عمران خان، حوالہ کیس اور کاغذ کی فصیل

راجہ قیصر احمد  ہفتہ 22 اپريل 2017
کل جب (ن) لیگ کے وزراء نے لپک کر مائک پر قبضہ کیا اور قوم کو بتایا کہ وزیراعظم بچ نکلے ہیں تو مجھے حاجی صاحب کا یہ سنایا واقعہ بار بار یاد آیا۔

کل جب (ن) لیگ کے وزراء نے لپک کر مائک پر قبضہ کیا اور قوم کو بتایا کہ وزیراعظم بچ نکلے ہیں تو مجھے حاجی صاحب کا یہ سنایا واقعہ بار بار یاد آیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی کیا نابغہ روزگار شخصیت اور کیا پڑھے لکھے آدمی ہیں؟ ابھی کچھ عرصہ ہی پہلے انہوں نے یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیتے ہوئے خلیل جبران کی نظم ’’Pity the Nation‘‘ فیصلے کے دیباچے میں لکھ ڈالی تھی۔ اور اب ’’ماریو پوزو۔‘‘ گو کہ میں نے گاڈ فادر نہیں پڑھا اور میری کوتاہ علمی ہے کہ میں نے آج تک ماریو پوزو کا صرف ایک ناول The Runaway Summer of Davie Shaw اور ایک ہی کہانی ’The Unkillable Six‘ پڑھی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ انتہائی سطحی سوچ کی حامل اِس قوم میں آصف سعید کھوسہ اور احمد جاوید صاحب جیسے نابغہ روزگار لوگ بھی موجود ہیں۔ آہ احمد جاوید صاحب! کہا ’آوازوں کا قحط جھیلا جاسکتا ہے خاموشی کا کال نہیں۔“ کچھ ہی دن پہلے ایک شعر پڑھا تھا جس کی دل گرفتگی میں آج بھی زندہ ہوں

کاغذ کی یہ مہک یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

پرسوں پانامہ کیس کے فیصلے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہوئے مجھے منٹو کا افسانہ ’نیا قانون‘ رہ رہ کر یاد آتا رہا۔ سیاسی قیادت گورا صاحب اور بشمول میرے ساری قوم استاد منگو۔ ایک سال بعد کتاب سے تعلق بحال ہوا تو محمد الیاس کا ناول ’کہر‘ پڑھا اور یقین کریں میں اب تک اُس ناول کے سحر سے نکلنے سے قاصر ہوں۔ سماجی ناہمواریاں، نظریاتی تفاوت، سیاسی چپقلش اور مایوسی در مایوسی۔ نین اکرم اور پاکھڑا۔ خان اسلم اور محمد شفیع۔ یوں لگا جیسے کسی نے آئینہ بیچ چوراہے پر رکھ دیا ہو۔ احمد جاوید صاحب پھر یاد آئے

آدمی خوش نہیں یہ المیہ ہے
آدمی غمگین بھی نہیں یہ عذاب ہے

پانامہ کا فیصلہ کیسا ہے؟ کیا یہ فیصلہ ہے بھی یا نہیں؟ کیا مابعد نو آبادیاتی ریاستوں میں قانون کی عملداری اتنی مستحکم ہوسکتی ہے کہ وہ ’’Martin v. Hunter’s Lessee (1816)“ قسم کا فیصلہ دے سکیں؟ انڈیا کی تاریخ، سیاست اور جمہوریت کے ایک ادنی سے طالب علم کی حیثیت سے مجھے ’جین حوالہ کیس‘ پانامہ کے ہم پلہ نظر آیا۔ 1991ء کا یہ اسکینڈل جو اُس وقت کی سیاسی قیادت کے منہ پر کالک مل گیا۔ 18 ملین ڈالر کا اسکینڈل جس کی زد میں لال کرشن ایڈوانی، مدن لال کھرانا، بلرام جکھر اور شرد یادو جیسے سیاست دانوں کے نام آئے۔ ’’ونیت نارائن کیس‘‘ فائل ہوا۔ سپریم کورٹ نے ہر ممکن کوشش کی، عدالتی فعالیت اپنے عروج پر نظر آئی مگر پھر بھی سارے ملزمان 1997ء میں بری ہوگئے۔

پاکستانی نیب کی طرح انڈین سی بی آئی بھی کھل کر سیاست دانوں کے ساتھ کھڑی نظر آئی اور یوں وہی ہوا جو ارسطو نے کہا تھا کہ

’’قانون مکڑی کا جالہ ہے جس میں کیڑے مکوڑے پھنستے ہیں اور بڑے جانور اِسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔“

’Biased States‘ جمہوری اور جمہوری تغیر میں ایک نظریہ اور درجہ بندی کی سی حثیت رکھتا ہے۔ جون ایلیا بھی یاد آئے، کہا کہ

’آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیوں ہوا ہم نے من حیث القوم اپنی تمناوں کا تمام سرمایہ سیاست دانوں کے حوالے کردیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ سیاست دانوں کا طبقہ تاریخ میں ہمیشہ ایک بے حس طبقہ رہا ہے۔ شاید وقت آگیا ہے کہ اِنہیں سر کے بل سڑے ہوئے جوہڑوں میں دھکیل دیا جائے۔“

زاہد امروز کی نظم ’صدرِ مملکت ہمیں گلے کیوں نہیں لگاتے‘ پڑھے جانے کے لائق ہے۔ کسی نامانوس شاعر کا شعر برملا یاد آیا

اِس شہر میں چلتی ہے ہوا اور طرح کی
جرم اور طرح کے ہیں سزا اور طرح کی

ہمارے ایک دوست نے امریکہ سے ایک واقعہ لکھ کر بھیجا ہے۔ ملاحظہ ہو۔

ایک گاوں کا شخص دوسرے گاوں میں چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ لوگوں نے بہت مارا۔ سر کے بال اور بھنویں مونڈھ دیں۔ منہ کالا کیا، جوتوں کا ہار ڈالا اور گدھے پر پھرایا۔ جب واپس اپنے گاوں آیا تو کسی نے پوچھا سُنا ہے بڑی بے عزتی ہوئی تمہاری؟ انہوں نے تمہیں بہت مارا ہے؟ کہنے لگا دیکھیں جی چار تھپڑ لگنا بھی کوئی مار ہوتی ہے مجھے تو محسوس بھی نہیں ہوئے۔ لیکن سُنا ہے کہ انہوں نے تمہارے بال بھی مونڈھ دئیے؟ ارے میاں عقل کو ہاتھ ماریں مفت میں انہوں نے سر مونڈھ دیا، یہ کام کرنے کے نائی پچاس روپے لے لیتا، یہ کام مفت میں ہوگیا اور آپ اِسے سزا کہہ رہے ہیں۔ مگر سُنا ہے کہ انہوں نے تمہارا منہ بھی کالا کیا تھا؟ ارے نہیں بھئی دو کالک کی لکیریں دائیں طرف لگائی تھیں اور دو بائیں طرف اب اِسے کون منہ کالا کرنا کہتا ہے؟ مگر ہمیں تو کسی نے بتایا کہ تمہیں جوتوں کا ہار بھی ڈالا تھا۔ سب بکواس۔ دو میرے جوتے تھے اور دو اُن کے۔ چار جوتوں کا بھی کوئی ہار ہوتا ہے بھلا؟ بلکہ میرا تو فائدہ ہوگیا کہ اُن کے بھی دو جوتے میں ساتھ لے کر آگیا ہوں۔ تو بھیا پھر وہ گدھے کا کیا ہوا؟ ہا ہا ہا گدھا کہاں کا گدھا جناب۔ اتنا مریل سا جانور تھا کہ جب مجھے اُس کے اوپر بٹھایا تو میرے دونوں پیر زمین کو لگ رہے تھے۔ اب آپ ہی بتائیں اِس میں کیا بے عزتی ہے۔

کل جب (ن) لیگ کے وزراء نے لپک کر مائک پر قبضہ کیا اور قوم کو بتایا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق کچھ بھی نہیں ہوا اور وزیراعظم بچ نکلے ہیں تو مجھے حاجی صاحب کا یہ سنایا واقعہ بار بار یاد آیا۔ باقی آپ سمجھدار ہیں۔ وزراء کے یہ دعوے اور وہ مناظر دیکھ کر احمد ندیم قاسمی بھی یاد آئے؎

لفظ کس شان سے تخلیق ہوا تھا لیکن
اِس کا مفہوم بدلتے رہے نقطے کیا کیا

کبھی کبھی عمران خان پر بھی ترس آتا ہے۔ وہ اِس ملک کے سماجی، سیاسی، عائلی اور تمدنی شعور سے یکسر ناآشنا سیاستدان ہیں۔ خان مثالیت پسند آدمی ہیں گو اب حقیقت پسندی کی طرف اُن کا سفر جاری ہے۔ 2008ء سے لے کر 2015ء میں بیرسٹر شہزاد اکبر کی ڈرون رپورٹ کے لانچ ہونے تک چھ ملاقاتوں میں یہ تغیر شد و مد سے نظر آیا۔ میاں صاحب 90ء کی دہائی کا بویا اب کاٹ رہے ہیں۔ اپنے ایک ’sociolinguist‘  دوست سے پوچھا عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کہا کہ خان ’bilingual‘ ہے۔ اُسے الفاظ کی ترتیب اور چناوٗ نہیں آتا۔ بھٹو صاحب اور بی بی صاحبہ کے ساتھ بھی یہی مسئلہ تھا۔ غالب نے بھی کیا خوب کہا تھا

نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِ رخِ یار
صفحہ آئینہ جولاں کہ طوطی نہ ہوا

سیاست اور کارِ سیاست سے عجب سی نفرت ہوا چاہتی ہے۔ جس کو نہ ہو وہ کل زرداری صاحب کے چہرے سے پھوٹھتی خوشی دیکھ لے کہ اب اِس شہرِ چمن میں زرداری صاحب اکیلے نہیں اب گلی گلی نواز کا بھی نعرہ بلند ہوگا۔ پیپلز پارٹی نواز شریف کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جائے گی کیونکہ میمو گیٹ سے پیپلز پارٹی کو بچا کر نکالنے والا ایک شخص تھا جس کا نام نواز شریف ہے اور اب زرداری صاحب اِس احسان کا بدلہ اتاریں گے۔ اعتزاز صاحب کی خوش گفتاری سے خوش گماں ہونے کی ضرورت نہیں۔

آئیے اُداسی میں مزید اُداسی شامل کریں اور شاعری پڑھیں۔

ہم جو ٹوٹے تو اِس طرح ٹوٹے
جس ہاتھوں سے گر کے پتھر پہ
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے

جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک گماں ٹوٹے

جیسے اُمید کی نازک ڈالی
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقتِ طویل میں الجھ جائے
جیسے پیروں تلے سے زمیں نکلے
جیسے سر پہ آسماں ٹوٹے

جیسے ایک شاخ پہ بھروسہ کیا
اس پہ جتنے تھے آشیاں، ٹوٹے
جیسے وحشت سے ہوش آجائے
جیسے تا دیر میں دھیاں ٹوٹے

کس نے دیکھا تھا ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
راجہ قیصر احمد

راجہ قیصر احمد

مصنف قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں پروفیسر ہیں۔ سیاست، ادب، تاریخ، مذہب اور ثقافت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔