مذہب، معاشرہ اور عدم برداشت

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  ہفتہ 22 اپريل 2017
advo786@yahoo.com

[email protected]

دو ہفتہ قبل سرگودھا کی پراسرار درگاہ میں گدی نشینی کے تنازع نے 20 افراد کی جان لے لی تھی جس میں مزار کے گدی نشین پیر عبدالوحید نے اپنی گدی کی خاطر اپنے مریدوں کو مزار پر بلاکر انھیں نشہ آور غذا کھلا کر اپنے ہی مریدوں کے ہاتھوں تشدد کروا کر قتل کروادیا ان کے کپڑوں کو آگ لگادی گئی اور ان کی برہنہ لاشیں کھیت میں پھینک دی گئیں۔

مریدوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دو دن تک جاری رہا۔ مزار کا گدی نشین اور مریدوں کا قاتل پڑھا لکھا اور الیکشن کمیشن میں ڈپٹی ڈائریکٹر رہا ہے۔ جب پولیس پارٹی جائے وقوعہ پر پہنچی تو اس پر بھی حملہ کیا گیا۔ گرفتاری کے وقت پیر عبدالوحید امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا رہا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ملزم پیر لوگوں کو نماز سے روکتا اور شراب پینے کی ترغیب دیتا تھا۔ مریدوں کا کہنا ہے کہ درگاہ پر مختلف قسم کا نشہ سرعام کیا جاتا ہے۔ ڈھول کی تھاپ کے ساتھ مرد و خواتین کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی، پیر مریدوں کو چھریاں مار مار کر کہتا تھا کہ گناہ جھڑ گئے۔ صاحب مزار پیر علی محمد کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اس کی تدفین اس کی وصیت کے مطابق ڈھول بجا کر کی گئی تھی اور موت پر سوگ نہیں منایا گیا تھا۔ اس بربریت ناک واقع کے بعد لوگ طیش میں آگئے، انھوں نے درگاہ میں توڑ پھوڑ کی۔

اس بہیمانہ واقعے کے بعد حسب روایت وزیراعظم، وزیراعلیٰ و وزیر داخلہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ابھی اس واقعے کی گرد بیٹھنے نہ پائی تھی کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں ایک طالب علم مشال خان کو  تشدد کرکے مار ڈالا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد مبارک دی گئی اور واقعے میں ملوث افراد کے نام نہ بتانے کا عہد لیا گیا۔ واقعے کے بعد یونیورسٹی بند اور ہاسٹل خالی کرالیے گئے۔ اس واقعے پر بھی ارباب اختیار نے درجہ بدرجہ مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔ چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ مشال قتل کیس میں 26 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، ملک کے مختلف حصوں میں قتل کے اس بہیمانہ واقعے پر احتجاج کیا گیا ہے۔

ان دونوں واقعات کے اصل حقائق صرف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بعد ہی سامنے آسکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس طرح کے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں جس میں مذہب کا نام غلط طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جن میں عام طور پر شر، جذباتیت، ذاتی عناد اور جہالت کا عنصر شامل ہے۔ قرآن پاک میں شر کو قتل سے بھی عظیم گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اس قسم کے واقعات سے دنیا بھر میں اسلام اور پاکستانی معاشرے کا تاثر خراب ہو رہا ہے۔ کچھ مذہب بیزار عناصر اپنے مذموم مقاصد کے تحت ایسے واقعات کو منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لیکن حکومت، ریاستی ادارے، انتظامیہ اور سیاسی و دینی جماعتیں اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنے میں تساہل کا شکار نظر آتی ہیں۔ حکومتی اداروں پر عدم اعتماد، حق و انصاف نہ ملنے کی توقع، عدم برداشت، مایوسی اور انتہا پسند و پرتشدد ذہنیت کی بنیادی وجہ معاشی ابتری، مذہب و اخلاقیات سے دوری ہے جس کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی اسی قسم کے رویوں کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔

ہماری حکومت جھوٹے الزامات لگا کر بے گناہ مسلموں اور غیر مسلموں کو بربریت کے ساتھ قتل کرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکی جس کی وجہ سے مذہب کے نام پر یہ دو طرفہ تماشا اور ظلم و بربریت کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ چند سال قبل فیصل آباد کی ایک فیکٹری کے منیجر نے اپنی تنخواہ کے تنازع کی وجہ سے فیکٹری مالک پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگا کر اس پر مزدوروں سے تشدد کروا کر مروا دیا تھا، جو بعد میں بے گناہ ثابت ہوا، جب تک اس قسم کے شرپسندوں کو عبرت ناک سزائیں اور جھوٹا الزام لگانے والوں پر قذف کا قانون نہیں لگایا جائے گا، ایسے واقعات مزید بڑھتے رہیں گے۔

ملک کے طول و ارض میں جعلی پیروں، فقیروں، عاملین، آستانوں اور درگاہوں کا کاروبار کھلے عام چل رہا ہے جہاں پر لوگوں کو لوٹا اور بے آبرو کیا جا رہا ہے۔ غریب و مفلوک الحال، مایوس، ان پڑھ اور سادہ لوح افراد کے علاوہ پڑھے لکھے متمول حال بھی ایسے افراد کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں ایسے جعلی پیر فقیر اور عامل ہنستے بستے گھروں میں نفاق ڈال دیتے ہیں لوگ طبی، قانونی، کاروباری، خانگی، عائلی، وراثتی جیسے پیشہ ورانہ مشورے تک ایسے جعلسازوں سے لیتے ہیں جن کی بنیادی تعلیم تک نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں اپنی صحت کاروبار اور خاندان سب برباد کر بیٹھتے ہیں ۔

ان کی عقل اتنی ماؤف کردی جاتی ہے کہ بیماریوں کا علاج کرانے کے بجائے ان جعلی پیروں و عاملوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں پر تشدد کرواتے ہیں جن میں سے بعض موقع پر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان کے کہنے پر طلاقیں اور شادیاں کی جاتی ہیں، اپنے بچوں کو ان عناصر کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے، انھیں زندہ دفن کردیا جاتا ہے۔ ان جعلی پیروں اور عاملین کا نہ کوئی علم ہوتا ہے نہ عمل نہ سماجی مرتبہ و مقام۔ ان میں سے اکثر کا ماضی بھی گندہ و داغدار ہوتا ہے۔ لیکن یہ سادہ لوح غریب افراد کو لوٹ کر امیر کبیر اور معتبر بن جاتے ہیں جہاں انھیں دنیا جہاں کی تمام نعمتیں حاصل ہوتی ہیں بڑے بڑے لوگ ان کے در پر حاضری دیتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں خانقاہی نظام بہت قدیم ہے، اولیا کرام نے معاشرے کی تعلیم و تربیت و کردار سازی اور ان میں باہم رواداری، محبت و یگانگت کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے، گوکہ اس دور میں بھی کچھ مفاداتی عناصر موجود تھے لیکن ان کا تناسب اور حلقہ اثر آج کے مقابلے میں انتہائی کم تھا۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امام خانہ کعبہ نے حالیہ واقعے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’عدل اپنانے میں سب سے بڑا مانع تکبر ہے‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’ہمیں چاہیے کہ اپنی مقدسات، عقیدے اور اصول و اقدار کی حفاظت کے لیے سخت سے سخت فیصلہ کریں، توہین رسالت کی تہمت لگانے والوں سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ ان کے دل بیمار ہیں، انھیں ہدایت نہیں ملتی۔‘‘

آج کل کے برقیاتی دور میں میڈیا، دانشوروں، علما اور عام مسلمانوں کی اولین ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مذہب کی آڑ میں جاری توہین رسالت کے غلط استعمال اور جعلی پیروں، فقیروں، عاملین اور مذہب کو کسب بنانے والوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور ان کا تدارک کرکے سادہ لوح و مصائب زدہ افراد کو ان کے چنگل میں پھنس کر دین و دنیا برباد کرنے سے بچائیں۔ ریاست کی کلیدی ذمے داری ہے کہ شہریوں کو قانون پر بلا امتیاز و بلاتاخیر عملدرآمد کرکے دکھائے تاکہ عوام میں اعتماد پیدا ہوکہ جرم کرنے والا سزا سے نہیں بچ پائے گا اور وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے باز رہیں۔ تمام جعلی پیروں، فقیروں اور عاملوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے ، منشیات، ناچ گانے، جوئے خانے اور لوٹ کھسوٹ کا دھندہ ختم کرایا جائے، محکمہ اوقات کو متحرک و فعال بناکر آڈٹ کا مربوط نظام قائم کیا جائے۔ اس بات پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے کہ عوام سے مایوسی، غربت اور جہالت کو ختم کیا جائے جو اکثر مسائل کی جڑ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔