مصرکے مقبرے سے ممیاں اورمورتیاں برآمد

ویب ڈیسک  بدھ 26 اپريل 2017
مصر میں لکسر کے مقام پر نئے آثار قدیم مصری تہذیب کے بارے میں نئے عہد کی عکاسی کرتے ہیں،
 فوٹو: بشکریہ یاہو نیوز

مصر میں لکسر کے مقام پر نئے آثار قدیم مصری تہذیب کے بارے میں نئے عہد کی عکاسی کرتے ہیں، فوٹو: بشکریہ یاہو نیوز

قاہرہ: مصر میں آثارِ قدیمہ پر کام کرنے والے ماہرین نے لکسر کے مقام پر ایک نئے آثار دریافت کیے ہیں جن میں کئی حنوط شدہ لاشیں (ممی) اور ایک ہزار کے قریب قیمتی مورتیاں شامل ہیں۔

مصر کی وزارت برائے آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے لکسر کے مقام پر کئی اہم مقبرے اور بھول بھلیوں جیسے راستے دریافت کیے ہیں جو 1550 سے 1070 قبل مسیح  کے قدرے جدید مصری عہد (نیو کنگڈم) سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس اہم دریافت میں کئی ممیاں اور ایک ہزار کے قریب قیمتی مورتیاں شامل ہیں۔

اس عہدِ شاہی میں پورا مصر متحد تھا اور جو مشرقِ وسطیٰ سے لے کر آج کے سوڈان تک وسیع تھا۔ اس اہم ریاست کے خاتمے کے بعد اس کا کمپلیکس کھول کر اس میں کئی لاشیں اور نوادرات رکھے گئے تھے اور اسے دوبارہ بند کردیا گیا تھا۔

پُرپیچ راہداریوں سے ہوتے ہوئے کئی خفیہ کمروں میں انسانی باقیات، ممیاں اور دیگر مورتیاں ملی ہیں۔ ممیوں کے تابوتوں کا رنگ کئی ہزار سال بھی مدھم نہیں ہوا اور اس کے رنگ بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسے لکسر کے آثار میں ایک قبرستان قرار دیا گیا ہے جسے اکثر ’’دارالابو ال نگا‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے مجموعی طور پر 8 حنوط شدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

یہاں سے مٹی، گارے اور لکڑی کی موررتیاں بھی نکلی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس عہد میں قدیم مصری مردوں کے ساتھ مورتیاں دفنایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مٹی سے بنے ہوئے ثابت اور ٹوٹے پھوٹے برتن بھی یہاں سے ملے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔