جدید شیخ الجبل

عبدالقادر حسن  ہفتہ 19 جنوری 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

کتابیں بوجہ نقل مکانی الٹ پلٹ ہو گئی ہیں، اس لیے میں ان کتابوں سے زیادہ الٹ پلٹ حافظے سے کام لے رہا ہوں اور نہایت ہی دشوار گزار پہاڑوں کے تاریخی اور اپنی مثال آپ شیخ الجبل یعنی پہاڑوں کے شیخ کو یاد کر رہا ہوں جس کو صرف امیر تیمور ہی مسخر کر سکا۔ ایک مشہور روایت ہے کہ تاریخ کی یہ پراسرار شخصیت چند دوسری بڑی نامور شخصیتوں کی ہم جماعت تھی۔ ایک امام غزالیؒ اور دوسرے ستارہ شناس شاعر عمر خیام اور تیسرے نظام الملک طوسی۔ اپنے وقت کے ان جینئس افراد نے اپنے کمالات کے لیے شعبے الگ الگ اختیار کیے۔

امام غزالی ؒدینی علوم اور تصوف کی طرف چلے گئے اور امام مانے گئے۔ عمر خیام نے فلکیات کے اسرار و رموز کو پسند کیا‘ نامور ہوا لیکن دل کے بہلانے کو شاعری بھی کرتا رہا جو اس کی شہرت کا بڑا سبب بن گئی اور تیسرے دوست نے سیاسی اور انتظامی معاملات کو اختیار کیا اور ان میں ایک مثال بن گیا لیکن ان کے ایک ذہین اور ندرت خیال کے مالک ہم جماعت حسن بن صباح نے بالکل مختلف شعبہ اختیار کیا۔ وہ ایک دہشت گرد بن گیا۔ وہ حکمرانوں پر اپنا تسلط چاہتا تھا اور اس میں وہ اس خوف و ہراس کی وجہ سے کامیاب رہا جو اس نے پوری سلطنت میں اپنے نام سے پھیلا دیا تھا۔

ایک دشوار گزار بہت ہی دور افتادہ محفوظ بلند پہاڑی وادی میں اس نے اپنا پراسرار تربیتی مرکز قائم کیا جس میں وہ نوجوانوں کو خاص تربیت دیا کرتا اور ان کی کسی بڑی کامیاب کارروائی کے عوض انھیں جنت کی بشارت دیا کرتا۔ تعجب ہے کہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حسن بن صباح نے ایک مصنوعی جنت بنا رکھی تھی جس میں خوبصورت حوریں بھی تھیں‘ باغ بھی تھے اور ایک نشہ بھی جسے حشیش کا نام دیا گیا۔ یہ بھنگ وچرس وغیرہ کی طرح کا تیز نشہ ہوتا جسے نوجوان استعمال کرتے ہی کسی دوسری دنیا میں پہنچ جاتے۔ حور و قصور اور نشے کی اس جنت کے حصول کے لیے ان نوجوانوں کو کئی وارداتیں کرنی پڑ جاتیں۔

مثلاً کوئی حکمران یا بڑا آدمی صبح بستر سے بیدار ہوتا تو اسے تکیے کے نیچے چاقو چھرا اور ایسا کوئی آلہ قتل ملتا‘ اس پیغام کے ساتھ کہ کسی وقت یہ استعمال بھی ہو سکتا ہے اور پھر کسی مناسب وقت میں اور کسی ضرورت کے تحت حسن بن صباح کا کوئی پیغام بھی‘ پہاڑوں کی اس بادشاہت کی وجہ سے حسن بن صباح کو ’’شیخ الجبل‘‘ کا خطاب دیا گیا یعنی پہاڑوں کا شیخ اور حکمران شیخ الجبل کا یہ سلسلہ برسہابرس تک چلتا رہا تاآنکہ اس انتہائی دشوارگزار راستے کو امیر تیمور جیسے بہادر نے اپنے لشکر کے ہمراہ مسخر کیا اور شیخ الجبل کی اس جنت اور نوجوانوں کی تربیت گاہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جو اپنی جگہ ایک ریاست کی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور جس کا دبدبہ ہر سمت پھیلا ہوا تھا۔

اس طرح تاریخ کی اس انتہائی پراسرار اور طلسم کی ایک داستان کا انجام ہوا اور شیخ الجبل اپنی مخصوص نوعیت کا ایک نام بن گیا جو تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ زندہ تو اس کے ہم جماعت بھی ہیں لیکن کوئی عالم دین ہے‘ کوئی شاعر اور ستارہ شناس ہے‘ کوئی حکمرانی کے اسرار و رموز اور سیاست میں عظیم نام ہے لیکن اپنی نوعیت کا یہ منفرد نام صرف شیخ الجبل کا ہے جو اپنی نوعیت کا تاریخ کا پہلا نام ہے اور پہلا ہی رہے گا۔

مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ شیخ الجبل کو یہ خطاب تاریخ نے دیا یا یہ خود ساختہ تھا اور اس نے خود ہی حاصل کر لیا تھا البتہ ایسے کئی شیخ الاسلام ہو گزرے ہیں جو اپنی کسی علمی فضیلت اور برتری کی وجہ سے اپنے شعبے کے شیخ مانے گئے۔ عثمانی سلطنت میں نامور علماء کو شیخ کہا جاتا تھا جو ایک خاص شکل و صورت کی دستار پہنتے تھے، بالکل ایسی ہی جیسے مفتیٔ فلسطین ان دنوں پہنتے ہیں یا پھر ہمارے پاکستانی شیخ الاسلام عبدالشکور قادری عرف طاہر القادری پہنتے ہیں۔ ویسے اسے دستار نہیں ٹوپی کہنا چاہیے کہ یہ پگڑی اور دستار نہیں ہے‘ ایک ٹوپی ہے۔

بہر کیف کچھ بھی ہو ہمارے ہاں یہ اس شیخ الاسلام کی علامت ہے جس نے اسلام آباد میں پانچ روز تک جنت آباد کیے رکھی۔ شیخ اس دوران خود ایک بند عشرت گاہ میں مقیم رہے جہاں سے وہ اپنے عوام کے لیے تربیتی لیکچر اور حکومت کو تنبیہی لیکچر دیتے تھے۔ اصلی شیخ الجبل کی ایسی جنت برسوں تک آباد رہی لیکن ہمارے ہاں اس بدلے زمانے میں اس کی عمر صرف پانچ روز کی تھی جس کی عمر عزیز کے آخری دن اس ’’شیخ الجبل‘‘ سے خوفزدہ حکمران جن کے تکیوں کے نیچے سے شاید کوئی فولاد کا چھرا برآمد ہوا تھا یا الفاظ کی تلوار‘ وہ سب اپنے چہروں پر خوف نہیں مسرت اور ہنسی کا نقاب ڈالے حاضر ہوئے اور کسی امیر تیمور کی آمد سے پہلے ہی اپنی بساط لپیٹ لی۔

اب شیخ الجبل اپنی خاص شہرت اور دبدے کے ساتھ اور اس سے خوفزدہ حکمران واپس اپنے محفوظ بستروں میں دبک کر آرام کر رہے ہیں لیکن ہزاروں معصوم پاکستانی بچے اپنے احمق والدین کے ساتھ نزلہ و زکام میں چھینکیں مار رہے ہیں۔ میں ان بچوں کو دیکھتا رہا اور ان کے خوبصورت چہروں کو اس سخت سردی میں سرخ ہوتا ہوا دیکھتا رہا۔ ایک عجیب رنج آمیز بے بسی کے ساتھ معلوم نہیں کس نے اربوں روپے اس ڈرامے پر خرچ کیے جو بلا ٹکٹ مفت دکھایا گیا۔ بعض دوستوں کے خیال میں ابھی ڈرامے کے آخری سین سے پردہ نہیں اٹھایا گیا۔
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔