انسان اب بالغ ہو چکا ہے

سعد اللہ جان برق  منگل 25 اپريل 2017
barq@email.com

[email protected]

اس سے پہلے جب دنیا نابالغ اور انسان ابھی بچہ تھا تو دونوں یعنی دنیا اور انسان بچوں  جیسی باتیں کرتے تھے۔ بچوں کی طرح کھیلتے کودتے  اور کھلونوں سے بہل جاتے تھے، سوچ بھی کچی تھی ، اس لیے اچھی بری چیزوں کے پہچاننے کا سلیقہ بھی نہیں رکھتے تھے لیکن اب دونوں ’’عاقل و بالغ و دانا و زفت‘‘ ہو گئے ہیں، معلوم نہیں  یہ حادثہ کب ہوا،  خیر ہم کوئی سالگرہ نہیں منا رہے ہیں کہ دونوں کی بلوغت کی ٹھیک ٹھیک تاریخ معلوم کریں، بس ہو گئے، اس کے بعد ایسی بہت ساری چیزیں اچھی لگنے لگیں جو پہلے بری اور ایسی بے شمار چیزیں جو انھیں عزیز تھیں اب بری اور نفرت انگیز ہو گئیں، لیکن یہ صرف وہ لوگ جانتے ہیں جو بالغ ہو چکے ہیں جو ابھی نابالغ ہیں وہ بدستور اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھ رہے ہیں۔

آپ کو یہ پتہ بالکل بھی نہیں ہو گا کہ پچھلے زلزلے اور سیلاب سے کتنے لوگ آباد بلکہ شاد بھی ہو گئے تھے۔  ہاں تھوڑا بہت نقصان بھی سنا ہے ہوا ہے لیکن وہ کوئی خاص بات نہیں بلکہ ایک طرح سے گند، غلاظت اور کوڑا کرکٹ صاف ہو گیا۔ بہت اچھا ہوا وہ انسان بالکل نہیں تھے، حیوان تھے۔   مطلب میرا کہنے کا یہ ہے کہ اب ہماری سمجھ میں آچکا ہے کیوں کہ ہم بالغ سمجھ دار اور دوربین و خوردبین ہو چکے ہیں، مثال کے طور پر یہ جو دہشت گردی عالمی لوگ اسے برا بھلا کہتے رہتے ہیں کہ اس کے ہاتھ ٹوٹ جائیں پاؤں لنگڑے ہو، بدن میں کیڑے پڑیں لاری کے نیچے آئے، اس کے بچے مریں لیکن یہ صرف ’’بالغ‘‘ جانتے ہیں کہ کتنی کثیر الفوائد چیز ہے۔

ملٹی پرپز ہتھیار ہے، جنرل اسٹور ہے، اسے دیکھ کر ہمیں اکثر اپنا ایک چاقو یاد آتا ہے جو نہ جانے ہمیں کہاں سے ملا تھا اور پھر کون چور کا بچہ چرا لے گیا،کیا بتائیں اب  اس چاقو کا خیال آتا ہے تو دکھ کی ایک لہر دل سے اٹھتی ہے یقیناایسی بھی درد کی لہر ان لوگوں کے دلوں میں اٹھے گی اگر یہ دہشت گردی کا ’’گل صد برگ‘‘ مرجھا گیا، ایسا چاقو آپ نے بھی دیکھا ہو گا کیونکہ آج کل یہ عام مل جاتے ہیں لیکن اس زمانے میں ہمارے علاوہ اور کسی کے پاس نہیں تھا، بے شمار اقسام کے چاقوؤں کے پھل، پیج کس، سبمے، بوئل کا کاک نکالنے والا پیچیدار آلہ، سافٹ ڈرنک کا ڈھکنا ہٹانے والی ایک چھوٹی سی آری، دو شاخے سہ شاخے اور ایک طرف چھوٹا سا چمچہ بھی، کل ملا کر کوئی سترہ اٹھارہ چیزیں اس میں تھیں بلکہ ایک موچنا، دانتوں کا پک اور کن میلیا تو دستے کے اندر بھی تھے اور ایک خاص مقام پر سوئی اور دھاگہ بھی، جتنی محنت اس کو چاقو بنانے والے مستری نے کی تھی۔

اس کہیں کئی گنا محنت  ہمیں اس دہشت گردی کے چاقو میں نظر آتی ہے، سب سے پہلا اور بڑا کام  تو اس کا بازاروں کی صفائی کہ ادھر ادھر سے آنے والا فالتو کوڑا کرکٹ ’’تلف‘‘ ہو جاتا وہی جو انسان نہ ہوتے ہوئے بھی انسان کا حلیہ بنائے رکھ کر لوگوں کو، حکومت کو اور حکومت کے معصوم محکموں اور اداروں کو دھوکا دیتے رہتے ہیں بلکہ اکثر تو خود کو ووٹ بنا کر مخلص دیانت دار اور خادمان ملک و ملت بلکہ ارض و سما کو پریشان بھی کرتے ہیں، ہر وقت کوؤں کی طرح شور مچاتے رہتے ہیں،سڑکوں پر یہاں وہاں پھر ٹرک بس اور کاروں کے ڈرائیوروں کے آرام میں مخل ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھوں نے قسم کھا رکھی ہو کہ اس ملک کو باغ و بہار بنانے والے ’’خادموں‘‘ کو چین کی نیند نہیں سونے دیں گے، بلکہ اب تو انھوں نے ایک نئی شرارت بھی شروع کی ہوئی ہے۔

فضول بے مقصد یا جھوٹ موٹ کے بہانے بنا کر سڑکوں پر ادھر ادھر ہوتے رہتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والوں اور محافظوں کو تنگ کرتے رہیں، مطلب یہ کہ اگر ایسے گند کو تلف کرنا ہے تو دہشت گردی کو برا کیسے قرار دیا جا سکتا ہے، ہم بے شک بالغ ہیں لیکن ابھی اتنا قد کاٹھ نہیں نکالا ہے کہ دہشت گردی کے ان فوائد تک بھی پہنچ جائیں جو ذرا اونچے پیمانے کے ہیں اس لیے ان سے کتراتے ہوئے صرف ان فوائد تک محدود ہیں جو ہمارے قد کی رینج میں ہیں لیکن اس کی تفصیل سے بھی مفرور رکھئے کہ ان میں کچھ مقدس مقامات پر جانا پڑتا ہے اور ابھی ہم اس قابل نہیں ہوئے کہ وہاں جانے کا پروانہ حاصل کریں اور بغیر پروانے کے جانے کا نقصان بہت بڑا ہے، جان و مال کی تو خیر سے ایمان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے اور ایک ہی جھٹکے میں ہمارے ماتھے پر کفر کا ٹھپہ لگ سکتا ہے، لیکن اس کی کچھ زیادہ ضرورت بھی نہیں کیوں کہ ہمارے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگ اتنے بالغ ہو چکے ہیں جو دہشت گردی کے فوائد کا ٹھیک ٹھیک اندازہ وادراک کر سکتے ہیں اور یہ عظیم الشان نکتہ پا سکتے ہیں کہ بظاہر بری چیز میں بھی کتنے فوائد پوشیدہ ہو سکتے ہیں، ایک مرتبہ ایک بہت بڑے افسر نے ہم سے پوچھا تھا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے بارے میں آپ کا خیال ہے۔

آپ کو تو پتہ ہے کہ افسر لوگ  شیشے کی طرح ہوتے ہیں چنانچہ ہم نے ان کو ایک بہت پرانا نظریہ بتایا، جب خاندانی منصوبہ بندی کے ایک اجلاس میں ہم سے پوچھا گیا تھا، دراصل ایک خاص قسم کے لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی میں شامل کرنے کی بات تھی، ہم نے عرض کیا کہ جیسے آپ خاندانی منصوبہ بندی میں اپنا معاون بنانے چلے ہیں اس کا فائدہ اور کمائی بچے کے پیدا ہوتے ہی  شروع ہو جاتی ہے، حقیقہ، ختنہ، شادی بیاہ، نکاح، طلاق اور بچوں سے ہوتے ہوئے چہلم اور برسی تک جاری رہتی ہے، کیا وہ پاگل ہے جو اپنی  کمائی کا گلا گھونٹ ڈالے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔