کرپشن کے خلاف سرد جنگ طول پکڑ گئی

عباس رضا  اتوار 23 اپريل 2017
لاہور میں فائنل کے مشکل فیصلے سے انعقاد تک اسپاٹ فکسنگ سکینڈل پس منظر میں رہا۔ فوٹو: فائل

لاہور میں فائنل کے مشکل فیصلے سے انعقاد تک اسپاٹ فکسنگ سکینڈل پس منظر میں رہا۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل ٹو کے آغاز پر ہی سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل کی کہانی طویل بھی اور عجیب بھی، شرجیل خان اور خالد لطیف کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کا دعویٰ کیا گیا۔

شاہ زیب حسن، محمد عرفان اور ذوالفقار بابر بھی شکوک کی زد میں آئے لیکن ان کو واطن واپس بھجوانے سے گریز کیا گیا، اس موقع پر پی سی بی کا موقف تھا کہ پہلے ایڈیشن کی کامیابی کے بعد بیرونی سازش کے خدشات موجود تھے، اینٹی کرپشن یونٹ لیگ کو آلودہ کرنے کے خطرات سے آگاہ اور انتہائی مستعد تھا، اس لئے ایونٹ کے آغاز سے قبل ہی بکی کی رابطوں کا سراغ لگالیا۔

ایونٹ کے پہلے ہی میچ میں شرجیل خان نے وہی کیا جس کی حکام کو بھنک لگ چکی تھی،خالد لطیف بھی اسی انداز میں بکی کے ساتھ طے گئے فارمولے پر عمل کرتے لیکن ان کو پلیئنگ الیون میں شامل نہیں کیا گیا، ملوث کرکٹرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا،سامان کی تلاشی لی گئی،بیانات ریکارڈ ہوئے، شرجیل خان اور خالد لطیف کو فوری طور پر پاکستان واپس روانہ کردیا گیا،دیگر تینوں کھلاڑی اپنی اپنی ٹیموں کے ساتھ موجود رہے۔

پی ایس ایل کی گورننگ کونسل کے چیئرمین اور پی سی بی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ وطن بھجوائے جانے والے دونوں کرکٹرز کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں،انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ اور بعد ازاں بیانات میں دیگر کرکٹرز کو کلیئر قرار دیا،تاہم چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے اسی ہفتے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محمد عرفان اور دیگر کھلاڑیوں بھی شکوک کی زد میں ہیں،پی ایس ایل کے دوران ہی شرجیل خان اور خالد لطیف کو چارج شیٹ جاری کردی گئی۔

لاہور میں فائنل کے مشکل فیصلے سے انعقاد تک اسپاٹ فکسنگ سکینڈل پس منظر میں رہا، حکومت، پی سی بی حکام، شائقین اور میڈیا کی توجہ اس میگا ایونٹ پر رہی، ایک بہت بڑا چیلنج سمجھے جانے والے میچ کا پر امن انعقاد ہونے کے بعد فکسرز کے ساتھ ایسا میچ شروع ہوا کہ جس کے جلد ختم ہونے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی،پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد محمد عرفان اور شاہ زیب حسن کو بھی چارج شیٹ جاری ہوئی، سہولت کاری کے ملزم ناصر جمشید سے انگلینڈ میں رابطے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔

اس دوران شرجیل خان اور خالد لطیف نے بھی الزامات تسلیم کرنے سے انکار کیا تو کیس کی سماعت کے لیے جسٹس(ر) اصغر حیدر کی سربراہی میں ٹریبیونل قائم کردیا گیا،ان کے لیے معاونت کے لیے سابق چیئرمین پی سی بی توقیر ضیاء اور سابق کپتان وسیم باری کا تقرر ہوا، سکینڈل 10فروری کو منظر عام پر آیا، شرجیل خان 24 مارچ اور بیماری کی وجہ سے مہلت پانے والے خالد لطیف ایک ہفتہ بعد پیش ہوئے،تاریخ پر تاریخ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

پی سی بی کی جانب سے شواہد 14اپریل کو فراہم کئے گئے، اب دونوں کرکٹرز کو اپنے جوابات 5مئی تک دینا ہیں، پی سی بی جوابی موقف 5 روز میں دے سکے گا، روزانہ کی بنیاد پرسماعت کا سلسلہ 19مئی سے شروع ہوگا، اس دوران محمد عرفان نے بکی کی جانب سے رابطے کی پی سی بی کو اطلاع نہ کرنے کا الزام تسلیم کیا،طویل قامت پیسرکو ایک سال معلطی اور 10لاکھ جرمانے کی سزا سنادی گئی، شرجیل خان اور خالد لطیف کی تقلید کرتے ہوئے شاہ زیب حسن نے بھی الزامات تسلیم کرنے سے انکارکیا۔

ٹریبیونل کے روبرو ابتدائی سماعت کے لیے ان کو 21اپریل کی تاریخ ملی تھی جہاں اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر فرد جرم عائدکردی گئی، شاہ زیب کیس میں کارروائی کے لیے بھی طویل طریقہ کار طے کیا گیا ہے، پی سی بی الزمات اور متعلقہ شواہد 4 مئی کو جمع کرائے گا، شاہ زیب حسن 18 مئی تک جوابات داخل کرائیں گے جس کے بعد بورڈ 25 مئی تک اگر چاہے تو جوابی موقف پیش کرسکے گا، روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا سلسلہ یکم جون سے شروع ہوگا۔

دوسری جانب پہلے سے جاری گورکھ دھندا ختم ہونے سے قبل ہی پی سی بی کے شعبہ سیکورٹی اینڈ ویجیلنس نے خالد لطیف اور شاہ زیب حسن کو اینٹی کرپشن یونٹ کے آرٹیکل 4.3کے تحت 17اپریل کو ایک الگ نوٹس آف ڈیمانڈ بھی جاری کردیا،بتایا گیا کہ دونوں کرکٹرز کو باز پرس اور کوڈ آف کنڈکٹ کی مزید ممکنہ خلاف ورزیوں کا سراغ لگانے کے لیے بلایا جارہا ہے، خالد لطیف 26اور شاہ زیب حسن 27اپریل کو اینٹی کرپشن یونٹ کے سامنے پیش ہوں گے۔

کسی کو بھی سزا دینے سے قبل انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن سپاٹ فکسنگ کیس میں جس انداز میں انتہائی رازداری کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے جارہے ہیں،ان پر کئی سوالیہ نشان موجود ہیں،اگر پی سی بی کے پاس ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں تو ملوث کرکٹرز کو کٹہرے میں کھڑا کرکے دکھائے کیوں نہیں جاتے، بورڈ نے چارج شیٹ جاری کرنے سے لیکر ٹریبیونل کے سامنے ابتدائی سماعت میں الزامات کی جو فہرست پیش کی ہے،اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے کرکٹرز کو 3،3ہفتے تک کی مہلت دینے کا کیا مقصد ہے۔

کارروائی میں طویل وقفوں کی وجہ سے شرجیل خان اور خالدلطیف کے ٹریبیونل میں کیس کی روزانہ کی بنیادپر سماعت سکینڈل سامنے آنے کے 3ماہ 8دن بعد شروع ہوگی، شاہ زیب حسن کا معاملہ تواس سے بھی زیادہ طول پکڑے گا، دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک بار باز پرس کے بعد چارج شیٹ جاری کی گئی،اب خالد لطیف اور شاہ زیب حسن کو دوبارہ تحقیقات کے لیے بلانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے، پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ سمجھے جانے والے پاناما لیکس کی سپریم کورٹ میں کارروائی کے دوران بھی شواہد پیش کئے گئے تو سب باتیں عوام کے سامنے آتی رہیں۔

فیصلے سے قبل عدالت میں وکلاء کے استدلال اور ججز کے ریمارکس سب رپورٹ ہوتے رہے،فیصلہ جو بھی ہوا، تمام تر کارروائی خفیہ نہیں تھی،سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے حوالے سے پی سی بی کی ہر پریس ریلیز میں نئی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے معاملے کو حساس اور فریقین کی جانب سے کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کا اعلان کیوں کیا جاتا ہے، یہ کیسے ’’ٹھوس شواہد‘‘ ہیں کہ جن کو ثابت کرنے کے لیے کئی ماہ درکار ہیں، انصاف صرف ہونا نہیں بلکہ ہوتا نظر آنا بھی چاہیے۔

اگر پی سی بی ثبوت اکٹھے کرنے میں دشواری کا سامنا تھا تو ایف آئی اے کو تحقیقات مکمل کرنے دیتے،شواہد واقعی ٹھوس ہوتے تو کریمنل کیس بنتا اور پی سی بی کو کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی کا نعرہ لگانے کے بجائے ایسا سخت فیصلہ کرنے میں بھی مدد ملتی جو آنے والے نوجوان کرکٹرز کے لیے مثال بنتا، کرکٹرز کو صفائی کا موقع دیتے ہوئے کہیں کرکٹ سے گند صاف کرنے میں غفلت کا ارتکاب تو نہیں کیا جارہا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔