ہائی پروفائل کیس کے تفتیشی افسر کی پراسرار موت

ایڈیٹوریل  ہفتہ 19 جنوری 2013
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کامران فیصل کی موت کو  خودکشی قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کامران فیصل کی موت کو خودکشی قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

قومی احتساب بیورو( نیب ) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت رینٹل پاور پراجیکٹس (آر پی پی) کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل اسلام آباد میں فیڈرل لاجز کے اپنے کمرے میں پراسرار طور پر مردہ حالت میں پائے گئے۔ واقعات کے مطابق جمعے کو وہ دفتر نہ پہنچے، موبائل بھی اٹینڈ نہیں ہوا تو ان کے دوست احباب کو فکر لاحق ہوئی،جب روشن دان توڑ کر کمرہ کھولا گیا تو ان کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی۔ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ جمعے کو صبح دس اور گیارہ بجے کے درمیان پیش آیا۔

اسلام آباد پولیس نے خودکشی کے گمان کا اظہار کیا ہے جب کہ جواں مرگ کامران فیصل کے لواحقین نے خودکشی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے اس معاملے کی عدالتی چھان بین کا مطالبہ کیا ہے۔ مرحوم کامران فیصل کے قریبی عزیزوں کا کہنا ہے کہ کامران فیصل کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں مل رہی تھیں جس کے پیش نظر انھوں نے حال ہی میں سپریم کورٹ سے باقاعدہ تحریری درخواست کی تھی کہ اسے اس مقدمے کی تفتیش سے الگ کر دیا جائے۔ نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عرفان نے سپریم کورٹ کو بھجوائی جانے والی ان کی اس درخواست کی تصدیق کی ہے۔

کامران فیصل کا ابتدائی پوسٹ مارٹم پولی کلینک اسپتال اسلام آباد میں ڈاکٹروں کے ایک پینل نے کیا جس کی ابتدائی رپورٹ میں بھی اسے خودکشی ہی قرار دیا گیا ہے۔ ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرحوم کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں ہیں‘ صرف گلے پر رسے کے نشانات موجود ہیں‘ اس سے خودکشی کے خدشے کو تقویت ملتی ہے۔ پولیس بھی کامران فیصل کی موت کو خودکشی قرار دے رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے سربراہ بنیامین کا کہنا ہے کہ تفصیلی پوسٹ مارٹم کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

ادھر میڈیا نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ جس کرسی پر چڑھ کر کامران نے پھندہ اپنے گلے میں ڈالا‘ اس کی لٹکتی ہوئی لاش کے پاؤں اس کرسی سے چھو ہی نہیں رہے تھے۔ پولیس کو کامران کی موت کی اطلاع نیب کے سب انسپکٹر ممتاز احمد نے دی۔ واقعے کے بعد چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے بھی جائے حادثہ فیڈرل لاجز کا دورہ کیا اور انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔ نیب کے ترجمان کی طرف سے جاری پریس ریلیز کے مطابق چیئرمین نیب اور نیب کے تمام افسران اس افسوس ناک واقعے پر انتہائی افسردہ اور دکھ میں ہیں۔

پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ کامران فیصل 2006ء سے 2011ء تک کوئٹہ میں نیب کے تحقیقاتی افسر کے طور پر سرانجام دیتے رہے پھر انھوں نے ایف آئی اے جوائن کر لی جس کے بعد مئی 2012ء میں انھوں نے دوبارہ نیب میں ملازمت اختیار کر لی اور اسلام آباد تعینات کیے گئے۔

کامران فیصل کا تعلق میاں چنوں سے تھا اور وہ والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ مرحوم فیڈرل لاجز اسلام آباد میں تنہا رہائش پذیر تھے اور ان کے بیوی بچے میاں چنوں ہی میں مقیم تھے۔انھوں نے پسماندگان میں بیوہ اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ کامران فیصل کے والد نے چیف جسٹس آف پاکستان سے نوٹس لینے کی اپیل کی ہے تا کہ شفاف انکوائری ہو سکے اور میرٹ پر نتائج سامنے آئیں۔ سپریم کورٹ نے 15 جنوری کو کامران فیصل کی تحقیقاتی رپورٹ پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تھے‘ اس رپورٹ کو نیب کے چیئرمین 17 جنوری کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملزمان کے خلاف ریفرنس ٹھوس ثبوت کے بغیر بنائے ہیں۔

بی بی سی نے کامران فیصل کے ایک ساتھی افسر کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔ یہ سارے معاملات کامران فیصل کی موت کو خاصا پیچیدہ اور پراسرار بنا دیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت پختہ ہو چکی ہے کہ اعلیٰ سطح کے قتل یا خودکشی کے مقدمات کی تحقیقات سردخانے کی نذر ہو جاتی ہیں۔ کامران فیصل ایک انتہائی اہم نوعیت کے مقدمے کے تفتیشی افسر تھے۔ ایک نوجوان افسر کے لیے اس ہائی پروفائل مقدمے کی تفتیش یقینا ایک مشکل اور اعصاب شکن کام تھا۔ اس حقیقت کو سمجھنا بھی مشکل نہیں ہے کہ وہ یقینا اعصابی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے۔ بہرحال معاملات خواہ کچھ بھی ہوں، کامران فیصل کی پراسرار موت کا معمہ حل ہونا چاہیے۔

پولیس نے ان کا موبائل فون اور کمپیوٹر تحویل میں لے لیا ہے تاہم میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مرحوم لیپ ٹاپ استعمال کرتے تھے۔ اس کا پتہ نہیں چل رہا۔ بہرحال یہ مقدمہ اسلام آباد پولیس کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ موبائل فون اور ان کے کمپیوٹر میں یقینا ایسا مواد ہو گا جس سے یہ پتہ چل سکے گا کہ وہ اس مقدمے کے حوالے سے کتنے ذہنی دباؤ میں تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو سکے گا کہ انھیں کس قسم کی دھمکیاں ملی رہی ہیں۔ اس کیس کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیشن بھی قائم کیا جا سکتا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپنی نگرانی میں ہی اس اہم ترین مقدمے کی تحقیقات کرا سکتی ہے۔ سات آٹھ روز میں مرحوم کی فرینزک رپورٹ سامنے آ جائے گی، اس کے بعد ہی تحقیقات کوئی ایسا رخ لے سکیں گی جس سے اس پیچیدہ اور پراسرار کیس کے حقائق سامنے آنے کی امید ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔