خواتین کی جبری غلامی

زبیر رحمٰن  ہفتہ 19 جنوری 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

دنیا بھر کی دیہی محنت کش خواتین صبح 5 بجے سے رات 10 بجے تک اپنے کاموں میں مصروف عمل ہوتی ہیں۔ یعنی گھریلو اور زراعت سے متعلق 90 فیصد کام انجام دیتی ہیں جب کہ وہ صرف 5 فیصد دولت کی مالک ہیں۔ مختصراً ہم یوں جائزہ لے سکتے ہیں کہ ایک دیہی کسان خاتون صبح سویرے گائے بکری کی رات بھر کی گندگی کی صفائی کرتی ہے، انھیں چارہ دیتی ہے ، صبح کو بچوں کو تیار کرکے اسکول بھیجتی ہے پھر ناشتہ بناکر گھر والوں کو کھلاتی ہے ، دوپہر کا کھانا مردوں کو کھیت میں پہنچاتی ہے ۔ گائے بھینس کا گوبر ایندھن کے لیے سکھاتی ہے ، لکڑیاں چنتی ہے ، پانی ڈھو کے لاتی ہے ، پھر دن کا کھانا پکاتی ہے ۔ کھانا کھلانے کے بعد پھٹے پرانے کپڑوں کی سلائی اور گھر کی لیپاپوتی کرتی ہے پھر شام کو بھینس بکریوں کو بند کرتی ہے ۔ رات کا کھانا پکا کر گھر بھر کو کھلاتی ہیں۔ بعض علاقوں میں تو خواتین اپنے کام کے دوران جان سے بھی جاتی رہتی ہے ۔

پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں جہاں دھان اور گندم کی کاشت ہوتی ہے وہاں بوائی اور کٹائی میں خواتین بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ میں نے کسی بھی خاتون کو برقع پہن کر دھان کی بوائی اور کٹائی کرتے نہیں دیکھا۔ ہم نے مردان اور چارسدہ میں خواتین کو سروں پر لکڑیاں لاد کر لے جاتے دیکھا۔ پھر بھی قصور خواتین کا ہی کہلاتا ہے۔ انھیں کم عقل، عاقبت نااندیش اور گنہگار کہا جاتا ہے۔ ملک میں غیرت، کاروکاری، ونی، بے جوڑ شادی، سسرال کا جبر، شوہر اور باپ بھائی اور بیٹوں کی دھونس اور قدغن نے ہمارے معاشرے کی خواتین کی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔ کوئی لڑکی اگر کسی لڑکے سے بات کرے، دوستی کرے یا تعلقات بنائے یا شادی کا وعدہ کرے تو اسے قتل کردیا جاتا ہے۔

قتل ہونے والوں میں 90 فیصد خواتین ہیں۔ صرف 2012 میں 5000 خواتین پاکستان میں کاروکاری سمیت تشدد، سسرالی جبر اور شکوک و شبہات میں قتل ہوئیں۔چند سال قبل بلوچستان میں 3 خواتین کو تعلقات کے شبہات پرگولی مار کرہلاک کردیا گیا اور حیرت کی بات ہے کہ اس پر بلوچ اور پشتون قوم پرست رہنماؤں نے اسے اپنی روایات قرار دیا۔ اسی طرح گزشتہ سال پختون خوا میں ایک شادی میں تین لڑکوں نے رقص کیا تھا اور چند لڑکیوں نے تالیاں بجائی تھیں، ان جنونیت پرستوں نے انھیں گولی مارکر ہلاک کردیا۔ یعنی ان کا بس چلے تو کبوتروں، موروں اور برڈ آف پیراڈائز کو بھی ناچتے دیکھ کر گولی کا نشانہ بنادیں۔ چند ماہ قبل کراچی نارتھ ناظم آباد کا واقعہ ہے کہ ایک خاتون گاڑی چلا رہی تھیں، اس کے ساتھ ایک چار سالہ بچی بھی تھی، دو شخص ایک موٹرسائیکل پر آئے اور پستول سے اس خاتون کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ اس کے ساتھ موجود چار سالہ بچی کو کیا پتہ کہ اس کی والدہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ خواتین پر ہونے والے جبر اور استحصال بھی طبقاتی جبر کا ہی ایک حصہ ہے۔

ارب پتیوں کی بیگمات کے پاس 7/8 ملازمین ہوتے ہیں اور ان کے بچوں کو ڈرائیور اسکول، کالج اور یونیورسٹی لے جاتے ہیں۔ یہ ارب پتی بیگمات دنیا میں اور پاکستان میں کھربوں ڈالر کاسمیٹکس استعمال کرتی ہیں۔ ایک کریم، لپ اسٹک اور میک اپ کے سامان ہزاروں میں آتے ہیں، ان کے ملازمین کی کل تنخواہیں ایک لاکھ سے زیادہ ہوجاتی ہیں اور دوسری جانب قصور اور ملتان کے کھیتوں میں اور کراچی کی ٹیکسٹائل ملوں میں کام کرتے کسان اور مزدور خواتین ان اخراجات کا تصور بھی نہیں کرپاتے۔ جن کے شوہر کی ماہانہ تنخواہ صرف 4/5 ہزار روپے ہو، چاول لائیں تو دال نہیں، دال لائیں تو آٹا نہیں۔ گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل الگ ادا کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔ وہ بچوں کو پڑھا سکتی ہیں اور نہ معقول اور بروقت علاج کرواسکتی ہیں۔ ان کے ہاتھ سے گوبر کی بو آتی ہے، بال بکھرے ہوتے ہیں، کپڑے میلے کچیلے اور پھٹے پرانے ہوتے ہیں۔ 80 فیصد کسانوں کے ہاں بیت الخلا نہیں، انھیں کھیتوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ان کے ہاتھ کھردرے اور چہرے گرد آلود ہوتے ہیں۔

چند خواتین اگر وزیراعظم، صدر، خلانورد، چیف جسٹس اور پرنسپل بن جائیں تو خواتین آزاد نہیں ہوتیں، سوئٹزرلینڈ جوکہ جدید اور ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے وہاں چند دہائیوں قبل خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔ برطانیہ جوکہ جمہوری آزادی کے لیے بڑا مشہور ہے، خواتین کو چند دہائی قبل ووٹ ڈالنے کا حق نصیب ہوا۔ فاٹا تو ہے ہی پسماندہ ، پختونخوا میں بہت سارے اضلاع میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں بلکہ جہاں ووٹ ڈالنے نکلتی ہیں وہاں مرد حضرات ڈنڈا بردار ہوکر ان کے سامنے اپنی پرجوش مردانگی سے آکھڑے ہوتے ہیں۔ طالبان تو خواتین کو غلام سمجھتے ہیں جب کہ حامد کرزئی (جدیدیت) سے لیس امریکی امپورٹڈ صدر ہیں ان کے راج میں بھی خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر افغان خواتین کو ریلی نکالنے کی اجازت نہیں ملی۔ چونکہ ہمارا معاشرہ مردوں کے غلبے والا معاشرہ ہے، اس لیے مرد جب چاہے جس سے شادی کرلے اور جب چاہے اسے طلاق دے دے، اگر کسی خاتون کے 2/4 بچے ہیں اور طلاق کے بعد والدین بھی قبول نہ کریں، کہیں نوکری بھی نہ ملے اور بچوں کو پالنا بھی ہے تو وہ کیا کرے۔

ایک راستہ ہے خودکشی کا اور دوسرا عصمت فروشی کا۔ ہمارے ٹی وی چینلز پر ایسی خواتین کے انٹرویوز آچکے ہیں جو مبلغین اور دانشوران کے لیے صرف قابل غور نہیں بلکہ چشم کشا بھی ہیں اور چیلنج بھی۔ خاص کر معیشت کی اس خستہ حالی میں جب روزگار کے مواقعے پیدا ہی نہیں ہو رہے ہیں اس میں زندہ رہنے کے لیے عورتوں کی اکثریتی آبادی کو اس طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔ نہ صرف اندرون ملک بلکہ دوسرے ممالک سے عورتیں اسمگل کرنے کا کاروبار معمول بن چکا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز دیکھیں تو ہر طرف عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی بڑی بڑی کانفرنسیں ہورہی ہیں مگر اس کے باوجود اس کاروبار میں وسعت ہی آتی جارہی ہے۔ این جی اوز خواتین کے نام پر اپنا کاروبار چمکا رہی ہیں۔ اخلاقیات کے ٹھیکیدار بنے پھرنے والے معزز افراد ایسے بھی ہیں جو دراصل پس پردہ اس منافع بخش کاروبار میں ملوث ہیں۔

ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 29.6 فیصد لوگ شدید بھوک کا شکار ہیں۔ جنوبی ایشیا میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے 35 فیصد تک جسم فروشی کے دھندے میں ملوث لڑکیاں 12 سے 17 سال کے درمیان ہیں۔ افغانستان جیسے ملک کے اندر بھی یوگنڈا، تاجکستان اور چین سے عورتیں منگوائی جاتی ہیں۔ یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں 2004 میں ہوٹلوں، پارکوں اور ریلوے اسٹیشنز میں 10,000 کم عمر لڑکیوں کو ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

انڈیا میں صرف کلکتہ میں 50 ہزار بچے چائلڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ جن میں 80 فیصد کم عمر لڑکیاں ہیں۔ بھارت میں ہر سال ایک کروڑ 20 لاکھ لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں جن میں سے 10 لاکھ اپنی پہلی سالگرہ سے قبل فوت ہوجاتی ہیں۔ ہندوستان میں اس وقت جسم فروشی کی منڈی میں قانونی طور پر منسلک خواتین کی تعداد 6 لاکھ 80 ہزار ہے۔ جب کہ غیر قانونی طور پر 30 لاکھ سے زیادہ ہیں 12 لاکھ بچیاں ہیں جن کی عمریں18 سال سے بھی کم ہے۔

ایک جانب او لیول میں پڑھنے والے بچے جن کے قریب ملازمین کے ڈھیر ہوتے ہیں اور دوسری جانب بھوک سے بلکتے ہوئے بچے جکارتہ، دہلی، کلکتہ، کراچی، نیویارک، ٹوکیو اور نیروبی میں بھیک مانگتے یا پھر جسم فروشی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک جانب چمک دمک، اور پرکشش خواتین جو ایک فیصد ہیں اور دوسری جانب ننگے پاؤں اور بکھرے بالوں والی مزدور خواتین جو 99 فیصد ہیں۔ ان دونوں میں کتنا فرق ہے، کتنا تضاد ہے، کتنی دوری ہے، محبت کا فاصلہ ہے۔ ایک حاکم اور دوسری محکوم۔ ایک دنیا تمام آسائشیں اور نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے تو دوسری طرف خوشحالی اور خوشیوں کی فضائی لہریں بھی غلطی سے چھو کر نہیں جاتیں۔ یہ تفریق طبقاتی نظام کے خاتمے کے بغیر ختم نہیں ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔