن کی تحقیق کرسکتے ہیں، ان پر کڑی نقطہ چینی کی ہے۔ میاں صاحب پر اخلاقی طورپر راہیں دشوار کردی ہیں ۔ دو مہینوں کے بعد کیا ہوگا؟ ججمنٹ اس پر بہت واضح نظر آرہی ہے۔ اس لارجر بینچ کے ایک محترم ممبر جسٹس گلزار احمد تو یہاں تک بھی کہتے ہیں کہ آرٹیکل 184(3) کے تحت، اس کورٹ کی جیورسڈکشن انتہائی وسیع ہے اور سپریم کورٹ خود تحقیقات بھی کرسکتی ہے اور اس طرح نتیجے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔

بنیادی طور پر معاملہ یہ ہے کہ کرپشن کی تحقیقات پر کام کرنے والے ادارے کھوکھلے ہوگئے ہیں۔ یہ تھی وہ بنیادی بات جو اس کیس کے اندر تھی۔ دوسری بات جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ کورٹ کی ورڈکٹ شروع ہوتی اس نکتے سے ’’Behind every fortune there is a crime‘‘۔

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اگر ووٹروں نے احتساب نہ کیا، تونیب کو کرنا تھا، ایف آئی اے کو کرنا تھا۔ ایف بی آر کو کرنا تھا۔ جب کچھ بھی نہ ہوا تو آئین آ گے آگیا یا یوں کہیے سپریم کورٹ مدد کو پہنچی۔ یہ وہ روداد ہے جس کو ہم کہیں گے ’’پاناما کے بعد‘‘ اس کو ’’پوسٹ پاناما‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یہ قصہ ہار اور جیت کا نہیں ہے کہ حکمرانوں کی چوری پکڑی گئی، باقی دو مہینے ہیں اس چوری کو مکمل طور پر پکڑنے کے لیے۔ تو واہ واہ! عمران خان صاحب۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی 184(3) میں جیورسڈکشن مفاد عامہ کی ہے۔

اس میں کوئی بھی بغیر ذاتی طور پر اپنے حق سے محروم ہونے کی غرض سے نہ بھی پہنچے، صرف یہ ثابت کردے کہ اس میں بہت سارے لوگوں کا نقصان ہے اور اس کے لیے عدالت عظمٰی کو آگے آنا چاہیے۔ عدالت پھر اتنی آگے آجاتی ہے کہ پٹیشنر نے اپنی پٹیشن میں اگر چیزیں واضح نہ بھی کی ہوں تو عدالت پھر بھی مفاد عامہ کی خاطر یا بنیادی حقوق کی خاطر خود جیسے فریادی ہو۔ جب نیب اور ایف آئی اے کا کام پردہ ڈالنے کا ہو تو کیا یہ رونے کا مقام نہیں۔

جمہوریت کے نام پر جمہوریت کے رکھوالوں نے ادارے تباہ کردیے۔ مجھے حیرت ہورہی تھی جب پریس کانفرنس کرتے ہوئے زرداری صاحب یہ فرما رہے تھے ’’گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے‘‘۔

میرے ساتھ لاکھوں لوگ اس کانفرنس کو ٹی وی پر دیکھ رہے تھے، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سب ہنس رہے ہوں گے۔ یہ بات اگر ایدھی کہتا تو لوگوں کی آنکھیں آبدیدہ ہوتیں۔

’’لوہا کیسے کندن بنا‘‘ (How the steel was tempered)

ایک روسی ناول کا عنوان ہے، میں اسے ’’پاکستان کیسے بنا‘‘ سے تشبیہ دوں گا۔ پوسٹ پاناما سے بنا پاکستان، اب جمہوریت کسی کے گھر کی لونڈی نہیں ہوگی۔ افسر شاہی و ادارے چمچوں کے کلب نہیں ہوں گے۔ بھلے سندھ کے دہقان ان کوووٹ دیتے رہیں۔ اب سندھ کارڈ پر کھیلنا ماضی بنا۔ اس بات پر رونا پیٹنا کہ کرپشن کو بنیاد بنا کر جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا، ماضی بنا، اور ’’عزیز ہم وطنوں‘‘ کی بازگشت بھی ماضی بنی۔ ہاں لیکن ان سب کی باقیات باقی ہیں، وہ زخم پھر ابھر سکتے ہیں، پھر بھی میرا یقین کامل ہے کہ پوسٹ پاناما ان کو بہت دور چھوڑ آیا ہے۔

امریکا کی جمہوریت کو امریکا کی جمہوریت، امریکا کی سپریم کورٹ نے بنایا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت کو، ہندوستان کی جمہوریت ہندوستان کی سپریم کورٹ نے بنایا۔

ماربری ورسز میڈیسن کیس، ہندوستان کا کیشوانند کیس، وہ عظیم کیسز ہیں جنھوں نے ان کے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا اور اس طرح کورٹ کو آزادی ملی، Rule of law currency بنی۔ ہماری سپریم کورٹ نے یوں تو اکیسویں ترمیم کے کیس میں ہمارے آئین کے بنیادی ڈھانچے کا ایک طرح سے تعین تو کیا ہے، لیکن کچھ ابہام ابھی بھی باقی ہیں۔

پوسٹ پاناما سے عدالت اپنی عظمت سے، اور اس پاکستان کو بنانے کی جستجو اور عزم سے، جو بھی مالا مال ہے اب ان کے لیے دروازے کھل گئے ہیں اور چوروں کے لیے دروازے بند۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔