دو بیانیے

عابد محمود عزام  منگل 25 اپريل 2017

جب آگ پھیلنے سے ہر چیز بھسم ہوجانا طے ہے تو چنگاری پھینکنے سے احتیاط برتنا لازم ہے۔ جب دیے کی روشنی سے دشمن کو گزرنے میں سہولت ہو تو اسے بجھا دینے میں ہی خیر ہے اور جب انتشار و افتراق سے معاشرے کی بربادی یقینی ہو تو انتشار جنم لینے والی ہر بات سے احتراز لازم ہے۔ قرآن بہت واضح الفاظ میں کہتا ہے: ’’آپس میں لڑو جھگڑو نہیں، ورنہ کم ہمت ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔‘‘ اور یہ بھی سچی کتاب کہتی ہے: ’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ اس بات میں شک کی گنجائش ہی نہیں کہ جو اس سچی ذات کے حکم پر عمل نہ کرے، وہ اپنے لیے خود گڑھا کھودنے والا ہے اور تباہی اس کا انجام ہے۔ معاشرے میں انتشار اور کشمکش بڑھتی جارہی ہے۔

مختلف طبقات کے مابین حائل خلیج مزید گہری ہوتی جارہی ہے۔ ہرکوئی اپنی غلط صحیح بات پر قائم اور فریق مخالف کی ہر اچھی بری بات کو رد کر رہا ہے۔ نت نئے انتشار و اختلافات ہیں، نظریاتی وفکری انتشار ان میں سے سب سے زیادہ گھاتک ہے۔ نادیدہ قوتوں نے قوم کو آپس میں صف آرا کیا۔ فرقہ واریت سے بھی بھیانک اور معاشرے کو انتشار کی گھاٹی میں گرانے والی لبرل و اسلامسٹ کی دراڑ ڈالی، جو بڑھتی چلی گئی۔ دونوں جانب تعصب واضح ہے۔ دونوں اپنے بیانیوں کی سچائی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، مگر دونوں بیانیوں کو جس انداز میں پیش کیا جانے لگا، وہ کاٹنے والی تلوار سے بھی تباہ کن ہے۔

دونوں بیانیوں کے پیروکاروں نے آنکھیں بند کر کے مدمقابل فریق کی ہر بات کا انکار کرنا اپنا مشن بنا لیا۔ لبرل اور اسلامسٹ بیانیے کے علم بردار اپنے تئیں یہ کام بہت ہی نیک نیتی کے ساتھ کر رہے ہیں، مگر اس کے نتائج انتہا پسندی، تعصب، نفرت اور عدم برداشت کی صورت میں عیاں ہورہے ہیں اور معاشرہ دیمک سے کھائی ہوئی لکڑی کی طرح کھوکھلا ہورہا ہے۔ بات بات پر فریق مخالف پر غداری اور کفر کے فتوے، دشنام طرازی جیسے لازم ٹھہرا۔ کسی قوم کے افراد کا اخلاقی طور پر پستی کی گہرائی میں جاگرنا، جارحانہ رویوں کو فروغ دینا، تعصب میں اندھا ہو کر فریق مخالف کی ہر صحیح غلط بات کی مخالفت کرنا بری بات ہے، مگر اس سب کا جواز گھڑنا، اپنے فریق کے افراد کے قابل مذمت رویوں کا بھی دفاع کرنا اور اپنے نظریے کے لوگوں کی غلط باتوں میں بھی ان کے ساتھ کھڑنے ہوجانا ہے، بے انتہا بری بات ہے اور دونوں بیانیوں کے پیروکار یہی کچھ کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نے لبرل و اسلامسٹ کی تقسیم کو مزید گہرا کرنے اور ایک دوسرے میں نفرت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں ہر فرد آزاد ہے، جو جی میں آئے، بیان کرے۔ جذباتی بلاگرز رائے عامہ کے نمایندے بن رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے باعث لبرل و اسلامسٹ میں نفرتیں بڑھی ہیں۔ آئے روز کسی معاملے پر ایک ساتھ رہنے والے لوگ مدمقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، اس بارے اسلامسٹس الگ رائے رکھتے ہیں، لبرلز کی رائے مختلف ہوتی ہے، جو اچھنبے کی بات نہیں، ایسا ہوتا ہے۔ قدرت نے انسان کی فطرت میں اختلاف رکھا ہے۔

سب کا کسی بات پر متفق ہونا ممکن نہیں، مگر اس اختلاف کو نفرت و دشمنی کا معیار بنا لینا، عقلمندی نہیں۔ گزشتہ دنوں مشال کے قتل، ترکی میں ریفرنڈم، افغانستان پر مدر بم سے امریکی حملہ اور دیگر کئی واقعات میں ایک بار پھر دونوں بیانیوں کے پیروکاروں کے مابین اِس خلیج کو بڑھتے دیکھا۔ دونوں فریق دو انتہاؤں پر جاکھڑے ہوئے۔ دونوں نے اعتدال کا دامن چھوڑا، مگر دونوں جانب بعض معتدل مزاج، حق بات کہنے والے بھی موجود ہیں، جنھوں نے اتنی ہی بات کی، جتنی کرنی چاہیے تھی، لیکن اکثریت نے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور یہ اکثریت مڈل کلاس طبقے کی ہے۔ مڈل کلاس کے لوگوں نے خلوص کے ساتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار برتا، اس سے خود ان کے اور معاشرے کی اکثریت کے اصل مسائل دب گئے۔ ملک کے حقیقی مسائل یہ نہیں جو سوشل میڈیا پر بتلائے جاتے ہیں، بلکہ حقیقی مسائل کچھ اور ہیں۔

آپ پاکستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے پر چلے جائیں۔ شہروں کا دورہ کریں۔ دیہات میں لوگوں سے ملاقات کریں۔ مختلف طبقات کے لوگوں سے ملیں۔ ہر مسلک و ہر فرقے کے افراد سے گفتگو کریں۔ ہر مذہب والوں سے بات چیت کریں۔ سب لوگ ایک خدا، ایک رسول کے ماننے والے ملیں گے۔ معاشرے میں اچھائی کو فروغ دینے اور برائی کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کریں گے۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ، میرٹ کی پائمالی، کرپشن، بنیادی سہولیات سے محرومی، صحت کی سہولیات کا فقدان، تعلیم کی زبوں حالی، عدم تحفظ، انصاف کی عدم فراہمی اور سیاست دانوں کی عوام سے دھوکا دہی کا شکوہ کریں گے۔ اگرچہ عمل میں اکثریت کچی، لیکن تقریباً سب ہی اسلام پر عمل کرنے کو کامیابی گردانتے ہوں گے۔ سیرت رسول کی پیروی کو کامیابی کی ضمانت بتلاتے ہوں گے، مگر سوشل میڈیا پر دنیا اس سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر یوں دکھائی دیتا ہے جیسے پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ لبرل و اسلامسٹ کے بیانیے ہیں۔

خدا جانے کن کے اشاروں پر علمیت، سنجیدگی اور تحقیق کے متقاضی مباحث کو سوشل میڈیا کے عوامی پلیٹ فارم پر چھیڑ دیا گیا۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ایک ساتھ رہنے والا متوسط طبقہ دو گروہوں میں بٹ گیا۔ اسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت پھیلائی جانے لگی۔ نفرت اور مذ ہب کا کاروبار خوب چمکا۔ یہ کاروبار کرنے والوں کی شہرت کو چارچاند لگ گئے۔ بہت سے پیروکار میسرآگئے۔ بہت سے واہ واہ خوب کہنے والے مل گئے۔ تعریف تو ہمیشہ کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ مذہب و نفرت کے بیوپاریوں نے کاروبار مزید پھیلادیا۔ الزام تراشی سے بات دشنام طرازی تک جاپہنچی۔ ان کی شہرت کو دیکھتے ہوئے دوسروں کو بھی شہہ ملی۔ سوشل میڈیا پر تقریباً ہر دوسرافرد مذہب اور نفرت کا بیوپاری بن گیا۔

اور یوں جنھوں نے معاشرے کے اتحاد و اتفاق کے لیے جدوجہد کرنا تھی، وہ انتشار و اختلاف کے علمبردار بن بیٹھے۔ جنھیں سماج کے مسائل کے خلاف آواز اٹھانا تھی، ملک پر قابض اشرافیہ کے جبر کے خلاف مڈل کلاس طبقے کے درد کی دوا بننا تھا، وہ تمام لوگ مسائل بھول کر لبرل و اسلامسٹ کی بھیانک خلیج کو مزید گہرا کرنے میں مگن ہو گئے۔ برسوں سے قابض اشرافیہ کے ستم برداشت کرتے غریب و متوسط طبقے کے ہاتھ سوشل میڈیا کا جو ہتھیار ہاتھ لگا تھا اور ان کے حق میں آواز بلند ہونے کی جو امید بندھی تھی، بہت ہی عیاری کے ساتھ لبرل و اسلامسٹ میں تقسیم کرکے اس کو بھی ناکام بنا دیا گیا اور یوں ملک میں کروڑوں لوگوں کے دکھ درد، ان کے مسائل، پریشانیاں اور تکالیف سب لبرل اور اسلامسٹ کی کشمکش میں دب گئے ہیں اور یہ ثابت ہوگیا حکومتیں بدلیں یا بیانیے، عوام کی اکثریت کے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ ان کے لیے کچھ نہیں بدلتا۔ ان کی زندگیاں اکتائی ہوئی ہیں۔ وہ اس اکتاہٹ سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ ایسے میں ان کو لبرل و اسلامسٹ کی گھاٹی میں دھکا دے کر گرا دینا ان کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔ نچلے طبقے کو اپنا لائحہ عمل خود طے کرنا ہوگا۔ ملک میں متوسط و نچلے طبقے کے اسلامسٹس و لبرلز کو مشترکہ طور پر بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن سے مل جل کر ہی نمٹا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔