لائف لائن

جاوید چوہدری  اتوار 23 اپريل 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

ہم اگر ٹھنڈے دماغ سے پانامہ کیس کے فیصلے کا تجزیہ کریں تو ہمیں اس فیصلے کا صرف ایک ’’بینی فیشل اونر‘‘ ملے گا اور وہ ’’اونر‘‘ ہیں مریم نواز شریف‘ عدالت نے انھیں مکمل ’’بری‘‘ کر دیا چنانچہ مستقبل کی سیاست اب مریم نواز اور بلاول بھٹو کے گرد گھومے گی‘ مریم نواز 2018ء کے الیکشنوں میں وزیراعظم بن کر ابھریں گی جب کہ آصف علی زرداری مزید تجربے اور مہارت کے لیے بلاول بھٹو کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنا دیں گے.

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کیا میاں نواز شریف کا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا‘ اس کا جواب ہاں ہے‘ کیوں؟ کیونکہ ہم اگر پانچ رکنی بینچ کا پورا فیصلہ پڑھیں تو خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں‘ وہ حقائق کیا ہیں؟ وہ حقائق یہ ہیں‘ شریف فیملی نے نیلسن اور نیسکول جیسی آف شور کمپنیوں کے بارے میں جو دستاویزات عدالت میں پیش کیں پانچوں جج ان سے مطمئن نہیں ہیں‘یہ انھیں ثبوت ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ جج صاحبان شریف خاندان کی منی ٹریل سے بھی مطمئن نہیں ہوئے.

یہ گلف اسٹیل مل‘ گلف اسٹیل مل کی فروخت‘ رقم قطر بھجوانے‘ جدہ اسٹیل مل‘ جدہ اسٹیل مل کی فروخت اور اس فروخت سے لندن میں کاروبار کی داستان سے بھی مطمئن نہیں ہیں‘ یہ قطری شہزادے کے خط سے بھی متاثر نہیں ہوئے اور جج صاحبان یہ ماننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ شریف فیملی نے چار فلیٹس 2006ء میں خریدے تھے اور یہ 1992ء سے شریف فیملی کی ملکیت نہیں ہیں‘ جج صاحبان نے حدیبیہ پیپر مل اور التوفیق بینک کے ایشو پر بھی شریف فیملی کا موقف تسلیم نہیں کیا.

عدالت نے یہ بھی تسلیم نہیں کیا یہ تمام معاملہ دادا اور پوتے کے درمیان تھا اور میاں نواز شریف اس میں شامل نہیں تھے اور جج صاحبان نے یہ بھی تسلیم نہیں کیا ’’شریف فیملی نے کسی قسم کی منی لانڈرنگ نہیں کی‘‘ چنانچہ عدالت نے تحقیقات اور کاغذات کی تصدیق کے لیے مشترکہ تفتیشی ٹیم بنا دی‘ عدالت اس ٹیم کی نگرانی کرے گی۔

میرا خیال ہے یہ ٹیم جب شریف فیملی سے کاغذات مانگے گی‘ جب ان کاغذات کی تصدیق ہو گی‘ جب ثبوت طلب کیے جائیں گے اور جب یہ ثبوت حقائق اور قوانین کی کسوٹی پر پرکھے جائیں گے تو یہ سارا معاملہ کھلتا چلا جائے گا‘ میرا خیال ہے شریف فیملی تفتیشی ٹیم کے سامنے ہرگز یہ نہیں کہہ سکے گی‘ ہمارے پاس مزید ثبوت نہیں ہیں یا ہمارے سارے کاغذات 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ضبط کر لیے تھے یا 1976ء میں سرمایہ اونٹوں یا صندوقوں پر دوبئی گیا تھا۔

شریف خاندان کو تفتیشی ٹیم کے سامنے ثبوت اور کاغذات بہرحال پیش کرنا پڑیں گے اور یہ ان لوگوں کے لیے آسان نہیں ہو گا کیونکہ یہ جو بھی کاغذ اور ثبوت ٹیم کے سامنے رکھیں گے‘ وہ ثبوت اور وہ کاغذ نیا پنڈورا باکس کھول دے گا اور یوں ایک کے بعد ایک نیا کیس کھلتا چلا جائے گا‘ ہمیں عدالت کے اس فیصلے کے بعد یہ بھی ماننا ہوگا تفتیشی ٹیم کے قیام کے بعد پانامہ لیکس پیچھے رہ جائیں گی اور شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کی تفتیش شروع ہو جائے گی اور یہ تفتیش بالآخر میاں نواز شریف کی ڈس کوالی فکیشن پر ختم ہوگی۔

ہماری فیصلہ ساز قوتوں کی پوری کوشش ہوگی میاں نواز شریف 2018ء کا الیکشن نہ لڑ سکیں خواہ انھیں روکنے کے لیے ان قوتوں کو آصف علی زرداری ہی کو آگے کیوں نہ لانا پڑے‘ یہ لے کر آئیں گی‘ میرا خیال ہے میاں نواز شریف کو اب کوئی معجزہ ہی ’’جے آئی ٹی‘‘ سے بچا سکتا ہے‘ یہ اپنی مرضی کی تفتیشی ٹیم بنانے‘ یہ تفتیش سے بچنے‘ تفتیش کے عمل کو لمبا کرنے اور عدالت میں دوبارہ کیس لڑنے کی کوشش کریں گے لیکن یہ تمام نسخے شاید اب کارگر ثابت نہ ہوں‘ یہ شاید اب نہ بچ سکیں‘ یہ درست ہے یہ بے انتہا خوش قسمت انسان ہیں اور قدرت انھیں تمام بحرانوں سے بچا لیتی ہے لیکن شاید ان کی خوش قسمتی کی ’’ایکسپائری‘‘ تاریخ آ چکی ہے۔

قدرت شاید اب مزید ان کا ساتھ نہ دے چنانچہ میاں نواز شریف کے لیے بہتر ہے یہ پسپائی اختیار کریں‘ یہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہو جائیں‘ یہ پارٹی کی قیادت کریں‘ میاں شہباز شریف کو تیسری مدت کے لیے وزیراعلیٰ بنائیں‘ مریم نواز شریف کو وزیراعظم بنوا دیں اور خود پیچھے بیٹھ کر حکومت کرتے رہیں‘ میاں صاحب اگر یہ فیصلہ کر لیں تو یہ ان کے لیے بھی بہتر ہوگا اور ملک کے لیے بھی‘ یہ 35 برسوں سے سیاست میں ہیں‘ یہ تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں چنانچہ یہ ملک کے واحد بڑے تجربہ کار لیڈر ہیں‘ یہ تجربہ ملک کی فلاح وبہبود کے لیے اہم ہے‘ یہ اگر چند قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور یہ مریم نواز کو آگے لے آتے ہیں‘ یہ خود پارٹی پر بھی توجہ دیتے ہیں اور یہ مریم نواز کی رہنمائی بھی کرتے رہتے ہیں تو یہ بھی محفوظ رہیں گے‘ ان کی پارٹی بھی‘ خاندان بھی اور ملک بھی لیکن یہ اگر اس کے برعکس اداروں سے ٹکرا جاتے ہیں اور یہ تفتیشی ٹیم اور عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ خوفناک نقصان اٹھائیں گے۔

یہ ایک بار پھر ملک سے باہر جانے پر مجبور ہو جائیں گے اور یہ ان کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی برا ہو گا‘ ہمیں ماننا ہوگا میاں نواز شریف کے بعد ہمارے پاس کوئی تجربہ کار لیڈر موجود نہیں اور یہ ملک اب زیادہ تجربوں کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ عدالت نے مریم نواز کو کیس سے الگ کر کے شریف خاندان کو ایک لائف لائین دے دی ہے‘ یہ بہت بڑی رعایت ہے‘ میاں صاحب کو اس رعایت کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور انھیں عملی سیاست سے الگ ہونے اور مریم نواز کو اگلا وزیراعظم بنانے کا اعلان کر دینا چاہیے‘ یہ فیصلہ اور یہ اعلان موجودہ حالات میں عقل مندی ہو گی۔

ہم ملک کے موجودہ حالات میں آصف علی زرداری کو زیادہ دیر تک سائیڈ پر نہیں رکھ سکیں گے‘ یہ ڈیل کے استاد ہیں اور یہ جان چکے ہیں میاں نواز شریف اگر اسی طرح اداروں کے خلاف ڈٹے رہے تو کوئی جماعت 2018ء کے الیکشنوں میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی‘ حکومت لوڈ شیڈنگ‘ پانامہ ایشو اور فوج کے ساتھ مسلسل لڑائی کی وجہ سے نقصان اٹھائے گی اور میاں نواز شریف اگر الیکشن کے قریب پہنچ کر ’’ڈس کوالی فائی‘‘ ہو جاتے ہیں اور ان کی پارٹی اور خاندان میں پھوٹ پڑ جاتی ہے تو ان کا مینڈیٹ سکڑ جائے گا اور اس صورتحال کا فائدہ آصف علی زرداری کو ہو گا‘ یہ تمام چھوٹی جماعتوں کو جمع کریں گے‘ انھیں ان کی مرضی کی وزارتیں دیں گے‘ خود وزیراعظم بنیں گے اور بلاول بھٹو کو وزیراعلیٰ سندھ بنا دیں گے۔

بلاول پانچ برسوں میں کارسرکار کو سمجھ جائیں گے‘ یہ تجربہ کار اور سمجھ دار ہو جائیں گے اور آصف علی زرداری بعد ازاں انھیں وفاق میں لے آئیں گے چنانچہ شطرنج کی بازی پر اس وقت دو کھلاڑی بیٹھے ہیں‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف اگر حالات کو نہیں سمجھتے‘یہ اگر تین ماہ کی مہلت کو سال تک پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ یہ اگر پیچھے نہیں ہٹتے اور یہ اگر فیصلہ ساز قوتوں کے ساتھ ٹکرانا بند نہیں کرتے تو آصف علی زرداری کامیاب ہو جائیں گے اور یہ 2018ء میں فیصلہ کن قوت بن جائیں گے۔

آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہو رہے ہیں‘ یہ قربت ان کے ساتھیوں کی رہائی کی شکل میں بھی سامنے آ رہی ہے اور ان کی پاکستان میں موجودگی کی صورت میں بھی‘ میاں صاحب نے اگر حالات کی نزاکت کا اندازہ نہ لگایا تو یہ قربت بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ 2017ء کے آخر تک ’’زرداری‘ اگلی باری‘‘ ہو جائیں گے اور مصطفی کمال‘ فاروق ستار‘ مولانا فضل الرحمن اور چوہدری صاحبان انھیں جوائن کر لیں گے اور اگر میاں صاحب حالات کی نزاکت کو سمجھ گئے‘ یہ پسپا ہو گئے۔

عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے اور یہ نئے چہرے سامنے لے آئے تو اگلی حکومت بھی پاکستان مسلم لیگ ن بنا لے گی اور یوں شریف فیملی کا اقتدار وسیع ہو جائے گا‘ میاں نواز شریف پارٹی چلائیں گے‘ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ ہوں گے اور مریم نواز وزیراعظم ہوں گی‘ آپ یہاں فرض کر لیجیے میرے یہ سارے مفروضے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور میاں نواز شریف تمام بحرانوں سے نکل جاتے ہیں‘ یہ تفتیشی ٹیم کو بھی مطمئن کر لیتے ہیں‘ یہ عدالت کو بھی منا لیتے ہیں‘ یہ آصف علی زرداری اور عمران خان کو بھی مینج کر لیتے ہیں اور یہ لوڈ شیڈنگ بھی ختم کر دیتے ہیں اور اس کے بعد یہ 2018ء کے الیکشنوں میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا ہوگا؟ تو بھی صورتحال زیادہ دیر تک میاں صاحب کے حق میں نہیں رہے گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس اعجاز افضل خان اگلے چیف جسٹس ہوں گے اور یہ دونوں ججز میاں نواز شریف کو کرپٹ اور نااہل ڈکلیئر کر چکے ہیں لہٰذا میاں صاحب ان کی موجودگی میں اطمینان سے حکومت نہیں کر سکیں گے‘ یہ اپنے اقتدار کی باقی مدت عدالت کے برآمدوں میں گزاریں گے چنانچہ میاں صاحب کے لیے یہی بہتر ہے یہ عدلیہ کی دی ہوئی ’’لائف لائین‘‘ کو تسلیم کر لیں‘ یہ خود پیچھے ہٹ جائیں اور مریم نواز کو آگے لے آئیں‘ یہ میاں صاحبان اور ملک دونوں کے لیے بہتر ہوگا ورنہ دوسری صورت میں مکمل تباہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔