ڈاکٹر صاحب کے پیچھے کون تھا؟؟؟؟

شیریں حیدر  ہفتہ 19 جنوری 2013
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میں ریان کو جلدی لے جا سکتی ہوں کیا؟ ‘‘ میرے دفتر کے دروازے کے باہر سے ریان کی ماں نے جھانک کر سوال کیا۔ اس روز جمعرات تھی اور تین دن تک اسکول بند رہنے کے بعد کھلے تھے، ایسے میں اس کا یہ سوال مجھے اچھا نہ لگا تھا۔

’’ تین دن کے بعدا سکول کھلے ہیں ، پہلے ہی کافی حرج ہو چکا ہے اور آپ اسے جلدی لے جانا چاہتی ہیں؟ ‘‘ میں نے تذبذب کا اظہار کیا۔’’ اصل میں، میں جی ٹین میں ایک دکان پر گئی تھی، چھتریاں خریدنے تو اس دکاندار کے پاس کچھ کم تعداد میں تھیں تو میں اسے کہہ آئی ہوں کہ آدھے گھنٹے میں جتنی ممکن ہو سکیں مجھے چھتریاںاکٹھی کر دے… اب مجھے جا کر اس سے چھتریاں لے کر دھرنے میں بیٹھے لوگوں تک پہنچانی ہیں کہ بارش کسی بھی وقت ہوا ہی چاہتی ہے… ‘‘ مجھے لگا اس کا قد ایک دم سے کئی فٹ تک بڑھ گیا ہو، میں اس کے سامنے ایک بو نے کی طرح کھڑی فراخ دلی سے اسے اجازت دے رہی تھی۔ وہ چلی گئی اور میرا قد میری ہی نظر میں چھوٹا ہو گیا تھا۔ تین روز سے دل مچل مچل رہا تھا کہ کچھ کیا جائے مگر پھر گھر کے اندر بیٹھے ہوئے ہی سوچ کر کپکپی لگ جاتی تھی۔

ماہ اکتوبر میں مجھے ایک junk ای میل کے ذریعے ایک نوجوان کی طرف سے دعوت آئی کہ مجھے تحریک منہاج القرآن کا ممبر بن جانا چاہیے… میں نے اس میل کو ایک بے مقصد ای میل سمجھ کر delete کر دیا اور بھول بھال گئی کہ جہاں میدان کار زار میں کئی جماعتیں سرگرم ہیں، یہ صاحب بھی پردیس میں بیٹھے اپنا ڈھول بجا رہے ہیں، اس کے بعد جس حلقے میں بیٹھ کر بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی آمد اور ان کے لاہور کے جلسے کی بات ہوئی، سب نے اسے تماشے سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ پھر ہم سب نے ان کی آمد اور لاہور کا جلسہ دیکھا اور یہی کہا کہ سب پیسے کی طاقت ہے اور اس کے پیچھے کوئی طاقت کار فرما ہے، جلد ہی علم ہو جائے گا۔لانگ مارچ کی کال دی گئی تو اسے بھی مذاق ہی سمجھا گیا اور حکومت کے حلقوں کی طرف سے بچگانہ بیانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں یہاں تک بھی بتا دیا گیا کہ مری روڈ پر دھماکا ہو گا اور پھر حکومت کوئی ذمے داری لینے کو تیار نہ ہو گی۔ ہفتے کے روز سے ہی اندازہ ہونا شروع ہو گیا تھا کہ معرکہ خوب گرم ہو گا اور ہم سہمنے لگے، تعلیمی اداروں کی پیر کو بندش کا اعلان ہوا اور لوگوں نے آنیوالے خطرے کے پیش نظر اپنے گھروں میں راشن جمع کر لیا۔ پٹرول پمپ مالکان نے پٹرول دستیاب نہ ہونے کا شوشا چھوڑا تا کہ لوگ زیادہ سے زیادہ پٹرول بھروا لیں اور ان کا اسٹاک خالی ہو جائے کہ ماضی کے تجربات ان کے لیے کافی تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔

ہر دل میں اندیشے ڈیرا ڈال کر بیٹھ گئے تھے…لانگ مارچ شروع ہوا اور اس کے لیے کیا کیا مشکلات کھڑی کی گئیں وہ میرے کالم کا موضوع نہیں… ڈاکٹر صاحب کو مداری، جھوٹا، موقع پرست، بیرونی طاقتوں کا پٹھو، پیغمبر بننے کا خواہش مند اور جانے کیا کیا کہا گیا…یہ بھی میرے کالم کا مواد نہیں کہ اس کی حمایت یا مخالفت کروں، میرے کالم کا اصل موضوع ہے عوام… عوام جو کہ اصل طاقت ہیں اور انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اصل طاقت ہیں۔
چار دن کے دھرنے میں جس ثابت قدمی کا انھوں نے اظہار کیا، جس صبر و برداشت کے ساتھ انھوں نے موسم کی سختیاں جھیلیں اور اپنے قائد کی اطاعت کی اس کی مثال اس ملک کی تاریخ تو کیا شاید دنیا کی تاریخ میں نہیں ملے گی۔ ہوتا جو یہ کسی سیاسی جماعت کا اجتماع تو دنیا دیکھتی کہ کیا کیا کچھ نہ ہوتا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جو کچھ کراچی میں ہوا ایسی مثال بھی شاید ہی دنیا میں کہیں ملتی ہو۔ ہر شریک شخص نے پاکستان کا پرچم اٹھا رکھا تھا اور علم ہو رہا تھا کہ انھیں اس شناخت پر فخر ہے، نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے لوگوں کی باتیں سن سن کر اندازہ ہوا کہ اپنے قائد پر ان کا اعتقاد کس نوعیت کا ہے… وہ اس قائد کی پکار پر لٹنے، کٹنے اور مرنے کو بھی تیار تھے۔ یقین، اتحاد اور تنظیم کہ جو ہمارے قائد کے مقولے ہیں جن پر عمل ہوتے ہوئے چشم فلک نے یہاں کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک گملا نہ ٹوٹے گا تو ایسا ہوا… جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اجتماع گند ڈال کر چلا گیا، کاش وہ ٹیلی وژن کی بجائے اپنی نظر سے اس علاقے میں جا کر دیکھتے تو انھیں علم ہوتا کہ جاتے جاتے بھی وہ لوگ سارے علاقے کی صفائی کر کے گئے تھے۔ اہلیان اسلام آباد نے ہمدردی کے جذبے سے مغلوب ہو کر جس مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا وہ بھی ان کا ذاتی فعل اور اس مجمعے کے استقلال اور صبر کے اعتراف کی نشانی ہے جہاں عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے اپنے قائد کی پکار پر تیارکھڑے تھے۔ٹریفک کو کنٹرول کرنے سے لے کر اس سارے پنڈال کی سیکیورٹی کا نظام بھی ان کے اپنے ہاتھ میں تھا یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کے کسی بھی ناکے پر ایک بھی پولیس والا نہ تھا (کسی بھی وجہ سے ) مگر پھر بھی کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا۔ لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کی شعبدہ بازی کہہ رہے ہیں کیونکہ اب ان کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ ایک لیڈر میں جو اہم صفات ہونی چاہئیں ، وہ یہ ہیں:۔

… اس کے معتقدین کو اس پر یقین ہو کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ درست ہے۔
… وہ قائد کی پکار پر ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔
… انھیں اپنے مفادات سے بڑھ کر اپنے قائد کا حکم عزیز ہو۔
… ان کے قائد کے پاس علم بھی ہو اور قوت گفتار بھی۔

اب ہم بغلیں بجائیں، سانپ گزر گیا ہے تو جتنی مرضی لکیر پیٹیں مگر ہم اپنے اذہان سے اس واقعے کے اثرات کو کبھی زائل نہ کر سکیں گے۔ ہم نے باقی لیڈروں کے جلسے بھی دیکھے ہیں، اگر ان میں حلوے مانڈے نہ ہوں اور گانے بجانے والوں کے تین تین گھنٹے کے پروگرام نہ ہوں تو ان کا جلسہ دس منٹ میں ختم ہو جائے اور ان کے جلسوں میں سوائے الزام تراشیوں کے اور ہوتا ہی کیا ہے، نہ کوئی ایجنڈا نہ مطالبہ… سب’’ تو چل میں آیا ‘‘ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے باریاں مقرر کیے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حکومت کو ہائی جیک کیا یا شہر کو یا ہم سب کو… کم از کم وہ ہمیں یہ بتا گئے ہیں کہ اگر مردوں کی طاقت سے بلوچستان کی حکومت گر سکتی ہے تو زندہ انسان کہیں زیادہ طاقت رکھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے لوگوں کے قیافوں کیمطابق ڈاکٹر صاحب ڈگڈگی بجا کر واپس جا چکے ہیں… ممکن ہے کہ یہ سب واقعات ’ ’ عقلمند ‘‘ لوگوں کی رائے کیمطابق ’’ ٹوپی ڈرامہ ‘‘ ثابت ہو جائیں… چلیں جو ہوتا ہے سو ہو!!…اس شہر کی فضا… ہمیشہ اس تاریخی اجتماع کو یاد رکھے گی، جب تاریخ میں پر امن اور تبدیلی انگیز انقلابات کا ذکر آئے گا تو اس کا ذکر سر فہرست ہو گا۔ کسی کی ذاتی زندگی پر حملے کرنے کی بجائے اور الزام تراشیوں کے سلسلے دراز کرنے کی بجائے یہ جانیں کہ اس مارچ اور دھرنے سے ہمیں غفلت کی اس نیند سے جگانے کی کوشش کی گئی ہے ہم سب کسی ایسے معجزے کے منتظر کہ جو ہماری تقدیر بدل دے حالانکہ اقبال ہمیں بہت پہلے کہہ گئے تھے…

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اس دھرنے میں شریک افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کر کے اسلام آباد کے باسیوں نے کم از کم اس بات کا اظہار تو کر دیا ہے کہ اگر کوئی منظم احتجاج کرے گا اور کسی کے پاس اتنی طاقت ہو گی کہ جس کی قیادت میں حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تو وہ دامے، درمے ، سخنے اور قدمے ان کا ساتھ دیں گے اور حکومتی حلقوں میں تو سروں میں یہ سوال جوؤں کی طرح گھس گیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ’’ پیچھے ‘‘ کون ہے… اس سوال کاجواب انھیں بیس لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کرنے پر بھی نہ ملا… حالانکہ بالکل سیدھی سی بات ہے کہ اس پورے مارچ کے اختتام کے اعلان پر حکومت کی حمایتی اور تمام مخالف جماعتیں ڈاکٹر صاحب کے ’’پیچھے‘‘کھڑی تھیں…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔