بُک شیلف

خالد معین / اقبال خورشید  اتوار 20 جنوری 2013
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

بحرِتجلیات

شاعر: ریاض ندیم نیازی

ناشر: ماورا پبلشرز، لاہور

صفحات: 352

قیمت:700روپے

’’بحرِ تجلیات‘‘ نامی یہ حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ کلام معروف شاعر ریاض ندیم نیازی کا ہے، جسے لاہور کے مشہور اشاعتی ادارے ’’ماورا پبلشرز‘‘ نے شایع کیا ہے۔ ریاض ندیم نیازی بلوچستان کے شہر سبی میں قیام پذیر ہیں اور تواتر کے ساتھ حمد ،نعت، غزل اور نظم نگاری کر رہے ہیں۔ ان کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں خوش بُو تری جوئے کرم، ہوئے جو حاضر درِنبیؐ پر (نعتیہ مجموعے) تمھیں اپنا بنانا ہے (مجموعۂ غزل، نظم) اس طرح انہوں نے کچھ کتابیں تالیف بھی کی ہیں، جن میں نعتیہ اور غزل کے اشعار پر مشتعل اٹھارہ انتخاب کے علاوہ بچوں کے لیے دو کتابیں بھی شامل ہیں۔

اب ان کا یہ تازہ حمدیہ اور نعتیہ مجموعہ سامنے آیا ہے، حسب ِ سابق اس مجموعے پر بھی کم و بیش بارہ معروف اہل قلم کے تاثرات موجود ہیں، جن میں اعجاز رحمانی، راجا رشید محمود، ماجد خلیل، عارف منصور، حسن اکبر کمال وغیرہ نے ریاض ندیم نیازی کو ان کے پاکیزہ خیالات، عشق ِحقیقی اور عشق ِ رحمتِ دوجہاںؐ کی سرشاری کی داد دی ہے، اور انہیں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کو قرینے سے بیان کرنے پر شاباش دینے کے ساتھ۔ اس راہ پُرخار کی نزاکتوں سے بھی آگاہ کیا ہے۔

’’بحرِتجلیات‘‘ میں موجود حمدیہ اور نعتیہ کلام کی خاص بات، اس کی منفرد اور تازہ کار ردیفیں ہیں، مثلاً چراغ، ارتقا، یقیں، فروزاں، بحر تجلیاتِ، گلی گلی، آئینہ، حرا، شہِ کونینؐ اور ایسی ہی مہکتی اور تازہ تر ردیفیں اس تین سو باون صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں موجود ہیں اور اپنی بہار دکھا رہی ہیں۔ یہ نئی ردیفیں دراصل دبستان وارثیہ کراچی کے تحت ہونے والے ردیفی مشاعروں کی دین ہیں، جن کے مشاعرے کراچی کے علاوہ کوئٹہ اور پورے پاکستان میں منعقد کیے جاتے رہے اور بیرون ملک بھی ان مشاعروں کا سلسلہ جاری ہے۔

دبستان ِ وارثیہ کے نعتیہ مشاعرے ایک تحریک کے طور پر بھی دیکھے جاسکتے ہیں، اور ان مشاعروں میں ملک کے نام ور شعرا نے عقیدت کے نذرانے سرکار دو عالم محمد ﷺ کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ اسی تحریک سے ریاض ندیم نیازی بھی متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی تمام منفرد ردیفوں پر نعت کے ساتھ ساتھ حمدیہ اشعار بھی لکھے۔ یوں یہ ایک قابل ِقدر کاوش قرار دی جاسکتی ہے، جو ایک باشعور قلم کار کی گہری عقیدتوں کے مہکتے ہوئے نذرانے سمجھے جا سکتے ہیں۔ اب جہاں تک ریاض ندیم نیازی کے طرزِ سخن اور مشاقی کی بات ہے، تو انہوں نے واقعی ایک ایک حمد اور نعت میں اپنی جانب سے خلوص، جذبے، نیت اور شوق کے ساتھ عقیدت اور حضوری کی منزلیں طے کی ہیں اور دعا ہے کہ ریاض ندیم نیازی اسی وفور اور جذبے کے ساتھ مزید اپنا یہ سفر جاری رکھیں۔

 رسل کے رومان

ترجمہ و ترتیب: عابد میر

ناشر: بک ٹائم، کراچی

صفحات: 112

قیمت: 200

برٹرینڈرسل، ایک قدآور فلسفی، ایک قابل احترام ریاضی داں۔ عمومی تاثر تو یہی ابھرتا ہے کہ وہ جمالیاتی ذوق سے محروم، رومان کے تجربے سے نابلد، ایک خشک ذہن اور کثیف مزاج کا حامل شخص رہا ہوگا، مگر ایسا نہیں ہے۔ اِس بیدار ذہن نے اپنی زندگی میں شعر بھی کہے، کہانیاں بھی لکھیں۔ کئی شادیاں کیں، درجنوں معاشقے کیے۔ اِسی معاملے نے مترجم کو تین جلدوں پرمشتمل رسل کی آپ بیتی The Autobiography of Bertrand Russell کو نئے پہلوئوں سے کھنگالنے، اور اُس کے رومانوی تجربات سے نتھی حصوں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی تحریک دی۔

کتاب کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ترجمہ عابد میر کے قلم سے نکلا ہے۔ عابد ایک سنجیدہ افسانہ نگار، قابل مترجم اور بیدار صحافی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ ناشر و اشاعت کے میدان میں بھی سرگرم ہیں۔ ’’پیش لفظ‘‘ میں عابد نے اِس ترجمے کا قضیہ بیان کرنے کے ساتھ اہم سماجی و ثقافتی مسائل کو موضوع بنایا ہے۔ فکری جمود کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کئی اہم نکتے اٹھائے ہیں۔ مترجم کے بہ قول، دقیق موضوعات پر مدلل گفت گو کرنے والا یہ فلسفی (رسل) جب اپنی محبوبہ کو خط لکھتا ہے، تو کسی ٹین ایجر کے مانند نظر آتا ہے۔ اسی رویے کے طفیل رسل کی کتابِ زندگی کے دل چسپ ترین اوراق سامنے آتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ترجمہ ایک کام یاب کوشش ہے، جو رسل کے جمالیاتی ذوق کے ثبوت فراہم کرتی ہے۔

 انتخاب (شعری مجموعہ)

شاعر: نصیر کوٹی

صفحات:248

قیمت: 250 روپے

ملنے کا پتا: مکان نمبر 10، سیکٹر 5-G، بلاک 71، نیوکراچی، کراچی

نصیر کوٹی کا شمار سنیئر شعرا میں ہوتا ہے۔ اُنھیں علم عروض کا استاد تصور کیا جاتا ہے۔ اُن سے استفادہ کرنے والوں کی فہرست طویل ہے۔ نصیر صاحب نے بہار کوٹی جیسے استاد سے استفادہ کیا، مگر ناقدین متفق ہیں کہ اُنھوں نے تقلید سے اجتناب برتا۔ غزل اُن کا بنیادی میدان ہے، البتہ ہائیکو کا بھی تجربہ کیا۔

اُن کا پہلا شعری مجموعہ ’’لذتِ آزار‘‘ کے عنوان سے 82ء میں منصۂ شہود پر آیا تھا۔ 96ء میں اِس کا دوسرا، اضافہ شدہ ایڈیشن شایع ہوا۔ زیر تبصرہ کتاب ’’لذت آزار‘‘ کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کے انتخاب اور تازہ کلام پر مشتمل ہے۔ مجموعے میں شامل غزلوں کی تعداد 104 ہے۔ پانچ نظمیں ہیں۔ دو صفحات ہائیکو کے لیے مخصوص ہیں۔ متفرق اشعار بھی جا بہ جا نظر آتے ہیں۔ مجموعے کے ابتدائی صفحات تاثرات پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر آفاق صدیقی، مہرلال سونی ضیا فتح آبادی، ڈاکٹر اسلم فرخی، احساس دانش و دیگر کی اُن سے فن سے متعلق رائے اِس حصے میں شامل ہے۔ مضمون ’’عرض احوال‘‘ صاحبِ کتاب کے قلم سے نکلا۔

تدریس کے پیشے سے متعلق رہنے والے، کلاسیکی روایات کے پروردہ اِس بزرگ شاعر کے ہاں قدیم روایات کے ساتھ عصری شعور ملتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ نصیرکوٹی کے شعری مجموعے کے لیے باذوق قارئین کو خاصا انتظار کرنا پڑا، جس کے اسباب بے قیمتی اور ناقدری کے المیے میں پیوست ہیں۔ کتاب کی چھپائی معیار ہے، مگر سرورق جمالیاتی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔

 مسافر مکرانی: شیخ ایاز کے افسانے (ترجمہ)

ناشر: مہردر، کوئٹہ،مترجم: ننگر چنا

صحفات:126

قیمت:220

ایک شاعر اور دانش وَر کے طور پر پہچانے جانے والے شیخ ایاز کا شمار عہد ساز شخصیات میں ہوتا ہے۔ بہت کم افراد کو علم ہوگا کہ شاہ لطیفؒ کے بعد سندھی کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جانے والے شیخ ایاز نے افسانہ نگاری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ گوکہ یہ پہلو اُن کے شاعرانہ آہنگ کے آگے دھیما رہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ کا اُن شمار سندھ کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ یہ سفر تقسیم ہند سے قبل شروع ہوا۔ اُن کے افسانوں میں طبقاتی استحصال، سام راجی سازشوں، نسلی منافرت اور عوامی مسائل کی بڑی پختگی اور مہارت سے نشان دہی کی گئی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ زیرتبصرہ کتاب میں شیخ ایاز کے تمام افسانوں کو یک جا کر دیا گیا ہے، جن کی تعداد 23 بنتی ہے۔ یوں شیخ ایاز کے فن و شخصیت میں دل چسپی رکھنے والے اردو قارئین کے لیے اِس کتاب کی اہمیت دو چند ہوجاتی۔ اگر افسانوں کے ساتھ اُن کا سن اشاعت بھی دے دیا جاتا، تو بہتر ہوتا۔

سندھی میں تحریر کردہ اِن افسانوں کو ترجمہ کرنے کا فریضہ، نصیرآباد میں مقیم، ننگر چنا نے انجام دیا ہے، جو قابل اور سنجیدہ مترجم کی حیثیت سے جانے جانتے ہیں۔ کافی عرصے سے وہ ترجمے کے مشکل میدان میں مصروف عمل ہیں۔ ابتداً مدرس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ننگر چنا نے سیاسی میدان میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ مذکورہ کتاب اُن کی تازہ کوشش ہے، جسے ایک کام یاب کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔

 دوستیں وڈھ (افسانے)

ناشر: پرائم ٹائم پبلی کیشنز، لاہور

مصنف: آغا گل

صفحات: 144

قیمت: 200 روپے

افسانہ نگاری کی صنف ہو، یا ناول نگاری کا میدان، آغا گل نے دونوں ہی میں خود کو منوایا۔ سماجی حقیقت نگاری، گُتھا ہوا بیانیہ اور شگفتگی و بے ساختگی میں ملفوف کاٹ دار اسلوب، اپنی زمین کا نوحہ بیان کرنے والے اِس تخلیق کی پہچان ہیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے کہ اردو کے قارئین اُن کے فن سے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔

زیرتبصرہ کتاب اُن کا دسواں افسانوی مجموعہ ہے، جو چودہ افسانوں پر مشتمل ہے۔ ’’بیک فلیپ‘‘ پر طفیل اختر کی رائے موجود ہے۔ اندرونی صفحات میں ڈاکٹر شاہ محمد مری، شمشاد احمد اور فصیح الدین نے آغا گل کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔

مجموعے کا نام کتاب میں شامل افسانے ’’دوستیں وڈھ‘‘ سے لیا گیا ہے، جو اُس پہاڑ اور علاقے سے جُڑی کہانی بیان کرتا ہے، جسے ایٹمی تجربے کے لیے چنا گیا۔ انسانی جذبات سے بُنا یہ افسانہ ایک پُراثر تحریر ہے۔ افسانہ ’’تارمہ‘‘ میں شگفتہ پیرائے میں ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ’’دیوانے غالب‘‘ ایک کاٹ دار اور فکرانگیز تحریر ہے۔ افسانہ ’’شودر‘‘ فرقہ ورانہ تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔ ’’گردنر‘‘ بھی ایک پُراثر کہانی ہے۔

مجموعے میں شامل افسانوں کا ’’لوکیل‘‘ بلوچستان ضرور ہے، مگر اِس کے کردار و واقعات ہر اُس زمین کا احاطہ کرتے ہیں، جو مصائب میں گِھری ہے۔ ایک جانب جہاں افسانہ نگاری کی جرأت کی داد دینی چاہیے، وہیں اُن کی طرز افسانہ نگاری کا بھی چرچا ہونا چاہیے، جو پیچیدہ موضوعات کا بار بہ آسانی سہہ لیتی ہے۔ دس مجموعوں کی اشاعت کے بعد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ آغا گل اپنے افسانوں کا انتخاب شایع کریں، تاکہ قارئین و ناقدین اُن کے فکری و ادبی ارتقا سے آگاہ ہوسکیں۔

آغاگل کی افسانہ نگاری کے برعکس کتاب کی اشاعت کا طریقۂ کار مایوس کرتا ہے۔ جلد اور کاغذ دونوں ہی معیاری نہیں۔ چھپائی ناقص ہے۔ پروف کی غلطیاں بھی ہیں، جو مزہ کِرکرا کر دیتی ہیں۔

غازی علم الدین شہیدؒ

مصنف : عبدالرشید عراقی

قیمت : 495روپے

صفحات:430

ناشر:بک کارنر شوروم بک سٹریٹ جہلم، پاکستان

اس کتاب کے پیش لفظ میں مصنف لکھتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی عزت و ناموس پر کٹ مرنا ہر مسلمان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ کلمہ طیبہ دو حصوں پر مشتمل ہے جس کے پہلے حصے میں عقیدہ توحید اور دوسرے میں عقیدہ رسالتﷺ کا اظہار ہے۔یہ کتاب ایک ایسے ہی عاشق رسول کے بارے میں ہے جس کو دنیا غازی علم الدین شہیدؒ کے نام سے جانتی ہے۔یہ وہی علم الدینؒ ہے جسے انگریز دور میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ میری یہ کتاب غازی علم الدین شہیدؒ کے حالات زندگی کے بارے میں ہے جس نے شیطان صفت راجپال کو توہین رسالتﷺ کے جرم میں جہنم واصل کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی سال کی عرق ریزی اور محنت کے بعد اس کتاب کو پیش کیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ان کی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔

بکھرے موتی ذات کے (طویل کہانیاں)

کہانی کار: شاہدہ خان

ناشر: سامیہ پبلی کیشنز

صفحات:192

قیمت:230

زیر تبصرہ کتاب نوجوان لکھاری، شاہدہ خان کی طویل کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے، جو چار کہانیوں ’’ردا‘‘، ’’کشمالہ‘‘، ’’پھر اک اور نیا عاشق‘‘ اور ’’ٹوٹے ہوئے دل کے تار‘‘ پر مشتمل ہے۔ مضمون ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘ مصنفہ کے قلم سے نکلا ہے، جس میں اُنھوں نے اپنے ادبی سفر پر روشنی ڈالی ہے۔

شاہدہ خان کے تخلیقی سفر کا آغاز اوائل عمری میں ہوا۔ ناول کی صنف سے شروعات کی، جو ایک رسالے کی زینت بنا۔ اِس مجموعے میں شامل پہلی کہانی ’’ردا‘‘ بھی ناول نما ہے۔ کہانی کاری کے علاوہ اُنھوں نے مضمون نگاری اور شاعری کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ اُن کی نگارشات مختلف اخبارات و رسائل میں تواتر سے چھپتی رہی ہیں۔ اِس مجموعے میں شامل کہانیوں میں بیانیہ طرز غالب ہے۔ کہانیوں کی بُنت مضبوط ہے۔ خیال میں پختگی نظر آتی ہے، جسے وہ اپنے مشاہدے کی بدولت بھرپور انداز سے پیش کرنے میں کام یاب رہی ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت و طباعت معیاری ہے، جس پر پبلشر تعریف کے مستحق ہیں۔ البتہ مجموعے پر کسی نقاد کی رائے شامل نہیں، جس کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

جستجو

شاعر: ساجد علی ساجد

ناشر: ادبی دائرہ، کراچی

صفحات:542،قیمت: 450

’’جستجو ‘‘ ایک ایسے معروف شاعر کا پہلا اور آخری مجموعۂ کلا م ہے، جو اب اس دنیا میں موجود نہیں۔ ساجد علی ساجد سے کراچی کے ادبی حلقے بہت اچھی طرح آشنا ہیں۔ کراچی ہی نہیں وہ پورے ملک اور بیرون ملک بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ساجد علی ساجد کا انتقال آٹھ اکتوبر دو ہزار نو کو ہوا اور اس سے قبل وہ کچھ عرصے سانس اور دیگر امراض کا شکار ہوئے۔ یہ تمام عرصہ انہوں نے بڑی ہمت اور صبر کے ساتھ گزارا۔ ان کے اندر زندگی کی بھر پور رمق موجود تھی۔

ایسا لگتا تھا کہ وہ اس بار بھی اپنی بیماری کے طوفان کو شکست دے دیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ساجد علی ساجد شاعر تو بڑے باکمال تھے ہی، انہوں نے اپنے ہاتھوں کی معذوری کو کبھی مجبوری نہ بنایا، بلکہ وہ پہلے تعلیمی اور بعد میں بینکنگ کے شعبے میں نمایاں کام یابیوں کے ساتھ ازدواجی زندگی اور شعروادب کے میدان میں سلیقہ مندی کے ساتھ نت نئی منزلیں سر کرتے رہے۔ زیرِنظر مجموعہ ’’جستجو‘‘ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مرتب کرلیا تھا، لیکن بدقسمتی سے یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا اور اب اسے ان کی بیگم شاہدہ ساجد علی نے بڑی محبت کے ساتھ اپنے شاعر شوہر کی یاد گار کے طور پر پرنٹ کرایا ہے۔

وہ لکھتی ہیں،’’مجھے دکھ ہے کہ یہ کتاب اُن کی زندگی میںنہ چھپ سکی۔ ساجد کے کئی احباب انتہائی خلوص سے وقتاًفوقتاً کتاب کی اشاعت کے بارے میں استفسار کرتے رہے، جس کے لیے میں سب کی انتہائی ممنون ہوں، مگر جناب محسن ملیح آبادی اور مجید احمد صاحب کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیںہیں۔‘‘واقعی شاہدہ ساجد علی نے یہ بات سچ کہی ہے کیوں کہ ’’جستجو‘‘ میں شامل اسی صفحے کا ایک جان دار اور دقیق مقدمہ جو محترم محسن ملیح آبادی نے ساجد علی ساجد کی غزل اور نظم کے تفصیلی مطالعے کی روشنی میں سپرد ِقلم کیا ہے، خاصے کی چیز ہے۔

اسی طرح خود ساجد علی ساجد نے بھی اپنی زندگی کے ابتدائی حالات سے لے کر نوجوانی، شادی، شعرو ادب، ملازمت اور زندگی کے چھوٹے بڑے دکھوں اور خوشیوں کے حوالے سے ایک شان دار خودنوشت بھی لکھی ہے۔ یہ خود نوشت اگرچہ بہت زیادہ تفصیلی نہیں، لیکن اس کو پڑھ کے ساجد علی ساجد کی زندگی کے تمام نشیب و فراز سے ایک سطح پر شناسائی ضرور ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں بہت سے نام ور ناقدین اور شعرا کی مختصر آرا بھی دی گئی ہیں، جو ساجد علی ساجد کے فکرو فن کا احاطہ کرتی ہیں۔

معروف رائٹر اور مزاحیہ شاعر اطہر شاہ خان جیدی، جو ساجد علی ساجد کے قریبی دوست بھی رہے، ان کے لیے لکھتے ہیں،’’ساجد علی ساجد کی شاعری، ان کی شخصیت کے اسلوب، یعنی اسلوب ِ زندگی سے ہم آہنگ نظر آتی ہے، یعنی محبت اور صرف محبت۔ یہ محبت ان کی شعری ضرورت نہیں، بلکہ زندگی کا محور ہے۔ چاہے وہ محبوب کی ہو، اپنی مٹی کی ہو یا اپنے وطن کی۔‘‘ اس طرح ساجد علی ساجد جنہوں نے زندگی بھر دوستیاں کمائیں اور شعر کمائے، کراچی میں شعرو ادب کی فضا کو مرتب کرنے میں جو قابل قدر کاوشیں کیں، ان کا جواب انہیں جانے کے بعد بڑا مثبت دیا گیا، اور یہ بہت خوشی کی بات ہے۔

اب چند باتیں ساجد علی ساجد کی شاعری کے حوالے سے بھی براہ راست ہوجائیں۔ ساجد علی ساجد کے اشعار میں ان کی ذات موجود ہے، عصری منظر نامہ بھی ہے اور ہاتھ کو پتوار بنانے لینے کا حوصلہ بھی۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے حساس شاعر کے طور پر ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جمالیاتی لہر کے ساتھ جا بہ جا بکھرے ہوئے معاشرتی تضادات کی کام یاب عکس بندی بھی موجود ہے۔ یہ غزل اپنا رشتہ روایت سے بھی استوار رکھتی ہے اور جدید حسیت سے بھی آنکھیں چار کرتی ہے۔ یوں اس غزل میں ایک نامیاتی قوت کا احساس ملتا ہے۔ اسی طرح ساجد علی ساجد کی نظمیں ذاتی تجربات اور معاملات ِ دل کی گواہی کے ساتھ اہم قومی اور بین الاقوامی مسائل کی عکاس ہیں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نثر ہو غزل ہو یا نظم یہ تمام چیزیں ایک ہی تخلیقی ذہن کی پیداوار ہیں اور ساجد علی ساجد اپنے پورے تخلیقی نظام میں ایک حیران کُن یک جائی کے مظہر رہے ہیں اور انہوں نے تمام اصناف میں حد درجہ کمال ِ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یوں ان کا شعری مجموعہ ’’جستجو ‘‘ واقعی ایک یادگار مجموعے کی صورت اختیار کرچکا ہے، جس میں طویل نثری مضامین بھی ہیں، مختصر توصیفی آرا بھی ہیں، شان دار غزلیں بھی اور خوب صورت نظمیں بھی یک جا ہیں۔ پانچ سو چوالیس صفحات پر مشتمل اس مجموعے کو بڑے قرینے سے شایع کیا گیا اور قارئین کے لیے اس میں بھرپور مواد موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔