باہمی ربط کا ذریعہ مہلک ہتھیار کیسے بنتا ہے؟

رانا نسیم  اتوار 20 جنوری 2013
موبائل فون کے بے جا استعمال کی روش نے معاشرے کے لیے نئے اخلاقی مسائل کھڑے کر دیئے. فوٹو : فائل

موبائل فون کے بے جا استعمال کی روش نے معاشرے کے لیے نئے اخلاقی مسائل کھڑے کر دیئے. فوٹو : فائل

میاں بیوی صوفے پر بیٹھے ٹیلی ویژن دیکھ رہے تھے‘ بیوی کا موبائل درمیان میں پڑا تھا۔

فون کی گھنٹی بند تھی‘ خاوند کی نظر اچانک فون پر پڑی تو اسکرین پر ایک نام جل بجھ رہا تھا۔ یہ کسی خاتون کانام تھا‘ خاوند نے کہا ’’تمہارا فون آ رہا ہے‘‘ بیوی نے اسکرین پر نظر ڈالی اور فون سنے بغیر کال کاٹ دی۔ خاوند نے پوچھا ’’کس کا فون تھا‘‘ بیوی نے جواب دیا ’’میری پرانی سہیلی ہے‘‘ خاوند نے پوچھا ’’تم نے فون کیوں نہیں اٹھایا‘‘ بیوی نے کہا ’’میں ٹی وی دیکھ رہی ہوں‘ بعد میں اسے خود فون کر لوں گی‘‘ خاوند بیوی کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا، اس نے بیوی کے ہاتھ سے فون چھینا اور اس نمبر پر کال کر دی۔ بیوی نے خاوند کے ہاتھ سے فون چھیننے کی کوشش کی لیکن خاوند صوفے سے اٹھ کر دور کھڑا ہو گیا۔

کال ملی اور دوسری طرف سے ایک مردانہ آواز سنائی دی، جسے سن کر خاوند کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔ بیوی پریشانی کے عالم میں صوفے پر بیٹھ گئی‘ خاوند نے غصے سے پوچھا’’تم کون ہو؟‘‘ دوسری طرف چنداں خاموشی چھا گئی‘ خاوند نے اس سے دوسری مرتبہ پوچھا ’’تم کون ہو‘‘ دوسری طرف سے ایک لمبی سانس آئی اور وہ بولا ’’آپ اپنی بیوی سے پوچھ لیں‘‘۔ خاوند نے فون بند کیا اور بیوی کو ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیا۔ بیوی چیختی چلاتی رہی‘ خاوند سے بات سننے کی درخواست کرتی رہی لیکن خاوند کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا‘ اس دوران بیوی نے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کی تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ شیشے کی میز پر جاگری۔

شیشے کا بارہ انچ کا ایک ٹکڑا اس کے سینے میں پیوست ہو گیا‘ خاوند نے بیوی کو تڑپتے دیکھ کرگاڑی میں ڈالا اور اسپتال کی طرف دوڑ پڑا لیکن بیوی راستے میں دم توڑ گئی۔ دوپہر کو جب بچے اسکول سے واپس آئے تو ان کی ماں دنیا سے رخصت ہو چکی تھی اور والد تھانے میں بند تھا۔ خاتون کے مرنے کے بعد جب اس ٹیلی فون کال کے بارے میں تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا وہ نمبر اس کی ایک سہیلی بشریٰ کا تھا‘ بشریٰ ایک سال کے لئے ملک سے باہر چلی گئی‘ اس دوران وہ نمبر بند رہا‘ سفر کے دوران اس کی سم بھی گم ہو گئی‘ موبائل کمپنی نے یہ نمبر کسی دوسرے شخص کو الاٹ کر دیا‘ بشریٰ واپس آئی تو اس نے نیا نمبر لے لیا‘ اس خاتون کی تیسری سہیلی نے اسے بشریٰ کی واپسی کی اطلاع دی تو اس نے بشریٰ کے پرانے نمبر پر فون کر دیا جو کسی مرد نے اٹھایا۔ بس اس کے بعد اس شخص نے خاتون کو پریشان کرنا شروع کردیا۔

خاتون فون کو نظر انداز کرتی رہتی لیکن شکی مزاج شوہر کے خوف کی وجہ سے اسے کچھ نہیں بتایا اور پھر وہ دن آ گیا‘ اس دن اس کا خاوند دفتر نہیںگیا تھا۔ میاں بیوی بچوں کو اسکول بھجوا کر ٹی وی دیکھ رہے تھے اور اس دوران اس شخص نے فون کر دیا اور یوں یہ حادثہ پیش آگیا، جس نے ایک خاندان تباہ کردیا۔ دوسری طرف معلوم ہوا کہ وہ تنگ کرنے والا شخص یونیورسٹی کا ایک عام سا طالب علم تھا جس نے یہ نمبر کسی سے خریدا تھا۔ فون استعمال کرنے کے چند دن بعد اسے یہ کال ریسیو ہو گئی اور اس نے خاتون کو تنگ کرنا شروع کردیا۔

اس المناک حادثہ کی بنیادی وجہ موبائل فون ہے، جو بلاشبہ دور حاضر کی اہم ترین ٹیکنالوجی قرار دی جا سکتی ہے۔ موبائل فون نے انسانی زندگی کا رخ ہی بدل دیا ہے۔ تقریباً 4دہائیوں قبل جب موبائل فون ایجاد ہوا تو یہ اتنا بھاری تھا کہ اس کو بیگ میں رکھنا پڑتا تھا اور قیمت بھی اتنا کہ صرف امراء کے پاس ہی ہوتا تھا۔ اوائل 90ء کی دہائی تک موبائل فون ہر کسی کی دسترس میں نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا، جب پاکستان میں پجارو گروپ کے بعد موبائل گروپ کا سورج طلوع ہو رہا تھا اور یہ خبر اخبارات کی سرخی کے لئے اہم ہوتی تھی کہ فلاں سیاست دان یا امیر آدمی کے پاس دو دو موبائل سیٹ ہیں۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے موبائل فون انسانی زندگی پر یوں راج کرنے لگا کہ ہر چھوٹے بڑے کے پاس موبائل فون موجود ہے اور ہم اس کے بغیر خود کو ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ تاجر سے مزدور تک سب کے پاس مختلف قیمتوں، رنگوں اور کمپنیوں کے فرق کے ساتھ موبائل فون موجود ہے۔ کاروباری سرگرمیاں ہوں یا عزیزو اقارب سے رابطے، موبائل فون کے بغیر روزمرہ زندگی کا جیسے کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ موبائل کے استعمال کا رجحان اس قدر زور پکڑ چکا ہے کہ دنیا میں اب انسانوں کی تعدادکم اور موبائل کی بڑھ رہی ہے۔

موبائل اور وائرلیس انڈسٹری کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے پورشیو ریسرچ نے کہا ہے کہ 2012ء کے آخر تک دنیا بھر میں موبائل فونز استعمال کرنے والوں کی تعداد 6 ارب 50 کروڑ ہو چکی ہے۔ دی گیبان پوسٹ ویب سائٹ نے پورشیو ریسرچ کے حوالے سے بتایا کہ 2016ء تک موبائل فونز استعمال کرنے والوں کی تعداد 8 ارب پچاس کروڑ ہونے کا امکان ہے۔ باقی دنیا کے ساتھ ساتھ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔

پاکستان، جس کی 18کروڑ آبادی میں سے تقریباً 12کروڑ50لاکھ شہری موبائل استعمال کرنے والے ہیں۔ رواں مالی سال 2012-13کے پہلے 4 ماہ جولائی سے اکتوبر تک پاکستان میں درآمد کیے جانے والے موبائل فونز کی مالیت 21ارب روپے سے زائد ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ مالی سال 2011-12 میں جولائی سے اکتوبر تک 19ارب روپے کے موبائل درآمد کئے گئے تھے۔ گزشتہ کی نسبت رواں مالی سال اتنے ہی عرصہ میں موبائل فونز کی درآمد میںگیارہ فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح مالی سال 2010-11 کے پہلے چار ماہ میں تقریباً 14ارب روپے مالیت کے موبائل فون درآمد کئے گئے تھے۔ پاکستان میں 10لاکھ کے قریب ماہانہ نئی سمیں ایکٹیویٹ کی جارہی ہیں۔ ان اعداد و شمار کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے لئے روٹی کم اور موبائل فون زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ یہی حال موبائل فون کا بھی ہے جس کی ایجاد نے عام آدمی کی زندگی کو تو آسان بنا دیا لیکن ضرورت کی چیز کے غیر ضروری استعمال نے آج ہمیں اخلاقی اور سماجی پستیوں میں دھکیل دیا ہے۔ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ موبائل فون کی وجہ سے اخلاقی اور سماجی جرائم میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ معمولی چوری سے لے کر دہشت گردی تک موبائل فون کا استعمال عام ہو چکا ہے۔ موبائل کا غلط اور مجرمانہ استعمال ہمارے معاشرے میں بہت سی اخلاق سوز برائیوں اورگھمبیر مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ جن میں سے چند ایک کا ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔

دہشت گردی سمیت دیگر جرائم میں اضافہ
موبائل فون کی فراوانی سے دہشت گردی، اغواء برائے تاوان، راہزنی، ڈکیتی اور چوری جیسے جرائم روز بہ روز بڑھ رہے ہیں۔ موبائل نے ہر شہری کو قیمتی بنا دیا ہے۔ پہلے ایک عام آدمی رات کو جہاں مرضی گھوم پھر سکتا تھا، لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ڈکیتی کرنے والے یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس شخص کے پاس اور کچھ ہو یا نہ ہو موبائل فون ضرور ہوگا۔ موبائل چھیننے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کی تعداد گننے میں نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کا ناسور جو پہلے ہی ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے در پر ہے، اس موبائل فون کی وجہ سے اس میں بھی شدت اور جدت آگئی ہے۔
ہمارے سکیورٹی ادارے بھی اس بات کی متعدد بار تصدیق کرچکے ہیں کہ موبائل فون دہشت گرد کا ہتھیار بن چکا ہے۔

دہشت گرد موبائل فون کے ذریعے بڑے بڑے دھماکے کررہے ہیں جن میں ان کا تو کوئی نقصان نہیں ہوتا البتہ ایک ہی واقعے میں ہماری درجنوں قیمتی جانیں ضایع ہو جاتی ہیں۔ دہشت گرد موبائل فون کوگھریلو ساختہ بم IED (improvised explosive device) پھاڑنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ہوتا یہ ہے کہ بم کا ٹریگر موبائل کی بیٹری سے جوڑ دیا جاتا ہے، پھر جب کال کی جائے تو بم کہیں بھی رکھا ہو، اس کا ٹریگر آن ہو کر ڈیٹونیٹر پھاڑ دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ڈیٹونیٹر اصل بم پھاڑ کر تباہی پھیلا دیتا ہے۔ موبائل فون کے ذریعے دھماکہ خیز مواد اڑانے کا یہ عمل موبائل فون پر کال کرنے کے علاوہ انفراریڈ اور بلیوٹوتھ کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے لیکن ان دونوں صورتوں میں سگنل رینج انتہائی کم ہوتی ہے۔ اور اگر ایسا کیا جائے تو جو شخص یہ کام کرنے جا رہا ہے وہ خود بھی اس کی زد میں آجائے گا۔ اسی وجہ سے دہشت گرد موبائل فون پر کال کے ذریعے بم اڑاتے ہیں کیونکہ کال تو ملک بھر میں کہیں سے بھی کی جاسکتی ہے۔ غرض موبائل کی شکل میں مجرموں کے ہاتھ ایک ہتھیار لگ گیا ہے۔ اس طریقے کے ذریعے اڑتے جہاز میں بھی بم پھاڑنا ممکن ہے۔ تاہم موبائل فون کمپنی اپنی سروس بند کر دے یا اس کے ٹاوروں سے نکلنے والے سگنل جام کردیئے جائیں تو پھر گھریلو ساختہ بم کام نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خطرے کی صورت میں موبائل فون سروس بند کردی جاتی ہے۔

معاشی نقصان

موبائل فون کا استعمال ضرورت سے زیادہ فیشن کے طور پر کیا جارہا ہے اور فیشن کے معاملے پر کوئی بھی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص دوسرے سے کہیں اچھا اور مہنگا موبائل رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ فیشن کی یہ دوڑ معاشی نقصان کا باعث بن رہی ہے۔

صحت انسانی پر بد اثرات
موبائل کے استعمال سے جسمانی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کے مطابق ضرورت کے برعکس موبائل فون کے استعمال کی زیادتی کے سبب ذہنی دبائو، نیند میں کمی، دل، سردرد سمیت کئی دوسری بیماریاں سر اٹھاتی ہیں۔

تعلیمی نقصان
موبائل فون کا سب سے زیادہ بے جا استعمال کرنے والے نوجوان ہیں، جو تعلیم سے منسلک ہوتے ہیں۔ موبائل فونز کے مختلف پیکیجز کی وجہ سے رات رات بھر بات کرنے والے صبح وقت پر اسکول، کالج پہنچ پاتے ہیں نہ کلاس میں دل جمعی سے پڑھ پاتے ہیں۔ پھر تعلیمی اداروںمیں جہاں پر موبائل کے استعمال پر کوئی روک ٹوک یا پابندی نہیں ہے، وہاں طلبہ دوران لیکچر موبائل پر ایس ایم ایس یا گیم سے مستفید ہورہے ہوتے ہیں۔ جس تعلیمی ادارے میں موبائل فون لے کر آنے پر پابندی ہو وہاں طلبہ پڑھائی کی بجائے موبائل کو چھپا کر ایس ایم ایس یا گیم وغیرہ پر اپنا وقت ضایع کر تے رہتے ہیں۔

فحاشی و عریانی میں اضافہ
موبائل فون کے غیر ضروری استعمال سے معاشرے میں فحاشی اور عریانی میں بھی غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ موبائل فونز میں ایک سے زائد سموں کے ساتھ کیمرے، ایم پی تھری اور فور، انٹرنیٹ سمیت کئی دوسری ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں کہ جن کا موبائل سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں، لیکن یہ نوجوان نسل کی اخلاقی تباہی کا باعث ضرور بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے موبائل جن میں کیمرے، آڈیو، ویڈیو اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے، اس سے غیر اخلاقی ویڈیوز اور کالز ریکارڈنگ کر کے مطلوبہ افراد کو بلیک میل کرکے ناجائز مطالبات منوائے جاتے ہیں۔ فون پر اپنی شناخت چھپا کر بات کرنے سے ایسے ایسے اخلاق سوز واقعات پیش آتے ہیں کہ راز افشا ہونے پر لوگ خودکشی تک چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ فحش قسم کی تصویریں اور ویڈیو کلپس سے بھی معاشرے پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

موبائل فون کے غلط استعمال کی اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں، جن کو شمار کرنا ابھی باقی ہے۔ مگر یہاں پر ان پانچ اقسام کے نقصانات کا ذکر کیا گیا ہے جو ہم عمومی طور پر معاشرے میں دیکھ اور جھیل رہے ہیں۔ ان نقصانات سے بچنے کے لئے کچھ ایسی تدبیریں اختیار کرنا ضروری ہے جن کی موجودگی میں ہم اپنی ضرورت کی اس اہم ایجاد کو استعمال تو کریں مگر اس کے معاشرے پر پڑنے والے برے اثرات سے بھی بچا جاسکے۔ اس مقصد کے لئے ہمیں عوامی، حکومتی اور موبائل کمپنیوں کی سطح پرکام کرنا پڑے گا، کیونکہ اصلاح احوال کی ضرورت کو پس پشت ڈالنے والے ملک کبھی پائندہ اور تابندہ نہیں رہتے۔ عوامی سطح پر والدین کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا ان کے بچوں کو واقعی موبائل کی ضرورت ہے۔

پھر موبائل فون دینے کے بعد ان کے پاس اس چیز کا ریکارڈ بھی موجود ہو کہ ان کا وہ عزیز جس کو موبائل فون دیا گیا ہے وہ کس سے بات کر رہا ہے؟ کیا بات کر رہا ہے؟ اور آیا اس کے موبائل فون پر کوئی اس کو پریشان تو نہیں کر رہا۔ والدین خصوصاً ماںکو چاہیے کہ کم عمر لڑکیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت بِتاتے ہوئے اْن کے مسائل جاننے کی کوشش کریں۔ والدین اور اساتذہ کو نوجوان نسل کو سیل فون اور دیگر ٹیکنالوجیز کے مثبت اور منفی استعمال سے بھی آگاہ کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ نوجوان اپنے وقت کو موبائل کی فضول کالوں اور غیر اخلاقی حرکات سے ضایع نہ کریں۔ بلکہ اپنی مکمل توجہ اپنی تعلیم یا ادارے کے امور پر مرکوز رکھیں تاکہ مہنگائی اور کرپشن کے اس دور میں کم از کم اپنے بڑھتے اخراجات کو پورا کیا جاسکے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ منفی سر گرمیوں سے دور رکھنے کیلئے نوجوانوں کو مثبت اور تعمیری مشاغل میں مصروف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

دوسری جانب حکومتی سطح پر سکیورٹی اداروں کو موبائل فون کے غلط استعمال کو ختم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ موبائل سم کے اجراء کیلئے سخت شرائط عائد کی جائیں۔ اس ضمن میں حال ہی میں وزارت داخلہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن نے کچھ اقدامات کئے ہیں، جو خوش آئندہ ہیں۔ ان اقدامات سے عوام اور موبائل کمپنیوں کو کچھ مشکل بھی پیش آئے گی، لیکن ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہمیں خوش دلی کے ساتھ ان مشکلات کا سامنا کرنا چاہیے۔ پی ٹی اے کی ہدایت پر ملک بھر میں ایک لاکھ کے قریب دکانوں پر سموں کی فروخت بند کر دی گئی ہے جس کے باعث پاکستان کی پانچوں موبائل کمپنیوں کی سموں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر جہاں پہلے 75سو سمیں فروخت ہوتی تھی وہاں اب ان کی فروخت 45 سو پر آگئی ہے۔ کمپنیوں کی طرف سے مختلف اقسام کے پیکیجزکے ذریعے لوگوں کو موبائل فون کے زیادہ استعمال کی ترغیب کے رجحان کو ختم کیا جائے۔ 15سال قبل موبائل کال 15روپے کی اور سموسہ 50پیسے کا تھا جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ موبائل کال50 پیسے کی اور سموسہ 15روپے کا ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ایس ایم ایس بنڈلز جیسے پیکیجز بھی موبائل فون کے استعمال میں زیادتی کو فروغ دے رہے ہیں۔ آج بھی دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ تقریباً سبھی ترقی یافتہ ممالک میں ٹیلی فون کی ان کمنگ کال اور ایس ایم ایس پر کوئی سبسڈی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام صارف کسی انجانے نمبر سے آئے ہوئے ایس ایم ایس کو کھولنے سے پہلے سوچتا ضرور ہے۔ پاکستان میں بھی موبائل کمپنیوں کو اس ملک کی بقاء و سلامتی کے لئے اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔