اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے خلاف مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں ناکام

عامر خان  منگل 25 اپريل 2017
پی ٹی آئی نے پی پی کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے حوالے سے معذرت کر لی ہے۔ فوٹو : فائل

پی ٹی آئی نے پی پی کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے حوالے سے معذرت کر لی ہے۔ فوٹو : فائل

 کراچی: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف ’’گو نواز گو تحریک ‘‘چلانے کے معاملے پر مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں اس لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے انفرادی طور پر حکومت مخالف تحریک کا آغاز کردیا ہے۔

اپوزیشن کی تقسیم کے سبب وزیراعظم کے استعفے کے حوالے سے شروع ہونے والی تحریک کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے نظر آ رہے ہیں تاہم حکمراں لیگ نے اپوزیشن کی’’ گو نواز گو تحریک‘‘ کا مقابلہ کرنے کیلیے ہم خیال جماعتوں سے رابطوں اور عوامی رابطہ مہم میں تیزی لانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

دوسری جانب حکمراں لیگ سیاسی محاذ آرائی کے بجائے انفرادی سطح پر سیاسی جماعتوں سے ’’مذاکراتی‘‘ حکمت عملی کے تحت وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر بات چیت کرے گی اور ان کو قائل کیا جائے گا کہ اگر عدالت نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا تو نواز شریف کی جگہ کسی اور سینئر لیگی رہنما اور رکن قومی اسمبلی کو وزیراعظم نامزد کر دیا جائے گا، اس حکمت عملی کا مقصد اپوزیشن کی ’’گو نواز گو تحریک ‘‘ کو ناکام بنانا ہے۔

اپوزیشن ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف زرداری کے پس پردہ اور مختلف سیاسی ذرائع سے چوہدری شجاعت، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، ڈاکٹر طاہر القادری سمیت دیگر قومی رہنماؤں سے رابطے ہوئے ہیں۔ ان رابطوں میں مشترکہ سیاسی اتحاد اور حکومت مخالف تحریک پر تفصیلی مشاورت ہوئی ہے جبکہ آصف زرداری، وزیراعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے کیلیے ’’گو نواز گو تحریک‘‘ کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر شروع کرنے کیلیے سیاسی طور پر متحرک نظر آ رہے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے اس معاملے پر بھی پس پردہ رابطے ہوئے ہیں تاہم پی ٹی آئی نے پی پی کے ساتھ مل کر حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے حوالے سے معذرت کر لی ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق نے بھی پی پی کا ساتھ دینے کے حوالے سے کوئی گرین سگنل نہیں دیا ہے، طاہر القادری بھی فی الحال ساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔