دیہات میں انقلاب

عبدالقادر حسن  جمعرات 27 اپريل 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

اگر میری طرح آپ بھی کسی خاموش اور پرسکون دیہات کی پیداوار ہیں مگر روزی روزگار کی مجبوریوں نے آپ کو کسی شہر کے ہنگاموں کے سپرد کر دیا ہے لیکن پھر بھی دیہات کی خاموشی اور پرامن زندگی آپ سے دور نہیں ہو سکتی اور آپ اسے فراموش نہیں کر سکتے یا یوں کہیں کہ دیہات کی پرسکون زندگی سے آپ دور نہیں ہو سکتے۔

ہمارے بعض دوستوں نے حالات سے مجبور ہو کر دیہی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن ان کی قلم اور سوچ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ ذرا صاف الفاظ میں یوں کہیں کہ آپ دو طرح کی زندگیاں بسر نہیں کر سکتے اور دیہات اور شہر کے فاصلوں میں بھٹکتے رہیں گے، ایک پرانا محاورہ یہی کہتا ہے کہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔ خود میری یہی حالت ہے کہ میں سوچتے سوچتے اور لکھتے دیہات اور شہر کے درمیان بھٹکنے لگتا ہوں۔ کبھی گاؤں چلا جاتا ہوں اور کبھی واپس لاہور آ جاتا ہوں، یوں گاؤں اور شہر کی دو زندگیوں میں زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر محسوس کرتا ہوں کہ شاید کسی دن کہیں کا بھی نہیں رہوں گا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا نہ گاؤں کا نہ شہر کا۔ اس دہری زندگی کا اثر میری تحریر یعنی میرے پیشے پر پڑتا ہے اور میری سوچ دوحصوں میں بٹ جاتی ہے۔

گاؤں کی گرد آلود گلیوں میں اور شہروں کی بنی سنوری گلیوں میں۔ سروں پر یا بغل میں پانی کے مٹکے اٹھائے ہوئے اور کان کے ساتھ موبائل فون لگائے ہوئے۔ یہ ایک ہی مٹی کی بنی ہوئی وہ خواتین ہیں  جو اپنے وجود کو دیکھ کر پریشان ہو جاتی ہیں کہ وہ ہیں کیا اور گزشتہ دنوں جب میں گاؤں میں تھا تو اپنی حد تک میں نے ایک عجیب منظر دیکھا، ایک بغل میں پانی کا مٹکا اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون۔ اگر گلی کا شور گفتگو میں دخل دیتا تو یہ فون کان سے الگ ہو کر کسی دیوار کے ساتھ اپنی مالکہ کی طرح ٹیک لگا لیتا اور گفتگو ختم ہونے کے بعد وہ اپنی مالکہ کی محفوظ مٹھی میں واپس آ جاتا، لیکن اب سائنس کی اس جدید ترین ایجاد کے کئی ٹھکانے بن گئے ہیں اور دیہات کی خواتین اس کی پوری حفاظت کرتی ہیں خواہ اس میں بغل میں اٹھایا ہوا پانی کا مٹکا بھی ٹوٹ جائے اور موبائل زخمی نہ ہوجائے جس کی صحت بہت ضروری ہے۔

میں نے گاؤں میں کچھ پہلے ایک ایسا منظر بھی دیکھا تھا جو کسی عالمی فوٹو گرافی نمائش میں انعام پا سکتا تھا۔ ایک کسان کھیت میں ہل چلا رہا تھا اور اس کے بیلوں کی جوڑی میں سے ایک بیل کے سینگ کے ساتھ ایک ٹیلی فون تھا اور ظاہر ہے کہ کام کرتا تھا، اگر اس وقت اس پر گانے بج رہے تھے تو بیلوں کے حال کا اندازہ آپ خود لگا سکیں تو لگا لیں۔ ہل چلاتا ہوا کاشتکار اور بیلوں کی جوڑی تینوں ایک ہی دھن پر رواں دواں تھے۔ یہ جدید سائنس کے کمالات ہیں۔

اب ٹرانسسٹر آ گیا ہے اس سے پہلے ایک بڑا سا ریڈیو ہوتا تھا جو کسی بیل کے سینگ کے ساتھ بندھا ہوا تو نہیں ہوتا تھا لیکن قریب ہی کھیت کی کسی اونچی جگہ پر رکھا ہوتا تھا جس کی آواز دور دور تک پھیل جاتی، ہل میں جتے ہوئے بیلوں کے ساتھ کاشتکار اور اس کے جانور سب کسی دھن میں مست رہتے تھے اور اسی دھن میں کھیت الٹ پلٹ ہو جاتا تھا یعنی بیج کے لیے تیار کہ اس میں نئے دانے ڈالیں اور نئی فصل کی امید لے کر بیٹھ جائیں۔ زندگی اس قدر تیزی کے ساتھ بدل رہی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کل کیا ہو گا۔ ہمیں بہرکیف اسی تیز اور منہ زور زندگی کے ساتھ چلنا ہو گا ورنہ ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ جہاں دیہات اور شہر کا مقابلہ ہو وہاں دیہات کو ہی شکست ہو گی اور میں عرض کردوں کہ میرا تازہ مشاہدہ یہ ہے کہ دیہات شہروں پر چھا رہے ہیں اور یہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔

اس جنگ کا انجام کیا ہو گا کون جانے لیکن دیہی زندگی میں آگے بڑھنے کی خواہش اور امنگ بہت جاندار ہے اور دیہات کی آنکھیں ایک نئی پرآسائش زندگی دیکھ رہی ہیں جو ان کا حق بھی ہے کہ کیا لازم ہے کہ وہ بھی پرانے زمانوں کی طرح محروم رہیں اور نئی دنیا کو صرف حسرت اور حیرت کے ساتھ ہی دیکھتی رہیں۔ اب یہ سب نہیں چلے گا۔ کبھی کوئی فوجی چھٹی پر آتا تو اپنے ساتھ ٹرانسسٹر لے آتا اب فوجی ٹی وی لے کر آتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو ایک ان دیکھی دنیا کی سیر کراتا ہے، کل کلاں ہو سکتا ہے کوئی ٹی وی سے بھی زیادہ حیران کن تحفہ گاؤں میں پہنچ جائے۔

بہرکیف اس بدلتی ہوئی دنیا میں کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ خود ٹی وی کیا کم حیران کن ایجاد ہے کہ کل کلاں کو اس سے بھی بڑی چیز گاؤں کی دنیا کو بدل دے۔ بہرکیف سائنس کی ایجادات کا انتظار کیجیے اور ذہنوں کو کھلا رکھیے کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کوئی نئی سائنسی ایجاد حیرت زدہ کر سکتی ہے جیسے کبھی ریڈیو تھا اور اب ٹی وی ہے کل کلاں خدا جانے کیا تماشا ہوگا۔ بہرکیف دیہات کی بدلتی ہوئی دنیا کواب کوئی روک نہیں سکتا اور اسے روکنا ہی نہیں چاہیے۔ یہی نئی زندگی ہے اور اس کے کرشمے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔