گزری دنیا کی کہانی نثار عزیز بٹ کی زبانی (دوسرا حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 23 اپريل 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نثار 1927ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ انتشار اور خلفشار کا زمانہ تھا۔ وہ 20 برس کی ہوئیں تو دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے 5 برس ہوئے تھے اور 47 ء میں ایک موجِ خوں ہندوستان کے سر سے گزر گئی تھی۔ پنجاب، دلی اور اس کے گردونواح میں لہو کی ندیاں بہہ گئیں تھیں۔

پختونخوا نے بھی اس غارتگری کا ذائقہ چکھا تھا۔ سکھ، ہندو اور مسلمان چُھروں کے زخم کھارہے تھے۔ غم و اندوہ کے دریا میں ڈوبتی ابھرتی نثار حواس باختہ تھیں۔ انھوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ زندگی کی ناؤ ایسے تھپیڑے کھائے گی جس کا ذکر انھوں نے صرف مغربی ناولوں میں پڑھا تھا۔

مغرب جو صدیوں سے مذہبی جنون اور اقتدار کی ہوس میں مبتلا تھا، جس نے دو عظیم جنگوں میں اپنے کروڑوں شہری کھوئے تھے، اپنے تاریخی اور تہذیبی شہروں کے کھنڈر دیکھے تھے۔ ان کے پاس مس ٹھاکر داس اور کئی دوسری استانیوں اور دوستوں کے خط سرحد پار سے آتے تھے جو ان کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے۔ ان میں سے کئی خط انھوں نے سنبھال کر رکھے اور دل جب بہت تڑپا تو انھیں پڑھ کر ایک بار پھر انھیں اپنے آنسوؤں کے نم سے بھگوتی رہیں۔

سیاست میں اپنے خوابوں کی شکست اور مس ٹھاکر داس جیسی بے غرض استاد سے انجمن حمایت الاسلام کے بے رحمانہ سلوک نے انھیں تپ دق میں مبتلا کردیا۔ بہت مشکلوں سے انھیں اس مرض سے نجات مل سکی۔ زندگی کا حسن رخصت ہوا تھا لیکن اسے لشتم پشتم گزارنا تو تھا۔

’نقوش‘ کے لیے نثار کی کہانی ہاجرہ مسرور نے بعض اعتراضات کے ساتھ واپس کی اور یوں آہستہ آہستہ ان دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق استوار ہوا، پھر ایک امن کانفرنس میں ہاجرہ کی بہن اور معروف افسانہ نگار خدیجہ مستور برقعے میں لپٹی ہوئی ہمیں تقریر کرتی نظر آتی ہیں اور محفل میں موجود دوسرے ادیبوں سے بحث کررہی ہیں۔ 1950ء کے یہ وہ دن تھے جب نثار عزیز برقعہ اوڑھتی تھیں، سرخ انقلاب کے خواب دیکھتی تھیں اور انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسے میں شرکت کے لیے بیتاب رہتی تھیں، لیکن ہر طرف سی آئی ڈی کے مخبر پھرتے تھے۔

اس زمانے میں ان کا سب سے بڑا سہارا کتابیں تھیں، ان کا خیال تھا کہ نیا ملک وجود میں آگیا ہے تو اب یہاں ایک نیا نظام ہونا چاہیے جہاں امن اور آزادی ہو اور سب لوگ ایک دوسرے کے مساوی ہوں۔ وہ اشتراکی ادیبوں کے ناول پڑھ رہی تھیں اور اسپنگلر کی مشہور زمانہ کتاب ’زوال مغرب‘ سے بے حد متاثر تھیں، جسے پڑھنے کا مشورہ بعد میں قرۃالعین حیدر نے بھی انھیں دیا تھا۔ وہ نیاز فتح پوری اور کارل مارکس کو پڑھتیں۔ ریاضی سے انھیں عشق تھا، اس کے تھیورم حل کرتیں اور خوش رہنے کی کوشش کرتیں جو ان کے لیے محال تھا۔

اسی دوران ہمیں وہ لاہور کی ادبی فضا کی سیر کراتی ہیں۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کی شادی ہورہی ہے۔ ایلس فیض، طاہرہ مظہر علی، احمد ندیم قاسمی ہیں دلہنوں کے ساتھ دونوں دلہا بھی ہمیں اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ احمد علی خان اور ظہیر بابر جنھیں آنے والے دنوں میں اہم صحافی ہونا تھا۔

بن ماں کی نثار نے اپنے سال بھر چھوٹے بھائی سرتاج عزیز کو بیٹوں کی طرح سینے سے لگا کر رکھا، تاجی کہہ کر پکارا۔ سرتاج عزیز جب ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن کے لیے انٹرویو دینے جاتے ہیں تو ان کی قمیص دھلی ہوئی نہیں، اس کے باوجود ملازمت کے لیے منتخب ہوجاتے ہیں۔ کیا زمانے تھے کہ جب نوجوان کسی سفارش اور کلف لگی استری شدہ قمیص کے بغیر سرکاری ملازم رکھ لیے جاتے تھے۔

وہ یوپی اور دکن کی اپنی سہیلیوں کے ساتھ عصمت چغتائی اور قرۃالعین حیدر کو پڑھتیں، یوں کہئے کہ اردو ادب میں غوطہ زن رہتیں۔ ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے: ’’مجھے بہرحال یوپی اور حیدرآباد دکن کا سحر اپنی طرف کھینچے رہتا۔ ویسے بھی یہ خواتین بڑی شائستہ اور نفیس تھیں اور ان کے ملنے جلنے والے بھی دلچسپ لوگ تھے۔ شاہجہاں کے کمرے میں میرا کم جانا ہوتا لیکن بگھارے بینگن، بادام جالی، کرن پھول، لچھے، دکن کی چھبیلی اردو (میں بول کے بولی) اور عزیز احمد کے نالوں کی ہیروئنوں سے میری شناسائی ان کی ہی وساطت سے ہوئی۔‘‘

یہ وہ زمانہ تھا جب وہ مسلسل سفر میں رہیں۔ کبھی ایبٹ آباد، کبھی نتھیا گلی اور کبھی سوات۔ وہ حسین اور دل موہ لینے والے منظر جو انھوں نے انگریزی ناولوں میں پڑھے تھے۔ وہ یوں محسوس کرتیں جیسے اس علاقے کے ایک پر سکون اور آسودہ کردینے والے کاٹج میں رہتے ہوئے اور انگریزی کا کوئی ناول پڑھتے ہوئے وہ کسی ناول کے صفحوں میں جاگری ہیں۔ نثار اس سے پہلے ٹیگور کی نظمیں اور حجاب امتیاز علی کے ناول اپنی بیاضوں میں نقل کرتی رہی تھیں لیکن یہ 1951ء کی جولائی کا کوئی گرم دن تھا جب انھوں نے اپنے ناول ’نگری نگری پھرا مسافر‘ کا پہلا صفحہ لکھا۔

یہ ہماری ایک نہایت اہم ادیب کی پیدائش کا دن تھا۔ اس روز کے بعد نثار نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ پڑھتی رہیں، سوچتی رہیں، راتوں کے اندھیرے میں تاروں سے باتیں کرتی رہیں اور لکھتی رہیں۔ اپنے ناول انھوں نے سست رفتاری سے لکھے اور اس کا سبب یہ تھا کہ وہ سوچنے میں غرق رہتیں اور اس کے ساتھ ہی خاندان میں ہونے والی شادیوں کا انتظام و اہتمام بھی کرتیں۔ وہ دن اب دور رہ گئے تھے جب اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہ گڈے گڑیا کا بیاہ رچاتیں اور مسرت کا پیالہ گھونٹ گھونٹ پیتیں۔ اب ان کی شادی کے معاملات اٹھنے لگے تھے۔ ان کے خاندان میں کاکاخیلوں سے باہر شادی کا کوئی تصور بھی نہ تھا لیکن وہ اس طرح کی شادی سے خار کھائے بیٹھی تھیں، اس لیے ہر آنے والے رشتے سے انکار کرتی چلی گئیں۔

ان کے اندر ایک باغی لڑکی پہلے دن سے چھپی بیٹھی تھی، اب وہ لڑکی قامت نکالنے لگی۔ وہ گھر میں اپنے والد اور تاجی سے بحث کرتیں، بات کبھی خدا کے انکار تک جاپہنچتی لیکن پھر جس دھوم دھام سے انکار ہوا تھا اتنی ہی رسانیت سے واپسی بھی ہوجاتی۔ وہ ریاضی میں صوبے میں اول آئی تھیں، فلسفہ ان کا محبوب موضوع تھا، ادب پر وہ فدا پروانہ تھیں، ایسے میں اس کے سوا کیا ہوتا کہ ان کی تحریروں سے انحراف کی خوشبو آئے۔

1952ء کے یہی دن تھے جب وہ برقعہ اوڑھ کر پشاور میں ریڈیو اسٹیشن جانے لگیں لیکن وہاں انھوں نے ملازمت اختیار نہیں کی۔ ایک پشتو پروگرام میں کمپیئر کے طور پر ’گل بی بی‘ کے نام سے حصہ لیتی رہیں۔ جنوری 1952ء میں ریڈیو اسٹیشن پر ہی ان کی ملاقات اے ایس ڈی اصغر بٹ سے ہوئی جو بہ قول ان کے دراز قامت اور قبول صورت تھے۔ ادب پر گہری نظر رکھتے تھے اور یہ جان کر خوش ہوئے کہ نثار صرف کتابوں کی رسیا ہی نہیں خود لکھنے کے میدان میں قدم رکھ چکی ہیں۔ کچھ دنوں بعد نثار اور اصغر بٹ کی شادی ہوئی جس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اصغر کاکاخیل نہیں تھے۔ 1954ء میں کاکا خیلوں کی بیٹی نثار نے اپنی ضد پوری کرلی تھی۔

ان ہی دنوں سرتاج عزیز کی پوسٹنگ کا مسئلہ بھی اٹھا، افسران اعلیٰ انھیں پولیس سروسز میں بھیجنے پر مُصر تھے اور نثار کے چہیتے بھائی تاجی کا کہنا تھا کہ وہ ہرگز پولیس کے محکمے میں نہیں جائے گا، اسے اکاؤنٹس میں بھیج دیا جائے اور آخر کار سرتاج عزیز اپنی ضد میں کامیاب رہے۔

تاجی کی سال بھر بڑی بہن نثار بھی کچھ کم ضدی نہیں ثابت ہوئیں۔ وہ ادیب ہونا چاہتی تھیں سو ادیب ہوکر رہیں۔ قرۃالعین حیدر کا نام اس وقت مشہور ہوچکا تھا۔ نثار ان سے دلی وابستگی محسوس کرتی تھیں، اسی لیے سی ایم ایچ اسپتال میں اپنی ایک عزیز بچی کی تیمار داری کرتی رہیں کیونکہ وہاں قرۃالعین کی کزن نور افشاں امام بھی داخل تھیں۔ وہ ڈاکٹر تھیں ائیرفورس میں ملازمت اختیار کرچکی تھیں اور عینی اپنے مضامین میں بہت محبت سے ان کا ذکر کرتی تھیں۔ ڈاکٹر نور افشاں امام اس دنیا سے چند دنوں پہلے ہی رخصت ہوئی ہیں۔

باپ بستر مرگ پر تھے لیکن نثار مطمئن تھیں کہ انھیں ڈرپ لگ رہی ہے، کل پرسوں تک ٹھیک ہوجائیں گے۔ وہ ان کے سرہانے بیٹھی دوبارہ سے Gone With The Wind پڑھتی رہیں، مارگریٹ مچل کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا اور چہیتا باپ پل پل عدم آباد کو رخصت ہوتا رہا۔ یہ ان کی زندگی کا بہت بڑا صدمہ تھا، ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوا، کچھ دنوں وہ اس عالم میں رہیں، کتابیں پڑھتی رہیں، پھر جون اسٹوارٹ مل کی ’’آزادی‘‘ اور اس کی کشمکش حیات پڑھی، جس نے انھیں غم اور بے پایاں اداسی سے نکلنے میں مدد دی۔ انھوں نے لاہور کا رخ کیا جہاں ان کی سہیلیاں اور دوست تھے۔ وہیں انھوں نے 18مہینوں کی محنت سے لکھے جانے والے ناول ’’نگری نگری پھرا مسافر‘‘ کے حقوق اشاعت مکتبہ اردو کو صرف 300 روپوں میں فروخت کردیے۔ اس قلیل رقم کا انھیں ہمیشہ قلق رہا۔

ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ ابھی دل پر ستم کے کیسے کوہِ گراں ٹوٹنے والے ہیں، یہ رنج والم تمام ذاتی غموں کو پیچھے چھوڑ دیں گے۔(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔