- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
- اسپیکر کے پی اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین سے حلف لینے کا حکم
- امریکا میں چاقو بردار شخص کے حملے میں 4 افراد ہلاک اور 5 زخمی
- آئی پی ایل؛ ’’پریتی زنٹا نے مجھے اپنے ہاتھوں سے پراٹھے بناکر کھلائے‘‘
- اسلام آباد میں ویزا آفس آنے والی خاتون کے ساتھ زیادتی
شام میں انقلاب کی صبح طلوع ہونے کو ہے
شام کی صورت حال گذشتہ دو سال سے ابتر ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ 2013 انقلابیوں کے لیے خوش خبری کا باعث بن سکتا ہے اور بشارالاسد اور اس کے حامی سال رواں میں انقلابیوں کے غیض و غضب سے اپنی آمریت پر مبنی حکومت نہیں بچا سکیں گے۔
لگ بھگ گذشتہ دو سال سے جاری حکومت نواز فوجیوں اور باغی جنگ جوئوں کے درمیان جھڑپوں میں چوالیس ہزار سے زاید افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تاہم جس تیزی سے انقلابیوں کا ملک کے بیشتر حصوں پر کنٹرول بڑھتا جارہا ہے اور بشارالاسد کے حامی اہل کار حکومت کا ساتھ چھوڑتے جارہے ہیں، جنگجو انقلابیوں کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔
اس حوالے سے حکومت مخالف انقلابیوں کے لیے ایک تازہ ترین خوش خبری اس وقت سامنے آئی جب بشارالاسد حکومت کے ایک اہم ترین حامی اور شامی ملٹری فورس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیزجاسم الشلال نے بشارالاسد حکومت کے مزید احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے جنگ جوئوں کی صفوں میں شامل ہونے کا اعلان کردیا۔ شام سے خفیہ طور پر ترکی جانے والے عبدالعزیز نے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ وہ یہ فیصلہ بہت پہلے کرنا چاہتے تھے، لیکن شامی حکومت کے سخت جاسوسی کے نظام کے باعث وہ مناسب وقت کا انتظار کررہے تھے۔ شامی حکومت کو قاتل گروہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ اس دوران پس پردہ حکومت مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں اور انقلابیوں کو اپنا تعاون فراہم کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عنقریب مزید اعلیٰ فوجی اہل کار انقلابیوں کے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔
اگرچہ شامی حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل عبدالعزیز جاسم الشلال کی بغاوت کو غیر اہم قرار دیا ہے، لیکن دوسری طرف ملٹری پولیس میں جاسوسی کے نظام کو مزید سخت کرنے کے احکامات دیے جاچکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل تین دسمبر کو شامی حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمان جہاد مقدسی بھی حکومت سے منحرف ہوکر انقلابیوں سے جاملے تھے۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ بارہ دسمبر کو وزارت داخلہ کی عمارت پر ہونے والے کار بم دھماکا، جس میں شامی وزیر داخلہ محمد ’’ابراہیم الشعار‘‘ شدید زخمی ہوئے تھے، شامی حکومت کی سیکیوریٹی اداروں پر کم زور گرفت کا مظہر ہے۔ اسی طرح گذشتہ جولائی میں شامی وزیر دفاع اور سابق آرمی چیف آف اسٹاف ’’دائود راجحہ، اسسٹنٹ نائب صدر جنرل ’’حسن ترکمانی‘‘ اور قومی سلامتی کے سربراہ ’’ہشام اختیار‘‘ وزارت دفاع کی عمارت میں خود کش حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ حیرت انگیز طور پر خود کش حملہ آور بشارالاسد کی سیکیوریٹی دستے میں شامل سرکاری محافظ تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔