سمندر میں پلاسٹک کا کچرا برفانی آرکٹک میں جمع ہورہا ہے

ویب ڈیسک  منگل 25 اپريل 2017
دنیا کی آبادی پلاسٹک بوتلوں، شاپنگ بیگز اور دیگر اشیا کو سمندر برد کررہی ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل

دنیا کی آبادی پلاسٹک بوتلوں، شاپنگ بیگز اور دیگر اشیا کو سمندر برد کررہی ہے، ماہرین، فوٹو؛ فائل

گرین لینڈ: ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ہمارے سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار اندھا دھند بڑھتی جارہی ہے اور یہ پلاسٹک ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے آرکٹک جیسے دوردراز علاقوں میں بھی پہنچ رہا ہے۔

جرنل سائنس ایڈوانسس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق انسان ہر سال ہزاروں لاکھوں ٹن پلاسٹک سمندروں میں پھینک رہا ہے اور وہ ہر مقام پر سمندروں کو آلودہ کرتا ہوا آرکٹک خطے میں بھی جمع ہورہا ہے۔

آرکٹک قطبی دائرے (پولر سرکل) کا پانی پلاسٹک کے کچرے سے قدرے کم آلودہ ملا ہے جب کہ گرین لینڈ اور بیرنٹس سمندروں میں اس کی زائد مقدار پائی گئی ہے۔ اس حوالے سے نئی رپورٹ میں خلاصہ پیش کرتے ہوئے ماہرین نے لکھا ہے ’’اندازہ ہے کہ اس وقت دنیا کے تمام سمندروں میں 3 لاکھ ٹن پلاسٹک جمع ہوچکا ہے اور یہ دنیا کے 6 مختلف آبی مقامات پر جمع ہورہا ہے۔ 1997 میں چارلس مور نے پلاسٹک کے ڈھیروں کو اس وقت دریافت کیا تھا جب وہ بحرالکاہل سے اپنے سفر کے لیے روانہ ہوئے تھے۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی آبادی پلاسٹک بوتلوں، شاپنگ بیگز اور دیگر اشیا کو سمندر برد کررہی ہے۔ یہ پلاسٹک سمندری لہروں اور بہاؤ سے دھیرے دھیرے پوری زمین کو لپیٹ میں لے رہا ہے۔ اس پر مزید تحقیق کے لیے 8 ممالک اور 12 بین الاقوامی جامعات نے ایک سروے کیا جس میں ہارورڈ یونیورسٹی اور شاہ عبداللہ یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی بھی شامل تھیں۔

تحقیقی ٹیم نے آرکٹک خطے کے 42 مقامات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جن میں گرین لینڈ، بیرنٹس، مشرقی سائبیریا، بفن بے، اور لیبراڈور سمندر وغیرہ شامل تھے۔ خاص آلات کے ذریعے ماہرین نے 330 مائیکرومیٹر سے چھوٹے پلاسٹک ذرات بھی جمع کیے۔

اس طرح معلوم ہوا کہ انسانوں سے بہت دور انتہائی برفیلے علاقوں کا پانی بھی پلاسٹک سے محفوظ نہیں رہا۔ 2015 کے ایک سروے سے معلوم ہوا تھا کہ 20 فیصد چھوٹی مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک  کے ذرات پائے گئے جو پانی میں پلاسٹک کی ہوش ربا مقدار کو ظاہر کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔