نیویارک کا جگمگاتا ’ٹائمز اسکوائر‘

قیصر رونجھا  منگل 25 اپريل 2017
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جیسے پسماندہ علاقے سے نیویارک جیسے عالمی شہر تک کا سفر میرے لئے نیا نہیں لیکن اِس شہر کے اندر جو بات ہے، وہ شاید ہی میں نے لندن، برلن سمیت کسی اور شہر میں پائی ہو۔ فوٹو: قیصر رونجھا

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جیسے پسماندہ علاقے سے نیویارک جیسے عالمی شہر تک کا سفر میرے لئے نیا نہیں لیکن اِس شہر کے اندر جو بات ہے، وہ شاید ہی میں نے لندن، برلن سمیت کسی اور شہر میں پائی ہو۔ فوٹو: قیصر رونجھا

بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جیسے پسماندہ علاقے سے نیویارک جیسے عالمی شہر تک کا سفر میرے لئے نیا نہیں لیکن اِس شہر کے اندر جو بات ہے، وہ شاید ہی میں نے لندن، برلن سمیت کسی اور شہر میں پائی ہو۔ اِس شہر کی رونق، چال چلن آدمی کو تھامے رکھتی ہے، محظوظ کرتی رہتی ہے۔

میں نے تقریباََ ایک سال کے عرصے کی رہائش کے دوران اِس شہر کو امریکیوں کا نہیں بلکہ دنیا والوں کا شہر پایا۔ مختلف رنگ، نسل، مذہب، قوم و زبان کے ساتھ ہر نظر آنے والا شخص دوسرے جیسا ہی دِکھتا ہے لیکن مخلتف ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کو جو شے اِس شہر میں جوڑے رکھتی ہے وہ ’’تلاش‘‘ ہے۔ کوئی یہاں ایک بہتر کل کی تلاش میں ہے تو کوئی یہاں مواقع کی تلاش میں ہے، کوئی سکون کی تلاش میں تو کوئی پیچھے رہ جانے والوں کے لئے ایک بہتر آج کی تلاش میں ہے، میں بھی ایک ’’تلاش‘‘ کے چکر میں یہاں تک آپہنچا۔ میری تلاش تھی جاننا، سیکھنا اور یہ سمجھنا کہ وہ کیا چیز ہے، جو ایک قوم کو دوسری اقوام سے مخلتف بناتی ہے، میری تلاش ابھی جاری ہے لیکن یہ میرا اِس شہر میں آخری مہینہ ہے۔

اِس شہر کی چکاچوند روشنیوں کا مرکز ”ٹائم اسکوائر‘‘ ہے۔ یہ شہر ایونیوز اور اسٹریٹس میں تقسیم ہے۔ ٹائم اسکوائر، نیویارک کے ’’صدر‘‘ کا ریگل چوک ہے۔ یہ تھیٹرز کے لئے مشہور براڈ وے ایونیو اور سینونتھ ایونیو کا سنگم ہے۔ اِس کی روشنیاں آنکھوں اور خوابوں کو روشن کرتی ہیں۔ آنے والوں کی حیرانی، جانے والوں کی مسکراہٹیں اور حسرتیں، دوستوں کا، جوڑوں کا، خاندانوں کا روشنیوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہوئے یہ عہد کہ یہ روشنی ہمارے رشتوں میں ہمیشہ روشن یادوں کی طرح رہے، یہ سب دیکھنا بہت پُرکشش لگتا ہے۔

ٹائم اسکوائر کو دنیا بھر میں پیدل چلنے والوں کے لئے مصروف ترین راستہ بھی کہا جاتا ہے۔ عام دنوں میں روزانہ 3 لاکھ کے قریب لوگ پیدل گزرتے ہیں اورروزانہ 1 لاکھ 60 ہزار کے قریب لوگ کاروں، بسوں میں سوار ہوئے یہ روشنی کا دریا پار کرتے ہیں اور خاص دنوں میں یہ تعداد پانچ لاکھ لوگ روزانہ کے حساب تک یہاں پہنچتی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ایک جگہ سے روزانہ کی بنیاد پر گزرنا، کسی بھی پراڈکٹ کے اشتہار کے لئے ایک بہترین جگہ ہے اسی وجہ سے اِن طویل و قامت عمارتوں پر لگی ہوئی اسکرینز دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے نت نئے پراڈکٹس کے اشتہارات سے جگمگاتی رہتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِن اسکرینز پر اشتہار دینے کی قیمت پاکستانی روپے کے حساب سے کروڑوں میں ہے۔

ٹائم اسکوائر کے ایک جانب جہاں بڑے بڑے شاپنگ اسٹورز، ریستوران ہیں وہیں دوسری طرف براڈ وے کے مشہور تھیٹرز ہیں، جہاں ڈرامے کئی سالوں سے جاری ہیں اور آرٹ اور ڈرامے کے شوقین افراد کو کئی دن قبل اور بعض دفعہ کئی مہینے قبل مشہور شوز کی بکنگ کروانی پڑتی ہے اور اِن شوز کی قمیت 8 ہزار پاکسستانی روپے سے لے کر لاکھ تک جا پہنچتی ہے، لیکن اعلیٰ پائے کے فنکاروں کو براہِ راست پرفارم کرتے دیکھنے کا مزہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ٹائم اسکوائر کی وسطی بلڈنگ میں ایک رنگین روشن بال نصب ہے جس پر فی الحال 2017ء لکھا ہوا ہے۔ یہ ہر سالِ نو پر تبدیل ہوتی ہے اور نئے آنے والے سال کے نام سے منسوب کی جاتی ہے۔ اِس تقریب کو دیکھنے کے لئے لاکھوں افراد جمع ہوتے ہیں اور نئے سال کو یادگار بناتے ہیں۔

1904ء سے پہلے یہ جگہ لانگ ایکر اسکوائر کے نام سے مشہور تھی، لیکن جب اُسی سال مشہور امریکی پبلشر ادارے نیویارک ٹائمز نے اپنا صدر دفتر یہاں منتقل کیا تو اِس جگہ کا نام بھی اِسی کے ساتھ جُڑ کر ٹائم اسکوائر میں بدل گیا۔ حتیٰ کہ اُس کے بعد پبلشر کا دفتر کہیں اور منتقل ہوتا گیا لیکن نام نے اِس جگہ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔

دنیا بھر سے امریکہ آنے والے لاکھوں سیاحوں کے لئے نیویارک آئے بغیر شاید ہی امریکہ کا دورہ مکمل ہوتا ہو، اور اگر نیویارک آکر ٹائم اسکوائر تک نہیں آئے تو ایسا ہی ہے جیسے آپ دستر خوان پر بریانی چھوڑ کر صرف سلاد کھا کر چل دیئے۔

میرا دفتر چونکہ کچھ گلیوں کے فاصلے پر ہے، تو عموماََ دفتر سے چھٹی کے بعد کافی لے کر ٹائم اسکوائر کی سرخ رنگ کی سیڑھیوں پر بیٹھ جاتا ہوں اور ہنستے مسکراتے، حیرت میں متبلا لوگوں کو دیکھتا ہوں جن میں سے کوئی شارٹ اسکرٹ میں تو کوئی حجاب میں، کسی کے سر پر پگ تو کسی کے سر پر چھوٹی کالے رنگ کی ٹوپی، تو پھر ناز خیالوی صاحب کا یہ کلام میری نظروں میں گھومتے سوال چھوڑے چلا جاتا ہے،

کبھی یہاں تمہیں ڈھونڈا کبھی وہاں پہنچا
تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا
غریب مٹ گئے، پامال ہوگئے لیکن
کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا
ہو بھی نہیں اور ہر جاء ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو
تم اک گورکھ دھندہ ہو

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

قیصر رونجھا

قیصر رونجھا

قیصر رونجھا کا تعلق لسبیلہ بلوچستان سے ہے، سماجی تبدیلی کے لئے کو شاں ہیں بحیثیت نوجوان لیڈر مختلف غیر سرکاری اداروں سے جڑھے ہوئے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔