آؤٹ یا ناٹ آؤٹ!

ایاز خان  اتوار 23 اپريل 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

قائد کے ایک اشارے کا انتظار کرنے اور پھر سپریم کورٹ سے فیصلے کے بعد مٹھائیاں بانٹنے اور کھانے والوں کی سمجھ میں بھی آگیا ہو گا کہ مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔ مستقبل قریب میں یہ مشکلات کم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ’’سرکاری‘‘تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ پانامہ کیس پر فیصلے کے بعد میاں صاحب کے لیے اب ’’ستے خیراں نیں‘‘۔

موجودہ صورتحال 2014ء سے یکسر مختلف دکھائی دیتی ہے۔ دھرنے میںکپتان تنہا کھڑا نظر آرہا تھا۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر تمام جماعتیں لیگی قائد کے ساتھ کھڑی تھیں۔ تب جمہوریت بچانے کے لیے نواز شریف کا دفاع کیا جا رہا تھا۔ آج میاں صاحب کافی حد تک تنہائی کا شکار لگ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وکلا برادری بھی تیزی سے اپوزیشن جماعتوں کی حمایت میں آرہی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار نے تو وزیراعظم کو الٹی میٹم بھی دے دیا ہے کہ وہ 7دن میں مستعفی نہ ہوئے تو احتجاج کیا جائے گا۔

ن لیگ کی طرف سے اپنے قائد کے دفاع میں بیانات داغے جا رہے ہیں۔ عابد شیر علی نے اپنے تمام کولیگ پیچھے چھوڑ دیے ہیں۔ موصوف نے آصف علی زرداری کو ملک کا سب سے بڑا دہشتگرد اور ساری برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل ) میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی ان کے الزامات کا جواب دینے کے لیے میدان میں ہے۔ لفظی گولہ باری میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ سوشل میڈیا پر الگ رونق لگی ہوئی ہے۔ ایسے ایسے لطیفے گھڑکے رکھے جا رہے ہیں کہ پڑھ کے کانوں کو ہاتھ لگانا پڑے۔

فیصلے کے چند گھنٹے بعد مٹھائی کھانے والے عمران خان بھی اب احتجاج کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ آصف علی زرداری پہلے ہی جلسے جلوس کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں قریب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔ 2014ء میں پیپلزپارٹی نے نواز شریف کو بچایا تھا، اب حالات مختلف ہیں۔ میاں صاحب کو اپنی وزارت عظمیٰ محفوظ رکھنے کے لیے سخت محنت کرنا پڑے گی۔ میاں صاحب سپریم کورٹ سے نا اہل نہیں ہوئے مگر بری بھی نہیں ہوئے۔ فیصلے میں ان پر باقاعدہ فرد جرم عاید کی گئی ہے۔ حدیبیہ پیپرمل کیس کی رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔

اس رپورٹ کو پیش کرنے کی مدت 45 دن رکھی گئی ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ اعتراض جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) پر ہے۔ ہمارے ہاں جے آئی ٹی کی تاریخ زیادہ شاندار نہیں ہے۔ یہ عموماً دہشت گردوں کے خلاف بنائی جاتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان پر الزامات کے حوالے سے جے آئی ٹی بنائی گئی ہے۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ جے آئی ٹی وزیراعظم اور وہ بھی نواز شریف جیسے وزیراعظم کے خلاف رپورٹ کیسے دے گی۔

ہم اپنے حالات کو مدنظر رکھیں تو جے آئی ٹی میں شمولیت کے لیے کئی امیدواروں نے اب تک اپنی خدمات بھی پیش کر دی ہوں گی۔ اور پھر ان کا تعلق بھی ان ہی اداروں سے ہے جن کے بارے میں معزز ججز صاحبان سخت ریمارکس دے چکے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کمیٹی کے ارکان وزیراعظم کو طلب کریں اور ان سے کڑے سوالات پوچھیں۔ یہاں تو پرائم منسٹر کی فیملی کو بھی پروٹوکول دینے کی روایت ہے۔ مخالفوں نے یہاں تک کہا کہ کوئی ملازم اپنے مالک سے سوال کیسے کر سکتا ہے۔

بہرحال یہ عام جے آئی ٹی نہیں ہے۔ ایک تو اس کے ارکان کی حتمی منظوری سپریم کورٹ  نے دینی ہے اور دوسرا 60دن تک اس کی مکمل نگرانی بھی عدالت عظمیٰ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔ٹیم کے لیے ہر 15 روز بعد رپورٹ پیش کرنے کا حکم بھی دے رکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے 13سوالات دے کر اس کمیٹی کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہیں۔ اسے ان سوالوں کے جواب لے کر عدالت کے سامنے رکھنے ہیں۔ ان حالات میں جے آئی ٹی کیا اور کیسے گڑ بڑ کر سکے گی،یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔

سپریم کورٹ میں جب تک کیس تھا۔ درخواست گزاروں پر بھی ثبوت پیش کرنے کی ذمے داری تھی، اب سارا بوجھ وزیراعظم اور ان کے خاندان کو اٹھاناہے۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان کے پاس منی ٹریل ہوتی تو وہ سپریم کورٹ میں پیش کرکے با عزت بری ہو چکے ہوتے۔ پامانہ کیس کا اگر فیصلے کے بعد بھی  فیصلہ نہیں ہوا تو اس کی واحد وجہ یہ ثبوت ہی ہیں جو پیش نہیں کیے جا سکے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کمیٹی کے ارکان خود یہ ثبوت یا شواہد تیار کر کے سپریم کورٹ میں پیش کر دیں۔

اپوزیشن کے مسترد کرنے کے باوجود جے آئی ٹی کی تشکیل کا ابتدائی کام شروع ہو گیا ہے۔ مستقبل کا نقشہ کچھ یوں بنتا نظر آ رہا ہے کہ اپوزیشن والے جلسے جلوس اور احتجاج کرتے رہیں گے اور جے آئی ٹی اپنا کام ۔کپتان نے دادو میں پہلا جلسہ کر لیا ہے، جمعہ کو جلسے کا اگلا پڑاؤ اسلام آباد ہوگا۔ زرداری صاحب مردان جا رہے ہیں۔ پانامہ فیصلے کے بعد عمران خان بھی مدت بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس تو خیر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہو گئے ہیں لیکن سڑکیں اور میدان پھر سے آباد ہونے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن جمہوریت بچانے کے لیے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرے گی اور حکومت اپوزیشن کے احتجاج جو جمہوریت کے خلاف ایک اور سازش سے تعبیر کرے گی۔ جلسے جلوسوں کے درمیان وزیراعظم بھی منصوبوں کے افتتاح پر افتتاح کرتے رہیں گے۔ گویا ایک نیا کھیل شروع ہو گیا ہے جس میں مخالف ٹیم نے نواز شریف کا آؤٹ مانگا تھا مگر فیصلہ ریفر کر دیا گیا ہے۔

تماشائیوں کی نظریں بڑی اسکرینوں پر لگی ہوئی ہیں کہ وہاں کیا نمودار ہوتا ہے۔ آؤٹ یا ناٹ آؤٹ۔ حکومت پراپیگنڈا مشینری بھی حرکت میں آچکی ہے۔ عوام میں یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا گیا ہے کہ وزیراعظم نے جے آئی ٹی تک تسلیم کر لی اور عمران خان سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکاری ہیں۔ لیکن کپتان کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس بار وہ اکیلے جمہوریت دشمن نہیں ہیں، ان کے ساتھ کچھ اور لیڈر بھی ہیں جو جمہوریت دشمنی کا خطاب پائیں گے۔

اپوزیشن نے جہاں احتجاج کرنے کا جواز پیدا کر لیا ہے وہیں ن لیگ کے پاس بھی جشن منانے کی معقول وجہ موجود ہے۔ نواز شریف کی سیاسی جانشین مریم نواز کو فیصلے میں ابھی تک کلین چٹ ملی ہے۔ حسین نواز اگر یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کے اونر وہ خود ہیں تو پھر یہ کلین چٹ مستقل ہو جائے گی۔ کلین چٹ تو ن لیگ کے قائد کو بھی مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے شواہد دینا پڑیں گے۔ قائد کے پاس شواہد ہیں تو استعفیٰ نہ دیں ورنہ جے آئی ٹی بھی نہیں بچا سکے گی۔

ن لیگ کے کارکن فی الحال صبر اور دوڈھائی ماہ بعد قائد کے اشارے کا انتظارکریں۔ یہ سارا کیس شواہد کے گرد ہی گھومتا ہے۔ دیکھیں جو شواہد پہلے نہیں دیے جا سکے، کیا اب پیش کیے جا سکتے ہیں۔ لگتا تو نہیں پر شاید؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔