وزارتوں میں رابطوں کا فقدان، 200 ارب کا ترقیاتی بجٹ لیپس ہونیکا خدشہ

حسیب حنیف  پير 24 اپريل 2017
کراچی گرین لائن بس، کراچی حیدر آباد موٹروے، ایم نائن، اسلام آباد ایئرپورٹ، میٹرو بس سروس کیلیے رقم جاری نہ ہوسکی۔ فوٹو: فائل

کراچی گرین لائن بس، کراچی حیدر آباد موٹروے، ایم نائن، اسلام آباد ایئرپورٹ، میٹرو بس سروس کیلیے رقم جاری نہ ہوسکی۔ فوٹو: فائل

وزارت منصوبہ بندی اور متعلقہ وزارتوں کے مابین رابطے کے فقدان کے باعث مالی سال 2016-17کے دوران 800 ارب روپے مختص ترقیاتی بجٹ میں سے صرف 579ارب روپے جا ری کیے جا سکے جس کے باعث 200 ارب روپے تک ترقیاتی بجٹ کے لیپس ہونے کا خدشہ ہے۔

رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں کراچی گرین لائن بس ٹرانز ٹ سسٹم، کراچی حیدر آباد موٹر وے، ایم نائن، اسلام آباد ایئرپورٹ، میٹروبس سروس، داسوہائیڈرو پاور پروجیکٹ اسٹیج ون، گولن گول ہائیڈرو پروجیکٹ، نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ، تر بیلا4ہائیڈروتوسیعی منصوبہ، جامشورو، کول فائرڈ پاور پلانٹس، یونیورسٹی آف بلتستان کے قیام، سی پیک کے تحت گوادر اسپتال کو 50 بیڈ سے300 بیڈ تک اپ گریڈ کرنا، اسپیشل گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ اسکیموں کے لیے تاحال کوئی رقم جاری نہیں کی گئی۔

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ترقی و اصلاحات کے معاون خصوصی عاصم نیازی نے رابطہ کرنے پر کہا کہ ابھی مالی سال کے ختم ہونے میں 2 مہینے باقی ہیں جو فنڈز جاری نہیں ہوئے انہیں بھی زیر استعمال لایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت، وزارتوں اور ڈویژنوں کے مابین رابطوں کے فقدان اور منصوبوں پر کام کی رفتار سست ہونے کے باعث سالانہ ترقیاتی پروگرام کے فنڈز کے استعمال میں شدید مشکلات درپیش ہیں متعدد منصوبے ایسے ہیں جن کے لیے رواں مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں بھاری رقم مختص کی گئی لیکن ان منصوبوں پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی جس کے باعث ان فنڈز کے لیپس ہونے کا خدشہ ہے۔

20 فیصد ترقیاتی بجٹ تاحال متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنوں کو نہیں دیا جا سکا۔ اس میں بعض ادارے ایسے ہیں جنہیں سالانہ ترقیاتی پروگرام کی مد میں ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا جاسکا جس کے باعث ان فنڈز کے لیپس ہونے کے ساتھ ساتھ یہ فنڈز جاری نہ کرنا حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی جانب بھی اشارہ کر تے ہیں۔ ایسے منصوبے جن کے لیے بالکل فنڈز جاری نہیں کیے گئے ان میں حکومتی ترجیحات میں شامل چائنا پاکستان اقتصادی راہداری، پانی و بجلی، صحت اور تعلیم سے متعلقہ اہم منصوبے بھی شامل ہیں۔

اس وقت اگر فنڈز سے محروم رہنے والے توانائی منصوبوں کی بات کی جائے تو نیلم جہلم ہائیڈر و پروجیکٹ کیلیے مختص 17ارب 20کر وڑ، منگلا پاور اسٹیشن اپ گریڈیشن آف جنریشن یونٹ کیلیے مختص 1 ارب 41 کروڑ 10 لاکھ، تربیلا چوتھا توسیعی منصوبے 15 ارب 70کروڑ، گولن گول ہائیڈر و پروجیکٹ 1ارب 74 کروڑ 90لاکھ، داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اسٹیج ون 2 ارب اور جامشورو میںکول فائرڈ پاور پلانٹس کے لیے مختص9 ارب 50 کروڑ روپے میں سے ایک روپیہ بھی جا ری نہیں کیا جا سکا۔

اسی طرح کر اچی میں گرین لائن بس ٹرانزٹ سسٹم کیلیے مختص 5ارب ، اسلام آباد ائیر پورٹ میٹرو بس سروس کیلیے 4ارب روپے مختص جا ری نہیں کیے گئے، انفراسٹرکچر کے دیگر منصوبوں میں کرا چی حید ر آباد ایم 9 موٹر وے کے لیے 1ارب ، انڈس ہائی وے کو بنو روڈ این 55پر دو روئیا کرنے کے لیے 80کروڑ، ملتان، مظفر گڑھ، ڈی جی خان سیکشن این 70کے لیے 40کروڑ، چائنہ پاکستان اقتصادی راہدا ری کے تحت یا رک ، مغل کو ٹ اور ژوب سیکشن این 50کو دوروئیا کرنے کے ساتھ ساتھ لینڈ ایکو زیشن کیلیے 85کروڑ روپے جاری نہیں کیے جا سکے۔

دوسری جانب سے صحت کے منصوبوں کی بات کی جائے تو نشتر ہسپتال ملتان میں کینسر ٹریٹمنٹ فیسلٹی کیلیے 10کروڑ ، پمز میں نیو ر و سائنسز سینٹر کے قیام کیلیے ساڑھے 19کروڑ جا ری نہ کیے گئے ، تعلیم کے سیکٹر میں حید ر آباد سندھ میںفیڈرل یونیورسٹی کے قیام کیلیے 15کروڑ، بیو ٹمز کا ژوب میں کیمپس قائم کرنے کیلیے 15کروڑ ،یونیو رسٹی آ ف بلتستان کے قیام کیلیے 20کر وڑروپے اور چائنہ پاکستان اقتصادی راہد اری کے تحت گوادر میں 50بیڈ کے ہسپتال کو اپ گریڈ کر کے 300بیڈ کرنے کیلیے 40کروڑ 80لاکھ روپے جا ری نہ کیے جا سکے اسی طرح گیس انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ فنڈ ز کی مد میں 25ارب روپے سے زائد کی اسپیشل پروگرام کے تحت رقم استعمال میں نہیں لائی جاسکی۔

مذکورہ بالا ایسے منصوبے ہیں جن کیلیے پی ایس ڈی پی میں رقم مختص کرنے کے باوجود تاحال ایک روپیہ بھی جا ری نہیں کیاجا سکا جس کے باعث پی ایس ڈی پی سے اربوں روپے کے منصوبوں کے لیے رقم جا ری نہ ہونے کے باعث فنڈز کے لیپس ہونے کا خد شہ ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔