طویل قامت پیسر عرفان کی لمبی جدوجہد کا احوال

شہزاد امجد  ہفتہ 19 جنوری 2013
ماں کی بیماری کے سبب فوج کی نوکری گنوائی مگر تقدیر نے محمد عرفان کو کرکٹر بنا دیا۔ فوٹو : فائل

ماں کی بیماری کے سبب فوج کی نوکری گنوائی مگر تقدیر نے محمد عرفان کو کرکٹر بنا دیا۔ فوٹو : فائل

 پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ مختلف ادوار میںایک سے بڑھ کر ایک فاسٹ بولرزقومی ٹیم کو میسر آتے رہے ہیں۔

حال ہی میں بھارتی سرزمین پر تہلکہ مچانے والے محمد عرفان اسی کھیپ میں نیا اضافہ قرار دیئے جارہے ہیں، وقار یونس کی آبائی تحصیل بورے والہ کے نواحی اڈا ماناموڑ کے قریبی گاؤں 203/E.Bشرقی میں آنکھ کھولنے والے دنیائے کرکٹ کے سب سے طویل قامت فاسٹ بولر نے شیشم کی لکڑی سے بنائے بیٹ، ٹینس بال کے ساتھ کھیتوں اور ٹرین کی پٹڑیوں کے ساتھ خالی جگہوں پرکھیل کا آغاز کرکے مسلسل محنت کے ساتھ قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

عرفان 6جون 1982ء کو پیدا ہوئے اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول چک نمبر 255/E.Bسے کیا، اسی ادارے کی ٹیم میں ہارڈ بال کرکٹ کا آغاز کیا، والد چوہدری محمد اسلم ایک کاشتکار ہیں، پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں میں فاسٹ بولر سب سے چھوٹے اور گھر بھر کے لاڈلا ہے،محمد عرفان کو کرکٹ میں لانے والے بھائی محمد اکرام 2002ء میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے تھے، پیسر نے 9سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کی، گاؤں میں کوئی گراؤنڈ نہ ہونے کے باعث قریب سے گزرنے والی ریلوے لائن کے ساتھ یا فصل کی کٹائی کے بعد خالی کھیتوں میں شوق پورا کیا کرتے تھے، 13سال کی عمر میں گاؤں کی ٹیپ بال ٹیم الفرید کلب میں شامل ہوئے، 98میں نویں جماعت میں پہنچے تو اپنے سکول کی ٹیم میں شمولیت اختیار کی، ضلع وہاڑی کی سطح پر انٹر سکولز ٹورنامنٹ کے پہلے ہی میچ میں میں ان کی عمدہ کار کردگی بھی ٹیم کو شکست سے نہ بچا سکی لیکن گگو کرکٹ اکیڈمی کے انسٹرکٹر ملک شفقت نے ٹیلنٹ دیکھ کر انہیں تربیت کے لیے بلالیا۔

1999ء میں میٹرک کے بعد عرفان نے روزگار کے لیے قریبی گاؤں میں واقع ایک پلاسٹک پائپ بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کرکے کرکٹ کا شوق پورا کرنے کے لیے اپنے دوست محسن اور تایا زاد محسن رزاق کے ہمراہ گگو کرکٹ اکیڈمی جوائن کرلی، تینوں روزانہ سائیکل پر کھیلنے کے لیے جاتے۔ انہی دنوں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا، عرفان اڈا ماناموڑ سے پیدل اپنے گاؤں کی طرف جارہے تھے کہ پاک فوج کا دستہ گزرا جس کے اعلیٰ افسر نے قد دیکھ کر انہیں اپنے پاس بلا کر نوکری کی پیشکش کردی، اٹک آرٹلری پہنچے تو بتایا گیا کہ طویل قامت کی وجہ سے انہیں باسکٹ بال ٹیم میں شامل کیا جا رہا ہے، عرفان نے یہ پیشکش قبول کرلی اور گھر جاکر واپس آنے کا کہا مگر والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، انہوں نے روک لیا جو نیک شگون ہی ثابت ہوا، اگر وہ پاک فوج کی باسکٹ بال ٹیم میں شامل ہوجاتے تو آج قومی کرکٹ ٹیم میں نہ ہوتے۔

بہر حال چند سال گگو اکیڈمی کی طرف سے کھیلتے رہے جہاں برطانیہ کی ایک ٹیم میچ کھیلنے آئی،پلیئرز نے عاقب جاوید کو محمد عرفان کے قد کاٹھ کا بتایا، دوسری طرف عامر سہیل نے بھی گگو اکیڈمی کا دورہ کیا، ملک شفقت نے انہیں پیسر کی صلاحیتوں سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں انہیں نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تربیت کا موقع دے دیا گیا، محمد عرفان کا کہنا ہے کہ این سی اے میں تمام سینئر کھلاڑیوں کی طرف سے بھرپور تعاون ملا جس سے ان کی صلاحتیں نکھر کا سامنے آئیں۔ این سی اے کی طرف سے انہیں اے ٹیم کے ساتھ ملائیشیا جانے کا موقع ملا، 2009ء میں قائداعظم ٹرافی میں بلوچستان ٹیم کی طرف سے کھیلتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور میچ میں 10وکٹیں حاصل کیں، بعد ازاں مختلف اداروں کی ٹیموں میں شمولیت کی پیشکش کی گئی، تاہم کے آر ایل کے کپتان اظہر علی نے انتظامیہ کو پیسر کی خدمات حاصل کرنے کے لیے راضی کرلیا، پاک انگلینڈ سیریز 2010ء میں دو اہم بولرز محمد آصف اور محمد عامر پر سپاٹ فکسنگ الزامات کے بعد عرفان کو قومی ٹیم میں شامل کیا گیا جہاں وہ بہت اچھی کاکردگی تو نہ دکھا سکے تاہم ان کا لمبا قد زیر بحث ضرور رہا۔

انگلینڈ سے واپسی کے بعد انہوں نے کے آر ایل کی طرف سے کھیل جاری رکھا، 2011ء میں ہونے والی انڈین پریمیئر لیگ میں وسیم اکرم کی سفارش پر انہیں کولکتہ نائٹ رائیڈرز ٹیم میں شامل کرلیا گیا مگر تمام پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیلنے کی اجازت ہی نہ ملی، 2012ء میں پہلی بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کے لیے بھی انہیں منتخب کیا گیا مگر ویزا جمع کرانے میں دیر کے باعث نہ جاسکے،تاہم ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا جس کے باعث پچھلے سال دسمبر میں پاک بھارت سیریز میں موقع فراہم کیا گیا جہاں انہوں نے اپنے لمبے قد کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی بلے بازوں کو مشکلات سے دوچار کیا۔ اس وقت وہ دنیائے کرکٹ کے سب سے طویل قامت کھلاڑی اور فاسٹ بولر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

محمد عرفان کے والد نے بتایا کہ پیسر جب بھی گاؤں میں ہوں، پانچ وقت کی نماز پڑھتے، ہر جمعہ کو فجر کی نماز کے بعد مسجد کی صفائی بھی کرتے ہیں، اس کام کے لیے انہوں نے جھاڑو اور کھجور کی شاخ گھر میں رکھی ہوئی ہے، گھر بھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلے ہیں اور ہمیشہ خوش رہتے ہیں کسی مسئلے میں بھی پریشان نہیں ہوتے، انگلینڈ میں سیریز کے بعد انہیں دوبارہ قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تو تھوڑی بہت پریشانی تو تھی مگر وہ مایوس نہیں تھے اور ہمیشہ کہتے کہ وہ ایک بار پھر قومی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوں گے۔ ان کے دوست محسن رزاق کا کہنا ہے کہ ہم جن دنوں گگو اکیڈمی میں کھیل رہے تھے تو میچ کے لیے پائپ فیکٹری سے بڑی مشکل سے چھٹی ملتی تھی، ایک بار تو انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا اگر دوبارہ میچ کھیلنے گئے تو نوکری سے نکال دیں گے مگر محمد عرفان نے اس کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔
اساتذہ محمد انور طاہر، محمد اسلم، حافظ محمد اشرف، محمد ارشد اور ہیڈماسٹر محمد اختر علی کا کہنا تھا محمد عرفان ایک اوسط درجے کے طالبعلم تھے، کھیلوں کی طرف دھیان زیادہ تھا اور کرکٹ میں ان کی کارکردگی شروع سے ہی اچھی رہی، اساتذہ کے ساتھ ہمیشہ احترام کا رویہ رہا اور ہم جماعتوں کے ساتھ بھی ہمیشہ اچھے طریقے سے پیش آتے تھے، عرفان کی وجہ سے اساتذہ کو اور کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر جب انہیں سزا دینا ہوتی تھی تو انہیںڈنڈا مارنے میں بڑی مشکل ہوتی۔ انڈیا میں کاکردگی دکھانے کے بعد جب محمد عرفان اپنے گاؤں واپس پہنچے تو ڈھول کی تھاپ اور بینڈ باجے کے ساتھ گاؤں بھر نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور اب پاکستان اور جنوبی افریقہ کے مابین کھیلی جانے والی سیریز میں انہیں قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس سیریز میں مزید محنت کے ساتھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنا اپنے گاؤں اور ملک کا نام روشن کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔